کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط32

ریاض میں قیام کی باقیات!

وقت کی تنگی کا شکوہ ہم سبھی کرتے ہیں، لیکن وقت کے وافر مقدار میں ہونے اور اسے گذارنے کے لیے شغل تلاش کرنے کی شکایت ہم کبھی نہیں کرتے۔ میرے پاس اپنے تخلیقی کام کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ کتابیں جو میں امریکا سے لے کر گیا تھا، وہی تھیں، لائبریری کوئی سرے سے تھی ہی نہیں، اس لیے دیگر دوستوں کی طرح ہی دیگر دوستوں سے میں نے کتابیں مستعار لینا شروع کر دیں ۔ سامان اکٹھا کرنے کی تو کوئی تُُک تھی ہی نہیں، اس لیے یہ کتابیں باقاعدگی سے واپس ہو جاتیں اور کچھ اور کتابیں مانگ کر لے آتا۔ اپنے مرحوم والد صاحب سے وکالت کے پیشے کی ایک اچھی عادت سیکھی تھی، جب وہ کسی دوسرے شہر یعنی لاہور، دلی، مدراس وغیرہ میں بھی کسی مقدمے کے فیصلے کی روداد اخبار میں پڑھتے تو اس کا تراشہ اپنی فائل میں رکھ لیتے۔میں کتابوں میں سے تراشے تو نہیں کاٹ سکتا تھا لیکن کچھ اقتباسات جو مجھے پسند آتے تھے، میں اپنی نوٹ بک میں اپنے قلم سے لکھ لیاکرتا تھا۔ یہ نوٹ بک آج تک میرے پاس موجود ہے اور اس میں انگریزی اور اردو سے نقل کیے ہوئے ایک سو سے کچھ اوپر اقتباسات ہیں۔ کچھ پر مصنفین کے نام نہیں ہیں۔ میں اب سعودی عرب سے پائی ہوئی نعمتوں کا ذکر لکھنے بیٹھا ہوں، تو مجھے یہ نوٹ بک یاد آ گئی ہے۔ میں کچھ ایک اچھے مندرجات کو نقل کر رہا ہوں، ان کی صحت اور ان کے لکھنے والوں کے ناموں کی صحت … دونوں مشکوک ہیں، (کچھ ایک تو شاید میرے اپنے ہی منتشر خیالات ہیں! مثال کے طور پر نمبر ایک پر دیا گیا اقتباس شاید خود نوشت ہے، لیکن میں اس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا اور اب اس کا کوئی علاج بھی میرے پاس نہیں ہے۔)

کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/ قسط نمبر31
(ایک)
ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ایک باحس شاعر کے کلام میں خاموشی سے کچھ ایسی تبدیلیاں در آتی ہیں جن کا اسے خود بھی احساس نہیں ہوتا۔”پختگی“ سے مراد اگر اسلوبیاتی سطح پر مرصع ساز کی سی نفاست اور کاریگری ہے اور اگر یہ قدرت جذبات اور مشاہدات کی تازہ کاری کی قیمت پر حاصل کی گئی ہے تو ایسی پختگی سے وہ نوساختہ اچھوتا پن بے حد اچھا ہے جسے انگریزی نقّادوں نے، شاعروں کے ابتدائی کلام کے تناظر میں juvenalia کا نام دیا ہے اور جو ان کی تخلیقی قوت کی کارکردگی کی پہلی کچی بلوغت کا شعری اظہار ہے۔ ہاں، اگر بدلتے ہوئے شعری سیناریو کے ساتھ ساتھ موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطحوں پر یہ تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں اور juvenalia کی اونچی نیچی چٹانیں عہد شباب کی اٹھان میں ڈھل کر ایک بلند و بالا پہاڑ سی نظر آنے لگی ہیں، تو یقینا یہ ایک نیک فال ہے۔

(دو)
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے ایک اقتباس۔ ”ادب میں انحراف بھی حقیقتاًادبی روایت میں کسی مقام کسی وضع یا کسی تصور یا کسی دلالت سے انحراف ہوتا ہے، اور چونکہ یہ روایت کے اندر واقع کسی مقام پر ہوتا ہے، اس کی معنویت یا نئی متنیت (یا نئی شعریت یا نئی جمالیات) بھی اس کے رشتے کے ربط و تضاد سے قائم ہوتی ہے جو نئے اور پرانے ان دو مقامات کے درمیان مرتب ہوتا ہے۔“ (ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات۔(صفحہ 482) کبھی نارنگ صاحب ملے تو پوچھوں گا کہ کیایہ بات اگر اس طرح کہی جائے تو زیادہ صحیح نہیں ہو گی کہ ہماری فکر و نظر میں انحراف Semiotic کے جبرسے متصادم ہونے کے عمل سے پیدا ہوتاہے اور اس کا زبان کے لینگ سے متعلق ہونا ہمیشہ لازمی نہیں، اور اگر یہ صحیح ہے تو روایت سے انحرا ف سو فیصد کبھی ممکن نہیں۔ میں نے اپنی نظمیں شعریات اور قواعد سے بغاوت کے ایک طے شدہ لائحہ عمل کے تحت لکھی ہیں، اس لیے یہ بغاوت یا انحراف خود ارادی تھا اور کسی لاشعوری عمل یا غیر شعوری القاء کا حصہ نہیں تھا۔روایت سے انحراف زیادہ تر موضوعات کے انتخاب میں یا اسلوب کی رنگارنگ پچی کاری میں نظر آنے لگتا ہے۔ اسلوب میں تو خصوصی طور پر اس کا کام نمایاں نظر آتا ہے کہ یہ لینگ میں ایک واضح تبدیلی لانے کا محرک ہو سکتا ہے۔ نسبتاً  موضوعات کے انتخاب کی سطح پر اس کی کار کردگی کا دائرہ محدود ہے۔ آخر میں وہی بات دہرا رہا ہوں کہ انحراف اور بغاوت کے ارادے سے عمل میں لائی گئی روایت شکنی ارادی ہوتی ہے، اس کو روکنایا ٹوکنا ایک ایسا عمل ہے، جس سے الٹا ہی ہمارے سیمایوٹیکس کا جبر اس کا معاون بن جاتا ہے۔

(تین)
ایک بات اور جو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے وضاحت طلب ہے، اپنی ڈائری میں نوٹ کر رہا ہوں کہ کبھی ملے تو پوچھوں گا۔ جو لوگ جدیدیت کے کیمپوں سے فرار ہو کر، ان کے (یعنی نارنگ صاحب کے) خیالات کے زیر اثر ما بعد جدیدیت کے خیموں میں اعلانیہ وارد ہوئے کیاوہ ٓآج بھی جدیدیت کی ژولیدگی، غیر واضح اور جان بوجھ کر لائی گئی تجریدیت اور علامات کے استعمال کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر رہے ہیں،اب کسی قسم کی شعری یا نثری تخلیقات پرڈیوس کر رہے ہیں؟

(چار)
کیا شاعری مختلف ”اقسام“ میں تقسیم کی جا سکتی ہے؟ کیا اس کی درجہ بندی کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی شاعری اعلی ہے اور اس قسم کی اسفل ہے؟ تسلیم کہ ہمارے ہاں زمانہ ء  قدیم سے کچھ ناموں کے چوکھٹے لکھ لیے گئے تھے اور ہم بغیر کسی جھجک کے ان کو (اعلےٰ اور اسفل میں تمیز کیے بغیر) آویزاں کر کے یہ فرض کر لیا کرتے تھے کہ ہم نے  ان کی درجہ بندی کر دی ہے۔ یہ رزمیہ شاعری ہے۔ یہ بزمیہ شاعری ہے، یہ شاعری معلمانہ یا ناصحانہ یا مدرسانہ ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہر قسم کی شعری تخلیق جو versificationکے زمرے میں فِٹ آ جائے، شاعری ہے۔ گویایہ تمیز بھی ضروری نہیں ہے کہ قافیہ پیمائی کے عمل کے دوران کس شاعری میں signified کا خاکہ پہلے سے ہی تیار کر لیا جاتا ہے اور وہ کون سی شاعری ہے جس میں signifier کا ظہور epiphany کی طرحLet There by Light یا ”کُن“ کی آ واز کے ساتھ ایک پکے ہوئے آم کی طرح ٹپک پڑتا ہے۔ اور یہ سب کچھ لکھنے کے بعد اگر میں خود سے یہ سوال کروں کہ صنف غزل کے زمرے میں آنے والی شاعری کس قبیلے سے تعلق رکھتی ہے، تو جواب کیا ہوگا؟ اور اگر جواب پہلے سے طے شدہ signified کی آؤٹ لاین کا ہے، تو اسے اسفل شاعری کہنے میں کیا قباحت ہے؟
Man is the measure of all things …..
کس نے کہا تھا یہ؟یہ ضرب المثل Petrarch کے ایک جملے کا حصہ ہے لیکن آج کے ہیومنزم کا اوڑھنا اور بچھوناہے۔ سولہویں صدی میں سر تھامس مور Sir Thomas More(1478-1535) اور مانٹین ؔMontaigne (1533-92)نے اس اصطلاح کو مذہب کے حوالے سے دیکھا،لیکن خدا کو انسان کی ذات سے الگ کر کے اسے انسان کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا عمل جاری رہا۔ اپنے اپنے علمی میدان ِ اختصاص میں Hobbes, Lock نے اس تصور کو وسعت دی۔ تب انیسویں صدی کے آخر میں ایک وقت وہ بھی آیا جب ”انتہا پسند الحاد“ اور ہیومنزم کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا گیا۔اس  صدی میں انسان کو ایک ’خود مکتفی‘ Entity that is Totality also (وحدت جو کُل کو بھی اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے)تسلیم کر کے اس بات پر اصرار کیا گیا انسان صرف خود مکتفی، اشرف المخلوقات لاانسان ال ما سعا ہی نہیں ہے وہ کائنات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جب 1933ء میں امریکا میں ڈی ہیومنسٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی۔تو اس کے منشور کی پہلی سطر یہ تھی جو آج تک قائم ہے۔
Humanism the faith in supreme value and the self-respectability of Human Personality.
یعنی انسانی حقوق، مساوات، رواداری…اور ان اصولوں کے تحت انسان کے مسلسل ارتقا کے لیے انسان خود کفیل ہے اور اسے کسی آسمانی قوت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ساختیاتی مفکر جیکس لاکاں ؔکا قول ہے کہ ایک بچہ جب پہلی بار آئینے میں خود کو دیکھتا ہے تو اس کے ننھے سے دماغ میں اپنا عکس ایک ماورائی ہیولیٰ کے علاوہ او ر کچھ نہیں ہے۔اسے لاکاں میراۃ ا ٹیج کہتا ہے۔ لاکاں کا خیال ہے کہ یہ بعدکی کہانی ہے کہ نشانیات کی گواہی سے اور لسّانی نظام کے ذرائع سے بچہ دنیا سے واقف ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(پانچ)
انا پرور ی میں سمجھتا ہوں ایک وبا کی طرح اردو ادب میں گھس آئی ہے۔ مکتبی حیثیت یا حکومتی اداروں کے سربراہ ادب میں بھی نقاد یا شاعر کے طور پر سر براہی کا فریضہ سر انجام دینے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اور یہ باور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ اردو کا پروفیسر ہونا یا اردو اکادمی کا صدر یا ڈائریکٹر ہونا انہیں یہ حق ہرگز نہیں دیتا کہ وہ ’مستند ہے مئیرا فرمایا ہوا‘ کہہ کر یہ دستار ِ فضیلت خود ہی اپنے سر پر رکھ لیں۔پچاس کی دہائی میں جب میں فلسفہ میں بی اے (آنرز) کا طالبعلم تھا، میں نے ایڈلر Adler Alfred (1870-1937)کی انانیت اور مطلقیت کے بارے میں آراء کو بغور پڑھا تھا۔ آسٹریا کے اس مفکر نے انسان کے اندر اس پیدائشی عنصر کو سائنس، منطق، تشکیک اور تحلیل کے عمل سے گذار کر ایک بات آسان زبان میں کہی تھی کہ یہ احساس برتری اس احساس کمتری کا زائدہ ہے، جس میں ایسے اشخاص مبتلا رہتے ہیں، جو دوسرے لوگوں پر نکتہ چینی اپنے زعم میں اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ان سے کمتر ہیں۔۔ ادبی تنقید کا پیمانہ خطابت کی زبان نہیں ہے، علمیت کی بھاشا ہے۔ اپنی کم علمی پر پردو ڈالنے کے لیے ایسے اشخاص اکٖثر و بیشتر اپنی تقریر اور تحریر میں مطلقیت کا عنصر شامل کر دیتے ہیں اور اس لحاظ سے اس پر اعتراض کی گنجائش کے لیے دروازہ بھی وا نہیں رکھتے۔ ”فلاں شاعر غالب سے بھی بہتر شاعر ہے“، اسی قسم کی ایک تیقن بکف بات کا چرچاپچھلے برس ان صفحات پر اور اخباری کالموں میں بہت زیادہ ہوا۔ کہنے والے ایک ہندوستانی نقادتھے (شاید شمس الرحمن فاروقی) اور جو بعد میں تردید او ر باز دعویٰ کے منفیانہ عمل میں مصروف رہے، اور جس شاعر کے بارے میں کہا گیا (یا نہیں کہا گیا تھا) وہ ایک پاکستانی غزل گو شاعر (ظفر اقبال) تھے،جو اس بات پر مصر رہے کہ قول ِ صالح ان کے اعلام میں ہے اور نقاد موصوف نے واقعی انہیں غالبؔ اور میرؔ سے اگر بہتر نہیں تو ہم پلہ ضرور تسلیم کیا تھا۔۔ اب سچائی کیا تھی، اسے تو ”وہ“ یعنی (نمبر ایک) اور”وہ“ (یعنی نمبر دو) ہی جانیں، لیکن اتنا کہا جا ساکتا ہے کہ ایسے جملوں میں وہ سب ادبی عوارض موجود ہیں جنہیں مطلقیت، ادعائت، انانیت اور عصبیت کہا جا سکتا ہے۔ایک اور ’مشاعرہ پڑھنے والے ہندوستانی شاعر‘ (شاید بشیر بدرؔ) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خود اسٹیج سے اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ تو میرؔ ؔ اور غالبؔ کے قد کے شاعرہیں، آج کے شاعر جو اِن کے ہمعصر ہیں، ان کا کیا مقابلہ کریں گے؟۔۔۔۔۔۔
اب میں اقرار باللسان و تصدیق با لقلب، بہمہ سنجیدگی یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں:
جواب جاہلاں باشد خموشی!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط32

Leave a Reply