خدمتِ خلق اور اس کی فضیلت و اہمیت۔۔۔فضل رحیم آفریدی

ایک دفعہ اِبنِ عباسؓ مسجدِ نبوی میں معتکف تھے کہ ایک شخص آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ حضرت اِبنِ عباسؓ نے اس سے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں آپ کو غمزدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں۔ تو اس شخص نے فرمایا کہ اے محمؐد کے چچا کے بیٹے! بیشک میں پریشان ہوں کیونکہ فلاں شخص کا مجھ پر حق ہے جس کو میں ادا کرنے پر قادر نہیں۔ اِبنِ عباسؓ نے فرمایا تو کیا میں اس سے تیری سفارش کردوں؟ اس نے عرض کیا کہ جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ یہ سن کر اِبنِ عباسؓ جوتے پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے تو اس شخص نے عرض کیا کہ آپ اپنا اعتکاف بھول گئے۔ تو آپؓ نے فرمایا اعتکاف نہیں بھولا بلکہ ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے کسی کام میں چلے پِھرے اور اس کی مدد کی کوشش کرے تو یہ اس کیلئے دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے۔ اور جو شخص ایک دن بھی اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اعتکاف کرے تو اللہ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتے ہیں جس کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے زیادہ چوڑی ہے۔ اور جب ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو دس برس کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہوگی۔

مذکورہ بالا واقعے سے تو ہمیں خدمتِ خلق کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کام میں رِیا کا عنصر نہ ہو۔ ایک جگہ حضور اکرمؐ کا فرمان ہے ” اِنّمَاالاَعمَالُ بِالنّيات” یعنی کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر خدمتِ خلق خالص اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا کی نیت سے ہو تو وہ اس کا صِلہ اس دن حاصل کرسگے گا جس دن رضائے الہی ہی انسان کا کُل سرمایہ آخرت ہوگا اور اگر خدانخواستہ اس عمل میں ریاکاری کا غلبہ ہو تو ایسا شخص خدمتِ خلق کی ان عظیم فضیلتوں سے محروم رہے گا۔ کیونکہ رِیاکاری اعمال کو ایسے جلادیتی ہے جس طرح خشک لکڑی آگ میں جل کر راکھ بن جاتی ہے۔

آج کل ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ سیاست اور ذاتی تشہیر کے لالچ میں غریب عوام کی  عزتِ نفس تک کو مجروح کیا جارہا ہے۔ رِیا اور دکھاوے کی خدمتِ خلق ہمارا وطیرہ بن چکا ہے جبکہ اس میں رہی سہی کسر فیسبوک نے پوری کررکھی ہے۔ حضورؐ کا فرمان ہے ” اِتَّقُوا النَّار وَلَوبِشِقّ تَمرَةٍ ” یعنی کہ آگ سے بچو خواہ کجھور کے ایک ٹکڑے سے ہی ہو۔ یہاں اس حدیث میں صدقہ و خیرات کی قِلت کو حقیر نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظیم فضیلت کو بھی بیان کیا گیا ہے لیکن اس فضیلت اور نوید سے صرف وہی لوگ بہرہ ور ہو سکتے ہیں جن کی ایمانی کیفیت رِیاکاری کے عنصر پر غالب ہو اور اس کا یہ عمل انسانی ہمدردی اور رضائے الہی کی نیت سے ہو۔

خدمتِ خلق صرف زَر، مادی اشیاء اور دنیاوی ضروریات کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ آپ کا حسنِ خُلق، معاشرے میں لوگوں کے ساتھ آپ کا سلوک یہاں تک کہ آپ کی خندہ پیشانی اور مسکراہٹ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے ” اِرحَمْ مَن فِي الْارضِ يَرحَمكُم مَن فِي السَّمَاء ” کہ زمین والو پر رحم کرو، آسمان والا آپ پر رحم کرے گا۔ جبکہ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ” وَاللهُ فِي عَونِ العَبدِ مَا كَانَ العَبدُ فِي عَونِ اَخِيهِ ” جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ آج ہم سب اللہ تعالی کی حاجت روائی کے طلبگار ہیں لیکن آپؐ نے اس منزل کے حصول کیلئے جو راستہ بتلایا ہے ہم سب اس پر چلنے سے گُریز کرتے ہیں۔ آج وقت ہم سے یہ تقاضا  کرتا ہے کہ ہم اپنی فضول خرچی، اصراف اور غیر ضروری خواہشات کو ترک کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت معاشرے کے مجبور، لاچار، اور بے سہارا لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرکے اسلام کے پہلے ایثاری جذبے انصار و مہاجرین کی یاد تازہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عبادت کے بعد اگر کسی کام میں اطمینانِ قلب، راحت و سکون اور حلاوت ہے  تو وہ خدمتِ خلق اور فلاحِ انسانیت ہے۔ خدمتِ خلق ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے معاشرے میں امیر و غریب کی تفریق کو ختم کرکے محروم طبقے کی احساسِ محرومی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے  کہ ہم ہمیشہ بقدرِ استطاعت خدمتِ خلق اور فلاحِ انسانیت کیلئے کوشش کریں تاکہ معاشرے سے نفرتوں کے کانٹے ختم کر کے اس عظیم گلستان کی فضا کو امن، محبت اور بھائی چارے کے پھولوں کی خوشبوؤں سے مُعطر کرسکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خدمتِ خلق اور اس کی فضیلت و اہمیت۔۔۔فضل رحیم آفریدی

  1. بہت ہی زبردست تحریر۔ بیشک خدمت خلق دین اسلام کی اساس ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر اسکا عملی مظاہرہ بھی فرمایا تا کہ امت کہ راہنمائی ہو سکے۔

Leave a Reply to محمد عثمان بابر Cancel reply