سکاٹش پارلیمنٹ سے نفرت کے خاتمے کا بل منظور۔۔طاہر انعام شیخ

اسکاٹش پارلیمنٹ نے جسٹس سیکرٹری حمزہ یوسف کی طرف سے پیش کیے جانے والے نفرت کے جرائم کے خاتمے کیلئے (دی ہیٹ کرائم اینڈ پبلک آرڈر بل)کو بالآخر منظور کرلیا ہے۔ اسکاٹش پارلیمنٹ کے دوبارہ قیام کے بعد یہ اس کی تاریخ کا سب سے متنازع بل تھا جس پر ایک سال تک بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ 2017ء میں اسکاٹش کمیونٹی، سیفٹی اینڈ لیگل افیئرز کی وزیر اینا بیلی ایونگ نے معاشرِے کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے سینئر جج لارڈ بریکڈ بل کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا معاشرے سے نفرت کے خاتمے کیلئے ہمارے موجودہ قوانین21ویں صدی کیلئے موثر ہیں چنانچہ انہوں نے اس پر ایک تفصیلی رپورٹ ’’انڈی پینڈنٹ ریویو آف اسکاٹ لینڈ ہیٹ کرائم لاء‘‘ کے نام سے دی، انہی دنوں معاشرے میں نسلی اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کی مہمات زوروں پر تھیں جن کا ماضی میں جسٹس سیکرٹری حمزہ یوسف اور لیبر پارٹی اسکاٹ لینڈ کے سربراہ انس سرور بھی کئی بار نشانہ بن چکے تھے، ’’پنش اے مسلم‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی گئی جس میں دیگر غنڈہ عناصر سے کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں پر تشدد کریں، ان کی مساجد کو آگ لگا دیں، عورتوں کے سر سے اسکارف اتاریں اور ان کو پٹیں، نسل پرستی خفیہ اور کھلے عام تقریباً معاشرے کا حصہ بنتی جارہی تھی جس پر مذہبی اور نسلی اقلیتیں خاصی پریشان تھیں۔

انس سرور نے اس بارے میں اسکاٹش پارلیمنٹ میں ایک کراس پارٹی گروپ بھی بنایا جس میں معاشرے کے ہر طبقے کے افراد شامل کیے اور ایک موثر مہم چلائی، حمزہ یوسف نے لارڈ بریکڈ بل کی رپورٹ کی روشنی میں پارلیمنٹ میں جو بل پیش کیا اس میں نفرت کے خلاف موجودہ تمام قوانین کو اکٹھا کردیا گیا جس سے آسانی پیدا ہوگئی، ہیٹ کرائم یہ ہیں کہ آپ معاشرے کے کسی فرد کو اس کے رنگ، نسل، مذہب، جنس، عمر، معذوری یا اسی طرح کی وجہ کے باعث اس سے تعصب برتیں، حمزہ یوسف نے ساتھ ہی( سٹرنگ اَپ ہیٹرڈ) کے نام سے نیا قانون بھی پیش کیا جو کسی بھی تحفظ دئیے گئے گروپ کے خلاف جرم کرنے کے متعلق تھا اور پہلے یہ صرف نسلی جرائم کا احاطہ کرتا تھا، ان قوانین کے پیش ہوتے ہی ایک زبردست طوفان برپا ہوگیا اور اس کے خلاف معاشرے کے مختلف طبقوں سے آوازیں اٹھنے لگی، جن میں سے بعض خاصی حد تک جائز بھی تھیں، نئے بل کے تحت نفرت کو ہوا دینا یا پھیلانا ایک فوجداری جرم ہوگا، نہ صرف عوامی مقامات پر بلکہ چار دیواری کے اندر کی جانے والی گفتگو بھی اس میں شامل ہوگی، نئے قوانین پر تنقید کرنے والوں میں معاشرے کے مختلف طبقے مثلاً صحافی، رائٹرز، پولسی، اسکاٹش لاء سوسائٹی اور چرچ بھی شامل تھے، ان کا کہنا تھا کہ نئے قوانین کی زد میں بے گناہ بھی آسکتے ہیں جوکہ معمول کے مطابق نیک نیتی سے بات کررہے ہوں، مثلاً چرچ کو اعتراض تھا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کی مخالفت اس قانون کی وجہ سے غیر قانونی ہوجائے گی۔ کامیڈین کا کہنا تھا کہ ان کے مذاق میں کیے گئے فقرات مثلاً انگلش، آئرش یا اسکاٹش لوگوں پر مزاحیہ اور طنزیہ فقرے کہنا غیر قانونی بن جائے گا بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ لائبریریوں اور دکانوں میں رکھی ہوئی بے شمار ایسی کتابیں ہیں جو اس قانون کی زد میں آجائیں گی، چنانچہ اس پر زبردست بحث و مباحثہ شروع ہوگیا، عوامی مشاورت بھی کی گئی، بل میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور بالآخر اس کو پارلیمنٹ نے32کے مقابلے میں82ووٹوں سے پاس کردیا، یہ حمزہ یوسف کی زبردست محنت کا نتیجہ تھا جسے ایک بڑی کامیابی گنا جائے گا، کنزرویٹو پارٹی کے بعض ممبران نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی اور کہا کہ یہ بل آزادی اظہار رائے کے لیے ایک بڑے خطرے کا باعث بن سکتا ہے، اسکاٹش کنزرویٹو ممبر مرد وفنرینررنے ٹویٹ کیا کہ آج کا دن شرمناک ہے، جب ایک ایسا بل پاس کیا گیا ہے جوکہ اظہار رائے کی آزادی کو محدود کردے گا.

Advertisements
julia rana solicitors london

حمزہ یوسف نے بل کے پاس ہونے پر زبردست خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کرکے مظلوموں، ظالموں، تمام کمیونٹیز اور پورے معاشرے کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایسے جرائم جن کے پیچھے کسی بھی قسم کا تعصب ہوگا، ان سے نہایت سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا، حمزہ یوسف نے اس بات کو پوری طرح واضح کیا کہ اس قانون کا استعمال صرف ایسے افراد کے خلاف کیا جائے گا جو تعصب یا بدنیتی کی بنا پر معاشرے کے ان کمزو طبقوں کو نشانہ بنائیں گے ، مذاق یا نیک نیتی کے ساتھ کیے گئے فقرات یا تنقید قطعی طور پر قابل گرفت نہ ہوں گے، نسلی اقلیتوں کے بے شمار افراد نے نئے قوانین کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا کہ ہم بھی اظہار رائے کی آزادی کی زبردست حمایت کرتے ہیں لیکن اپنی آزادی جو دوسروں کی آزادی کی زبردست حمایت کرتے ہیں لیکن ایسی آزادی دوسروں کی آزادی کو سلب کرے اور معاشرے میں فتنہ، فساد پھیلانے کا باعث بنے، اس کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف قانون سازی سے نسل پرستی اور تعصب و امتیاز ختم نہیں ہوسکتا، اس کے لیے اسکولوں کی سطح پر مہم چلانے، نصاب میں تبدیلیاں لانے اور ایک بڑی مہم چلانے کی ضرورت ہے، قانون آپ کے دل کو تبدیل نہیں کرسکتا، اگرچہ معاشرے سے ناانصافی اور ظلم روکنے کا پہلا ذریعہ اور طریقہ قانون سازی ہی ہے، تاکہ ظالم کو سزا اور جیل کا خطرہ ہو جب کہ مظلوم یا شکایت کنندہ کو یہ تسلی ہو کہ مجھے کم از کم قانون کا تحفظ حاصل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply