چرن جیت سنگھ جیسے انسان کیوں مارے جاتے ہیں؟۔۔۔اظہر مشتاق

ایک ایسا معاشرہ جہاں نفرت بانٹی  نہیں ، بوئی جاتی ہواور نفرت کی فصل کو پانی دے دے کر بڑا کیا جاتا ہو،  انتہا پسندی کا عفریت انسانی  اخلاقی قدروں کو نگلتا جا رہا ہو، ایک ہی مذہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہوں ایک ہی کلام کے ذریعے کی جانے والی عبادات پر بھی اہل مذہب متفق نہ ہوں ، جہاں  دھرم   انسانوں کا ذاتی نہیں اجتماعی مسئلہ ہو اور  ذاتی مفاد کی خاطر سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہوا ور کسی  کو زچ کرنے کا آسان فارمولہ اسے زندیق، کافر و ملحد قرار دینا ہو، جہاں ذاتی عناد کی بنیاد پر توہینِ مذہب کے فتوے بانٹے جانے کا شغل عام ہو، ایسے معاشرے   میں طبقاتی تفریق بھی مذہب کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے، اکثریتی مذہب یا عقیدے کے پیروکار وسائل کی تقسیم میں اپنا حق بلا شرکتِ غیر بنیادی سمجھتے ہیں اور اگر کسی دوسرے مذہب کو ماننے والے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو ریاست کے دستور اساسی یا مروجہ آئین سے متصادم قرار دیں تو اکثریتی مذہب کے ماننے والے ریاستی ایماء پر اسکی جان کے درپے ہوتے ہیں۔ یہ خالصتاً پاکستانی معاشرے کی خصوصیت یا صرف اسکے اجزائے ترکیبی میں شامل خواص نہیں بلکہ باقی دنیا میں بالعموم اور سابق متحدہ ہندوستان میں بالخصوص اکثریتی مذہب کے ماننے والے اقلیتی عقیدہ کے انسانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے رہے ہیں  اور کرتے رہتے ہیں۔

ایسے میں چند دیوانے  بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب مل بیٹھ کر سماج کے ناسور کے  علاج کے بارے میں گفت و شنید کرتے ہوئے اس نقطے پر پہنچتے ہیں کہ اگر ہماری بنیادی ضروریات اور بنیادی مسائل ایک جیسے ہیں تو پھر محض عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے سے بہتر ہے کہ ایک مشترکہ آواز بلند کر تے ہوئے ریاست سے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے بحیثیت مجموعی انسانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کاوشیں کی جائیں؟    یہ تما م لوگ سماج کی نچلی پرتوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انسانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی سعی کرتے ہیں، جسکے لئے بین المذاہب ہم آہنگی ، بنیادی انسانی حقوق ، ریاست کی ذمہ داریاں  اور شہریوں کے حقوق و فرائض جیسے موضوعات پر عوام میں ایک شعوری بیداری کی تحریک سے آغاز کرتے ہیں ۔ملکی سیاسی مسائل سے ان کا تعلق محض پائیدار جمہوریت کے قیام اور ایسی سیاسی حکومت کے قیام تک محدود ہوتا ہے جو ریاست کے آئین میں موجود شہری حقو ق کی ضامن ہو اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں ریاست کے کردار کو مضبو ط کر سکے ۔ ابتدائی مراحل میں ریاست ایسے افراد کی سرگرمیوں کو ایک مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے ان پر کوئی آئینی یا قانونی قدغن لگانے سے باز رہتی ہے۔

جونہی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے انسان جب  سیاسی معاملات پر رائے زنی کریں یا مروجہ سیاسی نظام کے ناقد ٹھہریں اور ایک متبادل سیاسی، سماجی اور معاشی نظام  کی بات کرتے نظر آئیں تو ریاست کے سیاسی اور انتظامی اداروں  میں بیٹھے سیاسی اور انتظامی پنڈت ایک نئی عوامی طاقت کے ابھار  کے اندیشے کے پیشِ نظر متفکر ہوتے ہیں ۔ اسی لئے پھر کچھ سماجی ہمواری اور بین المذاہب ہم آہنگی ، ریاستی وسائل اور عوامی مسائل ، ریاست اور شہریوں کی ذمہ داریوں جیسے متنوع مسائل پھر ایک سازش لگنے لگتے  ہیں اور  مرکزی دھارے کی روائتی سیاسی جماعتوں کی قیادت سمیت ، حکومت وقت میں شامل نابغہ روزگار شخصیات نئے سماجی ابھار کو اپنے مستقبل کے لئے خطرہ گردانتے ہوئےسیاسی اور نظریاتی اختلاف کے  باوجود مسئلے کے حل کے لئے سرجوڑ کر بیٹھتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔  قبائلی سماج میں مختلف قبائل کے اکٹھ کو توڑنے کے لئے قبائلی کارڈ جبکہ کثیر المذہبی سماج میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا ایک عمومی رویہ ہوتا ہے اور اس قبیح فعل میں مسجد، کلیسا و مندر کے منتظم ایک عمل انگیز کا کام کرتے ہوئے ایک مذہبی خلفشار کو بڑھاوا دیتے ہوئے بالخصوص بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے کام کرنے والے انسانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ غرباء اور معاشی اعتبار سے پسے ہوئے طبقے کے لئے کھانے پینے اور اپنی استظاعت کے مطابق  لباس کا انتظام کرنے والے سماجی کارکنان پسے ہوئے طبقات کے لئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہوتے، اسلئے ایک عوام کی ایک  مناسب تعداد کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ان کی رائے کو مقدم جانتی ہے۔ سیاسی اشرافیہ اس سارے عمل میں ایک مناسب تعداد کے رائے دینے کے عمل کو حلقہءِ انتخاب میں اہم سمجھتی ہے۔

قیام امن پر کام کرنے والے سماجی کارکنان ، جنونیت اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں کے معاشی فوائد کو زک پہنچاتے  ہیں کیونکہ دہشت  گردی اور اس پر قابو پانے کے لئے جنگ  بعض حلقوں کی پسندیدہ اور منافع بخش سرگرمی ہوتی ہے ۔  اسکے ساتھ ساتھ سماج کے محنت کش اور محروم طبقے میں ریاستی فرائض اور انسانی حقوق کے بارے میں شعوری بیداری کا کام اور انہیں سوال کرنے کی ہمت دینا  طاقت کی غلام گردشوں میں چہ مگوئیاں شروع کرتا ہے اور طاقتور طبقات ، شعوری طاقت سے لیس عوام کے ہاتھ اپنے گریبانوں میں محسوس کرتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کرتے ہیں ۔

ایسے میں ان کے نشانے پر مختلف الخیال لوگوں کے اکٹھ میں سے سب سے نمایاں سماجی کارکنان ہوتے ہیں جنہیں وہ پہلے  مرحلے میں اپنے سیاسی نظریات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس سیاسی بلاک میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ  کسی بھی ملک کے اندر بسنے والے پچانوے فیصد عوام کو کنٹرول کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یا پھر یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ نمایاں سماجی کارکن اپنی سرگرمیاں محدود کریں کہ ان کی دانستہ کاوش کے پیشِ نظر ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں ( ممکنہ عوامی ابھار سب سے بڑا خطرہ ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

چرن دیپ سنگھ اور ان کے ساتھی بھی اسی سماجی بناوٹ میں رہتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے کوشاں تھے، مفلوک الحال لوگوں کو کھانا کھلانا ، رمضان مسلمانوں کی افطاری کا بندوبست کرنا  اور قیام امن کے لئے کوششیں کرنے والا ایک غیر مسلم ، طبقات کے مسلمہ حقیقت کی توجیہہ پیش کرنے والے معاشرے میں قابل ِ قبول کیونکر ہوسکتا ہے کہ  مسجد و منبر سے خوش الحان درس دینا اور دہشت اور خوف کے مضمرات کی عملی تفہیم کو معاشی فوائد سے ماپنے والے کبھی مساوی معاشرتی اقدار کے بوجوہ  متحمل نہ ہو ایسے میں ایک غیر مسلم مسلمانوں کا نجات دہندہ اور آیئڈل بن جائے  تو ماتھے پر شکنوں کے ابھرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کم فہمی اور نالائقی کا احساس سینے میں حسدو نفرت کے شعلے بپا کرتا ہے۔ پھر موثر تنظیم اور ریاست میں عدل و انصاف کے جانبدارانہ نظام کی بدولت ایک انسان کی موت  پر منصف فیصلہ دیتے ہوئے  شاید عقیدے کو مقدم مانیں۔ جب تک ریاست اپنی آئینی ذمہ داریوں کو بظریق ِ احسن نبھانے کی بجائے خاندانوں کے سیاسی اکھاڑوں کا منظر پیش کرتی رہے گی اور قانون وانصاف کی مسند پر بیٹھے حکام سیاسی کُشتیوں کے فیصلے کرنے میں مگن رہے گی چرن دیپ سنگھ ، سنگت سناء، صباء دشتیاری،ہزارہ برادری اور اقلیتی  عقیدوں کے ماننے والے اسی طرح مرتے رہیں گے۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply