میرے ابو زندہ ہوتے ناں۔۔عبدالباسط ذوالفقار

بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں ونڈ سکرین پر گرتیں۔ وائپر  ننھے بلبلوں کو شیشے پر سے ہٹا کر سائیڈ  میں کر رہا تھا۔ بارش میں دوڑتی گاڑی سے باہر کا موسم کچھ زیادہ ہی خوشگوار معلوم ہو رہا تھا۔ معلوم نہیں اس دن آسمان اتنا رو کیوں رہا تھا۔ کچی سڑک پر دوڑتی گاڑی، کھڈوں میں ٹائروں کے چھپاکے سے اچھلتا پانی کچے راستے کو گیلا کر رہا تھا۔ ابھی ہم ذرا سا چلے تھے کہ روڈ سائیڈ پر کھڑے، بارش میں بھیگے بچوں نے ہاتھ سے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔

روک لوں؟؟ بھائی کچھ سوچتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے۔ ہاں روک لیں۔ بارش ہے۔ بیچارے، میں نے رحم بھری نگاہوں سے بھیگتے بچوں کو دیکھ کر کہا۔ چرمراہٹ کی آواز کے ساتھ گھومتے ٹائر رک گئے۔ وہ بچے اب گاڑی میں سوار ہو رہے تھے۔ گاڑی واپس چلنا شروع ہو گئی۔

کہاں جا رہے ہو؟ بھائی نے بچوں سے پوچھا۔ گھر، یک زبان آواز سنائی دی۔ اچھا چلو کرایہ دے دو۔ بھائی نے ازراہ مزاح کہا۔ ٹھٹھرتے بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، لمحے بھر کو ان کے چہروں پر ایک رنگ سا لہرایا اور گزر گیا۔ ویسی کیفیت جیسے اب۔۔ اب کیا کریں گے؟ اسی عالم میں ایک بچہ چہکا، صبر، ساتھ ہی ٹھٹھرتے بدن کو کچھ اوپر کرکے وہ اپنی پرانی قمیض کی سائیڈ جیب سے کچھ نکال رہا تھا۔ یہ لیں، اس نے بھائی کو مخاطب کیا۔ بھائی نے متوجہ ہوتے ہوئے مجھے اشارہ کیا میں ہاتھ پیچھے بڑھا چکا تھا۔

مجھے ہتھیلی پر برف کی انگلیوں کے لمس کا احساس ہوا۔ میں نے ہتھیلی پر دیکھا تو ایک مڑا تڑا سا گیلا نوٹ پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں میرے چہرے پر تھیں۔ جیسے وہ میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ  سے پیش آنے والی کیفیت کا اندازہ لگا رہا ہو۔ میں نے مسکراتے ہوئے وہ نوٹ بھائی کو دیا۔ بھائی نے نوٹ اٹھا کر دیکھا اور لہجے پر زور دیتے ہوئے کہا صرف دس روپے؟ دس روپے تو ایک بندے کا کرایہ ہے۔ سب دس دس روپے دو۔ بچے کچھ جھینپ سے گئے۔ میں پیچھے مڑا انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر سکوت رہا، جیسے وہ جواب تلاش کر رہے ہوں یا دل و دماغ کو پیش آنے والی  صورتحال کےلئے پیشگی تیار کر رہے ہوں کہ “ابھی گاڑی سے اتار دیا جائے گا”۔ ایک دو کی اندازہ لگاتی نگاہیں، شیشے سے باہر جھانک رہی تھیں کہ بارش  تیز ہے یا آہستہ؟ جب کہ ہم محظوظ ہو رہے تھے۔

اتنے میں پیچھے بیٹھے ایک بچے نے دوسرے بچے کو کندھے سے سائیڈ  پر کرتے ہوئے سر نکالا اور متوجہ کرتے ہوئے کہا انکل! میرے ابو ہوتے ناں!!! تو میں سب کے دس دس روپے آپ کو دیتا۔ لیکن! ساتھ ہی اس بچے کی ننھی، گول گول سی آنکھوں میں نمی نمودار ہوئی اور وہ بات پوری کرنے کے لئے آخری سرا تلاش کرنے لگا۔ جب کہ ہمارے لب سل چکے تھے۔ ہمارے پاس تسلی دینے کو بھی لفظ نہیں تھے۔ زبان کچھ بھی کہنے سے عاری تھی۔ بس دل پر اک تیر سا لگا اور دل کے آر پار ہوا تھا، جیسے دل کٹ کر رہ گیا ہو۔

“میرے ابو زندہ ہوتے ناں!” کے الفاظ دل و دماغ پر چوٹ کےلئے کافی تھے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوا کب ہماری آنکھوں سے گرم پانی کی بوند ٹپکی اور کپڑوں میں جذب ہوگئی۔ میں نے اس بچے کے سفید چہرے پر نظر ڈالی وہ کسی بھی احساس سے عاری تھا۔ صاف شفاف، جیسے وہ لوگوں سے تمام امیدیں ختم کر چکا ہو۔ اس کی نظروں میں کوئی چمک نہیں تھی۔ وہ اب انکل نما لوگوں میں اپنے بابا کو تلاش کرنا چھوڑ چکا تھا۔ جیسے وہ وقت اور حالات سے سمجھوتا کرچکا ہو کہ اب  ابو نہیں آئیں گے۔ جیسے اسے اب ابو سے ملنے کی امید ختم ہو چکی ہو۔ جیسے وہ اب اس کندھے کی تلاش بسیار سے بے گانہ ہو جس پر سر رکھنے سے دنیا جہاں کا سکون دل میں سرائیت کر جاتا ہے۔ جیسے وہ قدرت کے اس امر پر دل و جان سے راضی ہو گیا ہو۔

وہ سپاٹ چہرے سے ہمیں ہی دیکھ رہا تھا جیسے وہ ایک بار پھر سوچ رہا ہو کہ ہمیں گاڑی والے اتار دیں گے۔ بھائی نے خاموشی توڑی اور کہا بیٹا! وہ اپنی بات پوری نہ کر پائے تھے کہ بچے چہکے انکل یہاں اتاریں، ہاں یہیں، اس گلی کے پاس، یقیناً   وہ سب ایک ہی گلی کے مکین تھے۔ بھائی اپنی بات کو مکمل کرنے کے لئے الفاظ ڈھونڈ رہے تھے۔

گاڑی رک چکی تھی۔ بھائی نے بچوں کو ان کا نوٹ لوٹاتے ہوئے سب کو ایک ایک نوٹ تھمایا، اس یتیم بچے کو آواز دی، اسے بلایا، بیٹا! اور وہ دوسرے بچوں کو ٹھنڈی نگاہوں سے دیکھنے لگا جیسے اسے اس آواز سے کوئی سروکار نہ ہو، وہ اس لفظ کی مٹھاس کو بھول چکا ہو۔ وہ ایسے بے پرواہ تھا جیسے کسی اور کو بلایا ہو۔ وہ اپنے لیے لفظ بیٹا بھول چکا تھا یا ہمارا رویہ، معاشرتی سلوک اسے اس لفظ کی محبت و اپنائیت بھلا چکا تھا۔ اسے دوسرے بچے نے ٹہوکا، تمہیں بلا رہے ہیں۔

وہ اب گاڑی کے اگلے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھائی اترے، اسے گلے سے لگایا، اسے ماتھے پر پیار کیا۔ اور حسب توفیق کچھ پیسے اس کی جیب میں ٹھونسے جب کہ وہ نہیں نہیں کر رہا تھا۔ اب سب بچے اپنی گلی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بارش رک چکی تھی۔ ہم مہر بلب، اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے خیالات کے تانے بانوں میں الجھے رہے۔ گاڑی چل پڑی تھی۔ ایک درد کا احساس سینے میں اٹھا تھا۔ اللہ جی کیوں بچوں کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھا لیتے ہیں۔ باپ کیوں بچوں کو دنیا کے اس بھنور میں ہم جیسے احساس سے عاری لوگوں کے بیچ چھوڑ جاتے ہیں۔ کیوں؟

پھر خیال گزرا، خدا تعالی کا امر ہے جسے ملک الموت نے پورا کرنا اور موت کا پیالہ ہے جسے ہم سب نے پینا ہے۔ آنے کی ترتیب تو طے ہے لیکن جانے کی؟ کوئی معلوم نہیں، بس برگ حیات سے جس کا پتہ کٹ گرا اسے موت اچک لے گی۔ نہ جانے کتنے ہی یتیم بچے ہیں جو ہماری محبتوں، شفقتوں، اپنائیتوں کو ترستے ہیں۔ کتنے ہی گلاب کے پھول ہیں جو مرجھائے اور بھرے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے  ذرا سا پیار جتائے اور وہ اس کے سینے میں سما جائیں۔ اور ہم ہیں کہ دنیا جہاں کے خود غرض، پیار کے دو بول بولنے سے قطعی گھبراتے، سطحی مسلمان، حالاں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو یتیموں کے والی تھے۔

فرمایا: جو یتیم کے ساتھ نیکی یا بھلائی سے پیش آتا ہے وہ اور میں جنت میں ایسے پاس پاس ہوں گے جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں قریب قریب ہیں۔ (حکیم عن انس) آپ کتنی شفقت فرماتے تھے۔ اور ہم؟؟

آپ بھی اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے۔ بہت سی ایسی بن کھلی کلیاں ہیں جو آپ کی محبتوں کی منتظر ہیں۔ جنہیں آپ سے فقط لمحہ بھر کی محبت چاہیے ۔ آپ کچھ نہیں دے سکتے، بیٹا کہہ کر مخاطب تو کر ہی سکتے ہیں ناں؟ ان کے ساتھ دو پل بتا کر انہیں بتا سکتے ہیں نا کہ آپ ہمارے لئے ہمارے بیٹے کے جیسے ہی اہم ہو۔ آپ چند میٹھے بول بول کر ان کے رستے زخم پر پھاہا تو رکھ ہی سکتے ہیں ناں؟

Advertisements
julia rana solicitors

تو دیر نہ کیجیے یتیموں کا سہارا بنیے  انہیں وہ خوشیاں لوٹا دیجیے جن کی آپ کے بچوں کو تلاش ہے۔ یا جو آپ اپنے بچوں کو دینا چاہتے ہیں۔ اور اس کی جزا اس سے نہ مانگیے بلکہ بھروسہ رکھیے اللہ کریم وہاں سے دیں گے جہاں سے آپ کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply