بندر ناچ۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

جب سے پاکستان میں کورونا کی انٹری ہوئی ہے پاکستانی عوام کی ذہنیت اور سیاسی پارٹیوں کی سازشی سیاست کھل کے سامنے آئی ہے۔ لوگ نوازشریف کی محبت میں اتنے گرفتار ہیں کہ اپنے آپ کو اور معصوم بچوں کا مستقبل بھی داؤ پہ لگانے کو تیار ہیں ,ایک بھلے مانس نے تولائیو آکر  اپنی 5 بہنوں میں سے کسی ایک سے شادی کرنے کی آفر تک کر دی ہے کہ نوازشریف جس مرضی بہن پہ ہاتھ رکھ لے ۔یہ کسی بھی باشعور قوم کی بت پرستی کی آخری حد ہے۔

جب چائنہ نے پوری دنیا کو اس وائرس سے خبردار کیا تو پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں سوائے پی ٹی آئی کے اِک شور بے ہنگم میں مشغول تھی کہ جلد از جلد پاکستانی سٹوڈنٹس کو لایا جائے لیکن حکومتی مزاحمت جاری رہی اور چائنہ نے حق دوستی نبھاتے ہوئے طلبا کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہوئے پاکستان میں اٹھنے والی ایک ڈھٹائی کی لہر کو ڈیفیوز کیا اور اس طرح پاکستانی حکومتی اپوزیشن پارٹیوں کے “بندر ناچ ” سے بچنے میں کامیاب ہو گئی۔
اب چونکہ زائرین ایران گئے ہوئے تھے انہوں نے بھی واپس آنا تھا۔ جب انکی واپسی شروع ہوئی تو وہی تمام اپوزیشن پارٹیاں دوبارہ” بندر ناچ ” شروع کر بیٹھی کہ کسی بھی صورت میں ایران سے زائرین کو نہیں لایا جائے گا لیکن ایران نے ہمیشہ کی طرح ” حق دشمنی” نبھاتے ہوئے تمام زائرین کو بارڈر پر دھکیل دیا ۔ریاست مرتی کیا نہ کرتی, آخر وہ پاکستانی شہری تھے۔ کیسے ان کو باہر رکھا جا سکتا تھا لہٰذا تمام زائرین کو پاکستان یعنی انکے اپنے گھر داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔

خیر کورونا وائرس کا آغاز ہو گیا جو کہ ہونا ہی تھا کیونکہ پوری دنیا اس سے نہ بچ سکی تو پاکستانی کس کھیت کی مولی تھے اور ویسے بھی ہم وہ قوم ہیں کہ کسی کو 4 چھتر پڑتے دیکھ کے ان میں سے بھی حصہ مانگ لیتے ہیں۔ ہم بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ہم نے کھلے دل سے کھلی بانہوں کے جپھیاں ڈال ڈال کے “وائرس” کو ویلکم کہا۔
ہم تو “گربہ کشتن روز اوّل ” والی قوم ہیں۔

کورونا آگیا ،پوری قوم عمران خان کو دن رات گالیاں دینے لگ گئی  کہ جیسے یہ وائرس شوکت خانم کی لیبارٹری میں بنا ہے اور وہی اسکا ذمہ دار ہے۔کورونا سیاست کا آغاز ہو گیا اور عوام نے اس بار بھی ہمیشہ کی طرح اس ٹائپ کی غلیظ سیاست میں سیاسی پارٹیوں کا بھر پور ساتھ دیتے ہوئے عمران خان کے ہر فیصلے کو غلط قرار دیا اور بیچارے زلفی بخاری کو کبھی شیعہ تو کبھی قادیانی کہا۔ ناصر حسین شاہ صاحب وزیر بلدیات سندھ اسے شیعہ کمیونٹی میں ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ یہ تو کل پتہ چلا کہ موصوف خود بھی ماتم داری میں شریک تھے لیکن چھوڑیئے یہ سیاست ہے اور سیاست نام ہی غلاظت,گندگی اور گالی کا ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ لوگ عمران خان سے اتنے بیزار کیوں ہیں ؟
میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ اسکی کارکردگی اچھی نہیں  لیکن اگر عمران خان کی کارکردگی کا موازنہ پچھلے مسٹر 10 پرسینٹ یا سسلین مافیا سے کیا جائے تو یہ حکومت ان سے ہزار گنا بہتر ہے ۔میڈیا بیزاری کے ساتھ ساتھ میں نے ایک بات اور بھی دیکھی ہے کہ ابھی بھی غریب آدمی عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے اور امید لگائے بیٹھا ہے کہ وہی ہمیں اس بھنور سے نکالے گا۔

لیکن پھر مسئلہ کیا ہے۔۔؟
میری ناقص عقل کے مطابق میاں نوازشریف صاحب کے شاہانہ طرز حکمرانی کے نتیجے میں پاکستان میں کرپشن کا زہر اتنی بری طرح پھیل چکا ہے کہ صرف وہ شخص جو کرپشن کر نہیں سکتا, وہ عمران خان کے ساتھ ہے اور جس کے پیٹ پہ لات پڑی ہے وہ عمران خان کا خوفناک دشمن ہے۔ بس سارا جھگڑا پیٹ کا ہے۔ کہتے ہیں نا ، بھوک عقل کو کھا جاتی ہے، اس لئے مراعات یافتہ کرپٹ طبقہ اس وقت بلبلاتا پھر رہا ہے کہ کسی طرح عمران خان ان کو مل جائے تو اسکی بوٹیاں نوچ کے کھا جائیں۔

لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج میں نے ایک عالم فاضل شخص کو” چھوٹے شیر ” کی بھینسوں والی لاجک کو ڈیفینڈ کرتے دیکھا کہ اس سے کروڑوں کی پراپرٹیز بنائی جا سکتی ہیں اور 5 بیویوں کے ساتھ انتہائی عیش و آرام سے زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ سینکڑوں دلیلیں د یں،اس نے کہ اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگی۔ میں بس اسے مسکرا کے دیکھتا رہا کیونکہ وہ شاید بھول گیا تھا کہ ابھی ایک سال پہلے اس نے عمران خان کی بھینسوں, کٹوں اور مرغیوں والی سکیم پہ اسی طرح منہ سے جھاگ نکا لتے ہوئے بحث کی تھی۔میں نے اٹھتے ہوئے بس اتنا کہا” شاباش ” اور چلا آیا۔ راستے میں ہنسی کا دورہ پڑا ۔کچھ عرصہ پہلے مجھے لوگوں کی ذہنی حالت پہ دکھ ہوتا تھا لیکن اب ہنسی آنے لگی ہے۔ ترس آنے لگا ہے کہ وہ بڑی بڑی گاڑیاں, گاڑیوں کے اخراجات ,آدھ درجن گرل فرینڈز, بلیک لیبل اور بہت سی امپورٹڈ وہسکی اور کہاں یہ پاکستانی فضول قسم کی  بلیو  سفائر یا ووڈکا, جن وغیرہ۔
بیڑہ غرق ہو کسٹم والوں کا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستانی “مال “پینا پڑ رہا ہے۔
اس سے بڑا ریاستی ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ امپورٹڈ پینے کو ہی نہ ملے۔

کورونا پہ واپس آتے ہیں جیسے ہی یہ پاکستان پہنچا تو آدم خور سیاسی جانوروں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی۔ سب سے پہلے مرد آہن جناب محترم قبلہ   پیر سید مراد علی شاہ صاحب  میدان عمل میں اترے اوراٹھارویں ترمیم کا اختیار استعمال کرتے ہوئے   “فادر” کی ہدایات پہ عمل کیا اور صوبہ سندھ میں سخت ترین لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جبکہ اس وقت سندھ میں ٹوٹل 14 مریض تھے۔ خوب واہ واہ ہوئی۔ ڈھول باجے نقارے بجے کہ ایک نیا عالمی لیڈر پاکستان میں ابھرا ہے۔ خوشی سے پیپلزپارٹی کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ جا بجا پکچرز بنائی گئیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر, لگتا تھا کہ   شاہ صاحب  22 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ میں نے اس وقت بھی ایک کالم میں عرض کیا تھا ” کورونا وائرس اور گلہری ” کہ بس میاں آپ لوگ ایک درخت سے دوسرے درخت تک آنیاں جانیاں ہی دیکھتے رہنا اور ایسا ہی ہوا کہ آج سندھ لاک ڈاؤن کے باوجود پنجاب سے بازی لے چکا ہے۔

دراصل وہ لاک ڈاؤن نہیں تھا۔ لاک ڈاؤن کے روپ میں ایک خوفناک سازش تھی جو آئندہ آنے والے دنوں میں آپ سب کے سامنے عیاں ہو جائے گی۔
دراصل لاک ڈاؤن ایک سازش تھی ایک دھمکی تھی اسٹیبلشمنٹ  کیلئے اور ریاست کیلئے کہ”ہمیں رعایت دو “۔۔
ورنہ ہم پاکستان کے معاشی حب کو تباہ کر دیں گے اور صاف ظاہر ہے اگر کراچی تباہ تو  پورا پاکستان تباہ۔ لیکن ریاست ڈٹی رہی اور آج وہی مرد مجاہد پاکستان میں لاک ڈاؤن کھول رہا ہے کیونکہ اب اسے پتہ ہے کہ مزید اگر لاک ڈاؤن کی بات کی تو پھر پبلک گریبان پکڑے گی لیکن جاتے جاتے وہ ایک شرارت بھی کر گیا ہے کہ کسی طرح سندھ میں یا پاکستان میں شیعہ سنی فسادات ہو جائیں کیونکہ اگر اگلے دس دن میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بڑھتی ہے تو ہماری بھولی قوم اس پھیلاؤ کا سبب اہل تشیع پہ ڈال دے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج سنی مسجدیں کھولنے کی ضد کر رہے ہیں۔ میں نے سنیوں کو شیعوں پہ اعتراض بھی کرتے دیکھا ہے کہ تم نے   یوم علی علیہ السلام  کیوں منایا ؟ لیکن مجھے اس قوم سے امید ہے کہ وہ اس بار ان لوگوں کی سازش کے جھانسے میں نہیں آئے گی۔
اور شعور استعمال کرتے ہوئے اس سازش سے بھی نکل جائیں گے

اب ذرا پنجاب کا چکر بھی لگا لیتے ہیں
سندھ سے چلی کورونا سیاست کی پرجوش ہوا سے پنجاب کی مقتدر قوتوں نے بھی فائدہ اٹھانے کی سوچی لیکن وہ بھی شاید ناکام رھے اور ” چھوٹا شیر “بیچارہ چھلانگیں لگاتے لندن سے بھاگم بھاگ شیروانی اٹھائے پاکستان بھاگا۔ آتے ہی کورونا پہ ایک خوبصورت لیکچر دیا کہ کورونا کیسے ختم کرنا ہے ؟ خوب داد سمیٹی کہ ڈینگی سے لاہور میں 600 بندے مارنے والا تجربہ کار حکمران آگیا ہے۔ دو تین بیوروکریسی نے بھی پھرتیاں دکھائیں۔ حکومت سے پہلے کورونا رپورٹ ” چھوٹے شیر “کی میز پہ ہوتی تھی ۔لوگ برملا کہنے لگے کہ اس وقت پنجاب میں ن لیگ کی حکومت آگئی ہے۔
لیکن اچانک کنکشن الٹے ہونے سے” سیاسی موٹر”الٹا چل پڑی اور شیر بیچارہ   آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا  ، والی مثال بن گیا ۔ اب ان کے لیے اے سی لگا دیا گیا ہے اور بیرک کا رنگ و روغن بھی کر دیا گیا ہے کیونکہ”کورونا سے بچنا ہے تو جیل جانا ہوگا”۔

اب ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ میرے پیارے بھائیو۔۔۔ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلے۔ وائرس پھیلا ہے لوگ مرے ہیں اور آئندہ بھی مریں گے لیکن ہم کب تک گھروں میں بیٹھے رہیں گے۔ کورونا دس سال رہتا ہے یا بیس سال لیکن اب ہم نے اسی کورونا کے ساتھ جینا ھے۔ اس سے بچتے ہوئے ہی روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مرو یا جیو لیکن اب رہنا کورونا کے ساتھ ہے تو پاکستان کس کھیت کی مولی ہے۔

آخری بات کہ جو لوگ “گاڈ فادر ” کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ اب ماضی بھول جائیں۔ گاڈ فادر اب کبھی نہیں آنے والا۔
ابھی تو والیم ٹین کی پکچر بھی پڑی ہے اور شاید 2023 سے پہلے ریلیز بھی ہو جائے اور اس میں عقل مندوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔
بس اب آپ اپنے دل پہ پتھر رکھتے ہوئے نیلسن منڈیلا کی آفاقی داستانوں کو بھول جائیے اور کسی نئی منڈیر کی تلاش کی جانب رخت سفر باندھیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی نئی حلال انکم کے ذرائع تلاش کیجئے ۔ آپ ایک بار نیت تو کریں۔ اللہ برکت ڈالے گا۔ بجائے دوبارہ کرپشن کرپشن کے کھیل کا انتظار کر کے اپنے جی کو ہلکان کریں اس سے بہتر ہے کہ اپنے رزق کے نئے ذرائع ڈھونڈیں کیونکہ میرے خیال میں یہ وائرس دنیا کو ایک نئی سمت دے رہا ھے۔ نئے موسم دے رہا ہے۔ نئی بیماریاں دے رہا ہے۔نئی اخلاقیات دے رہا ہے۔ اس لئے خلوص دل سے دعا کیجئے۔۔۔ کہ
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

Advertisements
julia rana solicitors london

خوش رہیے اور کورونا سے بچ کے رہیئے۔یہ بہت خوفناک بیماری ہے ۔پھیپھڑوں میں سوراخ ہو جاتے ہیں اور آدمی تڑپ تڑپ کے اذیت ناک موت مرتا ہے۔
اللہ آپکو اور آپکے اہل خانہ کو اس موذی مرض سے محفوظ رکھے۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply