دولت انسانیت کی قینچی ہے۔۔۔اسد مفتی

پچھلے دنوں میری بھتیجی نے کہا انکل!ایک سوال بہت دنوں سے کِھلتا ہے کہ جس قوم کے پاس زکوٰۃ جیسا سسٹم موجود ہے میں نہیں سمجھ  پاتی کہ و ہ قوم غریب کیوں ہے؟کیوں  کہ میرا مطالعہ تو یہ ہے کہ زکوۃ جس قوم کے پاس ہو وہ غریب نہیں رہنی چاہیے۔ تمہارے پاس اس کا تشفی بخش جواب کیا ہے؟
میں نے نوشین کو بتایا کہ جس طرح ادھار محبت کی قینچی ہے اسی طرح دولت انسانیت کی قینچی ہے۔ علم دین کا تعلق جب تک روٹی روزی سے نہ جڑے گا انسان علم دین سے غافل ہی رہے گا۔ کہ بیشتر لوگ اپنے مفادات کے لیے مذہب کو تو مانتے ہیں لیکن مذہب کی نہیں مانتے۔ موجودہ زمانے میں علم دین کے شعبے میں مادی فوائد بہت کم ہوگئے ہیں اس کے بجائے دینوی اور مادی شعبوں میں مالی فوائد بے پناہ حد تک بڑھ گئے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اعلی ذہن اور اعلی صلاحیت کے لوگ غیر دینی شعبوں کی طرف بھاگ گئے اور دینی شعبوں میں کام کرنے کے لیے صرف تیسرے درجے یا رائج الوقت اصطلاح ،دو نمبر کے لوگ باقی رہے۔ میں نے اس طویل تمہید کے بعد نوشین کو بتایا کہ نظامِ زکوۃ اسلام کو وہ مستحکم نظام ہے جس کے صحیح طور پر رائج ہونے سے پورے مسلمان معاشرے کی معاشی حالت درست ہوسکتی ہے۔ اور مسلمان مالی پس ماندگی سے اوپر اٹھ سکتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلم معاشرے میں زکوۃ کا نظام مکمل طور پر رائج نہیں ہے۔بہت سے صاحب ِ ثروت اور صاحبِ نصاب زکوۃ ادا نہیں کرتے اور جو لوگ زکوۃ ادا کرتے بھی ہیں ان کا مصرف مناسب نہیں ہوتا،اس لیے جو زکوۃ کی رقومات نکلتی ہیں ان کا بڑا حصہ  ضائع ہو جاتا ہے۔ ملکِ عزیز میں اجتماعی زکوۃ کے نظام پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
میرے حساب سے بہت سے صاحبِ نصاب تو زکوۃ کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں ۔
میں نے مزید تفصیلات میں جاتے ہوئے ا سے بتایا کہ زکوۃ ہر مسلم پر فرض ہے ۔جس کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو ،زکوۃ کا نصاب 87 گرام(480 ملی گرام) سونا یا اس کی قیمت کے بقدر چاندی ،رقم یا سامان تجارت ہے۔ ایسا نصاب جب سال بھر کسی ملکیت میں رہے تو اس پر زکوۃ فرض ہوجاتی ہے۔ صاحبِ نصاب اگر کسی سال کی زکوۃ پیشگی دیدے تو یہ بھی جائز ہے،البتہ اگر بعد میں سال پورا ہونے سے پہلے مال بڑھ گیا تو اس اضافی مال کی زکوۃدینا ہوگی جس قدر مال ہے ،اس کا 40 واں حسہ دینا فرض ہے۔یعنی ڈھائی فیصد ،سونے یا چاندی یا جس مالِ تجارت پر زکوۃ فرض ہے اس کا 40 واں حصہ دینا بھی صحیح  ہے۔ مگر قیمت خرید نہ لگے گی، بلکہ زکوۃ فرض ہونے کے بعد بازار میں جو قیمت ہوگی اس کا 40 واں حصہ دینا ہوگا، کسی فقیر کو اتنا مال دے  دینا کہ جتنے مال پر زکوۃ فرض ہوتی ہے،مکروہ ہے، مقروض کو اس کے قرضہ کے بقدر یعنی جس سے اس کا قرضہ ادا ہوسکتا ہے دینا جائز ہے۔ خواہ قرض کتنا ہی ہو ،زکوۃ ادا کرنے کے لیے یا ہونے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ جو رقم کسی مستحق زکوۃ کو دی جائے وہ کسی خدمت یا عمل کے ،معاوضہ میں نہ ہو صرف اللہ کے لیے ہو ۔ایسا کرکے آدمی اپنے دل سے مال کی محبت کو نکالتا ہے وہ اس یقین کو تازہ کرتا ہے کہ اس کے پاس جو مال ہے وہ خدا اور اس کے بندوں کی امانت ہے نہ کہ اس کی ذاتی ملکیت ،اس طرح وہ اپنے اندر اس احساس کو جگاتا ہے کہ اس کے اوپر دوسروں کا حق ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زکوۃ کی رقم مستحق زکوۃ کو مالکانہ طور پر دی جائے جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو اس کے مالکانہ قبضے کے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
جب ایک آدمی زکوۃ کے تحت کسی کو کچھ دیتا ہے تو بظاہر وہ کسی غیر کو دے رہا ہوتا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کا رخ خود دینے والے کی طرف ہوتا ہے ،دوسروں کو دے کر آدمی خؤد اپنی مدد کا اہتمام کرتا ہے ۔زیور ،برتن ،فرنیچر حتیٰ کہ سچا گوٹا و اصل زری کا کام ( چاہے کپڑوں پر لگے ہوں ) سونے چاندی کے بٹن اور انگوٹھی وغیرہ پر بھی زکوۃ فرض ہے۔ کسی کے پا س کچھ روپیہ ،کچھ سونا ،کچھ چاندی اور کچھ مال تجارت ہے مگر علیحدہ علیحدہ ان میں سے کوئی بھی بقدر نصاب نہیں تو سب کو ملا کر دیکھیں گے اگر مجموعی 612 گرام چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوۃ فرض ہوجائے گی۔ اور اگر اس میں سے کم رہے گی توس اس پر زکوۃ فرض نہیں ہوگی،
یاد رہے کہ نصاب میں چاندی کا اعتبار کیا گیا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ملت اسلامیہ میں زکوۃٰ کے اجتماعی نظم کا تصور نہیں ہے ،اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زکوۃ کی رقومات سے جن بڑے اور قابل قدر ممنصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے وہ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں پاتے ،جب تک زکوۃ کا اجتماعی نطام اپنی جڑیں نہ پھیلائے گا ہمیں اس کی کامیابی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ۔ہر صاحب نصاب کو سب سے پہلے یہ سوچنے اور اپنے اندر یہ احساس بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ زکوۃ کا اسلامی نظام کتنا جامع اور ہمہ گیر ہے، اس سے ملت اسلامہ کو کتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔ کشور حسین شاد باد میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 19 کروڑ سے زائد ہے اگر ان کی زکوۃ اوسطاً دو ہزار روپے بھی ہوتی ہو تو یہ سمجھ لیجئے کہ ہر سال ہمارے پاس دو ہزار کروڑ جتنی خطیر رقم جمع ہوسکتی ہے،۔ (جبکہ یہ محض ایک مثال ہے میرے حساب سے اس کے کئی گنا زیادہ رقم بطور زکوہ نکالی جاتی ہے)
ذرا سوچیے کہ یہ کتنی بڑی رقم ہے اور اگر یہ رقم ہمارے سامنے ہو تو ہم اسے صحیح طور پر گننا تو درکنار آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہ پائیں گے ،
اب یہ سوچیے اگر اتنی خطیر رقم ( جبکہ 18 کروڑ مسلمانوں کو ابھی چھوا بھی نہیں گیا) جو کہ صرف ایک کروڑ مسلمانوں کی ادائیگی زکوۃ کی مد میں اکٹھی ہوئی ہے اس سے مسلمانوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے کتنے اور کیسے حیرت انگیزکام کیے جاسکتے ہیں ؟۔۔۔ آج مسلمان غریب اس لیے ہے کہ اس کے پاس روزگار نہیں ہے ،علم نہیں ہے،روزکار اور علم حاصل کرنے کے لیے اسے در در کی ٹھوکریں بھی کھانا پڑتی ہیں اور ذلت و خواری کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے، میں جانتا ہوں مسائل کا رونا رونا ایک بات ہے اور مسائل کو پہچاننا اورانہیں بروئے کار لانا دوسری بات ہے ۔ ملک شاد باد کے باسی 70 سال سے مسائل کا رونا روتے آرہے ہیں اور وسائل کی تنظیم کی طرف کبھی راغب نہیں ہوئے، اس کی کیا وجہ ہے ؟
میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیے۔
کر رہا ہوں میں ایک پھول پر کام
روز ایک پنکھڑی بناتا ہوں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply