میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟۔۔عامر عثمان عادل

گزری شب لاہور میں جاری وحشیانہ اور انسانیت سوز کریک ڈاؤن کے دوران ایک گھر پہ چھاپے کے دوران کمال نامی پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا۔
میری تمام تر ہمدردیاں اس کانسٹیبل کی بیوہ اور پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کے نام ہیں۔
کون ہے ذمہ دار اس کی موت کا ؟ یہ کس کے انتقام اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔جاننے سے قبل آئیں ذرا ایک ایک کر کے جو موقف ہیں ان کو دیکھ لیں۔
1۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور نے میڈیا کو کیمروں کے سامنے بتایا کہ تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران سید ساجد حسین اور ان کے بیٹے عکرمہ نے پولیس پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کمال نامی پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا
2۔ ایف آئی آر کا متن کچھ اور کہانی سناتا ہے جس کے مطابق رات ایک بج کر 40 منٹ پر پنجاب پولیس اس علاقے میں کرایہ داری ایکٹ کے تحت سرچ آپریشن جاری رکھے تھی اسی دوران سید ساجد حسین کے دروازے کی بیل بجائی  گئی جس پر سید ساجد حسین اور ان کا بیٹا عکرمہ ٹیرس پر آگئے اور پولیس سے بدتمیزی شروع کر دی اور کہا کہ آپ کو رات کے اس پہر آنے کی جرات کیسے ہوئی پھر سید ساجد حسین نے اپنے بیٹے عکرمہ سے کہا ان پر فائر کرو عکرمہ نے سیدھا فائر کیا جو کمال کانسٹیبل کے سینے پر لگا پھر سید ساجد حسین نے بھی فائر کیا اور باقی پولیس والے پولیس وین کی آڑ میں جان بچانے لگے کمال موقع پر شہید ہو گیا۔
3۔ آزاد ذرائع کے مطابق ہوا یہ کہ رات گئے اچانک پولیس نے گھر پہ دھاوا بول دیا اور گمان غالب ہے کہ شہید کانسٹیبل کو کہا گیا کہ وہ دیوار یا گیٹ پھلانگ کر اندر سے گیٹ کی  کنڈی کھول دے اہل خانہ جو کہ ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں انہیں لگا کوئی ڈاکو یا چور گھس آیا ہے انہوں نے آواز دی روکا اور نہ رکنے پر فائر کر دیا ( یہ آزاد ذرائع کے مطابق ہے سید ساجد حسین اور ان کے بیٹے عکرمہ کا کیا موقف ہے وہ ابھی سامنے نہیں آیا )
وفاقی وزیر داخلہ نے اس کانسٹیبل کے قتل کا ذمہ دار عمران خان اور شیخ رشید کو قرار دے بھی دیا

حقائق بڑے تلخ ہیں
رانا ثناء اللہ جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انہیں بس ایک آدھ لاش درکار تھی جسے جواز بنا کر وہ دو کام لے سکیں۔
1۔ پولیس کانسٹیبل کی موت کو کیش کروا کر عمران خان کے لانگ مارچ کو پر تشدد اور ریاست کے خلاف قرار دے سکیں اور کل کلاں اس کی ایف آئی آر میں عمران خان کو ایماء میں شامل کر سکیں
2۔ اس موت کو بنیاد بنا کر پولیس کو مزید اشتعال دلوا کر لانگ مارچ کے شرکاء کو سختی سے کچل ڈالیں

Advertisements
julia rana solicitors

جو بھی ہو حقائق کو مسخ نہیں کیا جا سکتا
پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر جن کے گھر رات کے ایک بجے چھاپہ مارا گیا کیا ان کے خلاف کسی تھانے میں کوئی مقدمہ درج تھا
کیا یہ کوئی  بڑے دہشت گرد قاتل یا مجرم تھے جو اس طرح کا آپریشن کرنا پڑا
کیا کسی شریف شہری کے گھر رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح کوئی داخل ہو تو صاحب خانہ کو حق حاصل نہیں کہ وہ حفاظت خود اختیاری کے تحت اس کی جان لے لے۔
جس انداز میں رات پورے پنجاب میں گھروں کی دیواریں پھلانگ کر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا اس نے تمام تر فسطائیت کو مات دے ڈالی۔
وہ سینکڑوں گھرانے جن پر ریڈ کئے گئے ان میں سوائے نہتی خواتین اور بچوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا
کسی نے کوئی مزاحمت کی نہ پولیس پر حملہ
ماڈل ٹاؤن کا یہ واقعہ کیا محض اتفاقی حادثہ تھا
پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر کو گولی چلانے کی نوبت کیوں پیش آئی
حقائق تو وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ آیا کیا ان کا ہی فائر لگا
اگر ایسا تھا تو ہوا کیا ؟
نوبت یہاں تک کیسے پہنچی
کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کانسٹیبل کو کسی اندھی گولی نے نگل لیا
سوال بہت سے ہیں جن کا جواب وقت دے گا
سر دست تو اس شہید کا بے جان لاشہ ہم سے سوالی ہے
میں کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں
کہ تمام شہر نے پہن  ہوئے  ہیں دستانے

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply