تربوز کہانی۔۔۔سلیم مرزا

چھری میں نے بھی دیکھی تھی، مگر توجہ نہیں دی وہ کوئی فٹ بھر لمبی اور زنگ آلود سی تھی ،مجھے اندازہ نہیں تھا کہ صرف بیس روپے کےفرق کیلئے وہ یہ سب کرگذرے گا، اور اچانک ہی چھری اس نے اس کے پیٹ میں گھونپ دی، میرے قدموں سے جان ہی نکل گئی، میری آنکھیں اس منظر کی متحمل نہیں ہوسکیں، وہ پلکیں جھپکنا بھول گئیں ،میں وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا،اس پہ جیسے جنون سوار تھا چھری ایک بار پھر لہرائی، اور وہ اندھا دھند چھریاں چلاتا رہا۔۔
میں قریب پڑے  لکڑی کے لمبے بنچ پہ ڈھے گیا،ایک دم ، اس نے اس کے پیٹ میں گھونسہ دے مارا، پھر پیٹ میں ہاتھ ڈال دیا۔۔
“لو جی، اب بتائیں، لال  ہے  کہ نہیں ” اس نے تربوز کی “ٹکی “میری آنکھوں کے سامنے لہرائی۔
میں بینچ سے یوں اٹھا، جیسے بندہ اقامہ پہ نااہل ہونے کے بعد اٹھے۔
اس نے تربوز شاپر میں ڈالا، میں نے پیسے دئیے اور شاپر اٹھائے مرے مرے قدموں سے چل پڑا۔
میرا حال اس بچے کا سا تھا جس کی سالگرہ کا کیک کوئی اور کاٹ کر کہے، ہیپی برتھ ڈے۔۔
یا اس دولہے کا سا، جس کی دلہن کا   گھونگھٹ کسی اور نے اٹھایا ہو، لال ہے، لال ہے کی آواز میرے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔
میرے دماغ میں دکاندار کی وحشیانہ چھری کی فلم چل رہی تھی،وہ خوشی جو ارینج میرج کے سے محسوسات جیسی ہوتی ہے  وہ اس کمینے نے مجھ سے چھین لی تھی ، میں  گھر جاکر اسے نہلاتا، چھ گھنٹے فریج کے پارلر میں رکھتا، پھر میلامائن کی پھولوں والی ٹرے میں اسے رکھتا، سارا خاندان اس کے گر د گھیرا ڈالتا، سانس روک کر اسے کاٹتے،پھر جب دو حصوں میں انتہائی محبت سے کھولتے تو اس کے لال نکلنے کی خوشی بیاں سے باہر  ہوتی،
“گھٹیا انسان”میں نے دل ہی دل میں گالی دی۔۔
دائیں سے بائیں، اور بائیں سے دائیں ہاتھ منتقل ہو ہو کر اور آٹھ کلو وزن سے شاپر لمبائی کے رخ لمبا ہوتا ہوتا زمین سے لگنے لگا،پھر اچانک پھٹ گیا، مجھے ا ندازہ تھا، کچھ زمین سے تربوز کا فاصلہ بھی کم تھا، چنانچہ لڑھکنے سے بچ گیا، میں نے اسے گود میں اٹھالیا۔
گھر سے تھوڑے ہی فاصلہ پہ میرا پیٹ پسینے سے بھیگ گیا۔
وہ چھری کے اوچھے وار سے رستا ہوا واٹر تھا جو میلن سے جدا ہو کر پیٹ پر سے ہوتا ہوا پینٹ کو جہاں سے گیلا کر رہا تھا، اگر میری بیوی کی کوئی سہیلی دیکھ لیتی تو اسے فون کر کے ضرور کہتی کہ شوھر کو پیمپر کے بغیر باہر  نہ بھیجا کرو۔۔
اب چپپچپاہٹ اتنی بڑھ چکی تھی کی میں باقاعدہ ٹانگیں کھول کر چلنے لگا، میرے پیٹ پہ بھی کبھی شرٹ چپکتی، کبھی تربوز چپکتا،اور جو جو کچھ چپک رہا تھا وہ بتانے لائق نہیں تھا، اب میرے سارے نازک احساسات جلدی گھر پہنچنے کی خواہش میں ڈھل چکے تھے،
گھر کے اندر آتے ہی، میں سیدھا کچن میں گیا، ٹرے ڈھونڈی، تربوز رکھا اور باتھ روم میں گھس گیا، ٹھنڈا پانی پڑتے ہی میرے جذبات جاگ گئے، کیا ہوا جو اس نے کاٹ دیا، تربوز اب بھی تو میرا  ہے ۔کسی کے اپنے پن کی ساری جذباتی وابستگی میری روح تک کو سرشار کر گئی، نہا کر شیشے میں خود کو دیکھا تو تربوز کی ساری خوبصورتیاں میرے چہرے سے جھلک رہی تھیں
“انہی حرکتوں سے خالد شانی جیسے پکڑے جاتے ہیں ”
ورنہ سعید سادھو جیسے خرانٹ جڑواں بچوں کی پیدائش کی مبارکباد پہ بھی بیگم کو یوں دیکھنے لگتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں۔۔”پھڑوا دتا ای ناں ”
میں بھی کتنا احمق ہوں کہاں شاعر دیوانے، کہاں دوانے!
اب کیک کاٹنے جیسی خوشی لئے، رس برساتی پھانک پھانک کا تصور لئے جیسے ہی میں ٹنڈ پہ تولیہ رگڑتا باہر  نکلا تو میری جان ہی نکل گئی، عائشہ آلتی پالتی مارے، وحشیانہ انداز میں تربوز کی “ٹکی ” کھا رہی تھی۔
میں اس کے مقابل بیٹھ گیا، تربوز کے اندر تک نظر جارہی تھی، اتنے میں بڑا بیٹا چھری لے آیا، واقعی پتر ہی باپ کی خواہش سمجھ سکتے ہیں۔
وہ میرے قریب بیٹھ گیا، اتنی نفاست سے آدھا کیا کہ انچی ٹیپ سے بھی نہ ہوتا، آدھے تربوز کا وہ کاسہ سا بڑی محبت سے ایک ہاتھ میں اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے انتہائی بیدردی سے انگلیاں گھسیڑ کر درمیانی حصہ یوں نکالا، جیسے پہلی معشوق نے میرا دل نکالا تھا۔
میری سانس رک گئی، اس سے  پہلے کچھ کہہ پاتا وہ آدھا تربوز لے جاچکا تھا،میں اسکے تعاقب میں جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کال بیل بج اٹھی،
میں مبینہ تربوز کو چوکس نظروں سے دیکھا، عائشہ ابھی بھی “ٹکی ” سے لڑ رہی تھی، تربوز کو فی الفور کسی سومو ٹو ایکشن کا خطرہ نہیں تھا،دروازے پہ چھوٹا بیٹا فیضان تھا، اسکول سے آیا تھا، مجھے سلام کیا، اور سیدھا اندر گھس گیا،
دروازہ بند کرکے میں گولی کی تیزی سے اس کے تعاقب میں لپکا، مگر دیر ہوچکی تھی،
اب چھری عائشہ کے ہاتھ میں تھی اور تربوز فیضان کے پاس، جھگڑا شروع ہو گیا، آخر طے ہواکہ باقی آدھے تربوز کو دوحصوں میں ایسے بانٹا جائے جیسے سرائیکی صوبہ کےلیے پنجاب۔۔۔
اب فیضاں حصہ بقدر جثہ تربوز لے جاچکا تھا، اتنے میں بیگم کمرے سے نکلی اور سیدھی میرے سر پہ کھڑی ہو کر گھورنے لگی،
“یااللہ، اب میں نے کیا کردیا؟ ” خوف سے کوئی تازہ ترین واردات بھی یاد نہ آئی
“کوئی حیا، شرم  ہے  کہ نہیں؟ ”
“میں نے کیا، کیا؟ “اپنی آواز میں رعب ڈالا مگر ٹھیک سے ڈلا نہیں۔
“ایک تو خود روزہ نہیں رکھتے،دوسرا روزہ خوری کی  نئی نئی ترکیبیں سوچتے ہو “بیگم نے یہ کہتے باقی بچا تربوز اٹھا لیا اور بولی”فریج میں رکھنے لگی ہوں، افطاری کیلئے، کوئی ہاتھ نہ لگائے اسے، کمبختوں کو روزہ داروں کا ذرا احساس نہیں ”
وہ تربوز لیکر چلی گئی، میں نے سگریٹ سلگایا، اور سوچا کہ سگرٹ کی وجہ سے روزہ چھوڑیں تو سارا دن دھواں ہی ملتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تربوز کہانی۔۔۔سلیم مرزا

  1. بہت شاندار تربوز کہانی. میں سمجھا تھا خالی ٹنڈ ہی قدر مشترک ہے ہم دونوں میں.مگر اب پتہ چلا کہ عادتیں بھی ایک جیسی ہی ہیں.

Leave a Reply