یہ ہمارا پاکستان نہیں یہ ان کا پاکستان ہے۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

 پڑھنے والو ں میں ہزاروں لوگ ایسے ہوں گے جو روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتہ میں ایک بار پاک جاپان ٹنل کوہاٹ کے راستے اپنے آبائی علاقوں کاسفر کریں گے اس ٹنل کے لئے جنوبی اضلاع کے لوگوں نے بہت دعائیں مانگی تھیں کہ اس کے ذریعے سے پشاور تک جنوبی اضلاع کا راستہ کم ہوجائے گا جس سے معیشت کو دوام آجائے گا ، کیونکہ کوتل کی پہاڑی جتنی خوفناک ہے اس سے زیادہ خطرناک ہے جس پر پورے جنوبی اضلاع کی  آمدورفت تھی ، ٹنل بن گیا تو لوگ جن میں خواتین اور پچوں کی بڑی تعداد شامل تھی خصوصی طور پر اس کی سیر کے لئے دور دراز علاقوں سے آئے، فاصلہ گھٹ گیا تھا لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

کوہاٹ سے آدھے  گھنٹے  کا فرق پڑ گیا تھا کیونکہ کوتل کی پہاڑی پر کم ازکم ایک گھنٹہ سے زیادہ لگ جاتا تھا مگر اس جادوئی غار نے عوام کو سہولت بہم پہنچائی اور ذرائع آمدورفت میں تیزی دیکھنے میں آئی کرایہ تھوڑا بڑھ گیا تھا مگر اس زگ زیگ پہاڑی کی نسبت عوام اس پر خوش تھے کیونکہ سفر میں انگریزی والا sufferنہیں ہونا پڑتا تھا مگر عین اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے کوہاٹ ٹنل کو بھی کھا گئی اور عسکریت پسندوں نے اس ٹنل کو بھی نہیں بخشا اور اس پر حملہ  آور ہوگئے ،تب حکومت نے عوام کی پریشانی کو ختم کرنے کے لئے اس علاقے میں پاک آرمی کو ذمہ داری دی کہ علاقے کی عوام کی خدمت اور حفاظت کرو مگر حالات ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ،کئی خودکش دھماکوں نے اس علاقے کولہولہان کردیا اور عسکریت پسندوں کے بار بار ٹارگٹ پر رات کو اس ٹنل کو بند کرنا شروع کیا گیا۔شام کے بعد کوئی گاڑی نہ ٹنل کے راستے آ سکتی تھی نہ ہی جاسکتی تھی حتی کہ کوتل کی پہاڑی کو بھی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا جس سے عوام کو جو تکلیفیں اٹھانا پڑیں ،ان کا ازالہ ممکن نہیں۔

بہت سی ایمرجنسی کے کیسز میں جانیں ضائع ہوئیں کیونکہ حفاظت پر مامور بھائی کے پاس انکار  کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا دہشت گردی کے خلاف جنگ تو اب بھی جاری ہے مگر ہمارے بھائیوں کے روئیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی منظور پشتین کے بعد لوگ اب کھل کر بول رہے ہیں جسـکے بعد بہت سے علاقوں میں چیک پوسٹیں ختم کردی گئیں ہیں مگر کوہاٹ ٹنل کے نزدیک چیک پوسٹوں پر اب بھی عوام کی تذلیل جاری ہے ـ روزانہ ڈرائیور حضرات مسافروں کے نام اور شناختی کارڈز نمبر آتے اور جاتے ہوئے لکھواتے ہیں اگر کسی کو بھول گیا تو اس کی خیر نہیں ہوتی ـ۔

اب آرمی کے ساتھ ساتھ فرنٹیر کورپس والے بھی اسی بدتمیز روئیے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ـ واپسی پر ٹنل جاتے ہوئے کچی سڑک پر گاڑیاں ان صاحبان کا دیدار کرانے کے لئے جاتی ہیں اب اس میں کیا منطق ہے اس سے ہمیں ابھی تک کوئی آگاہی نہیں ہوئی ـ جو لوگ اس علاقے کا سفر کرتے ہیں ان کومعلوم ہوگا کہ پشاور سے کوہاٹ جانے کے لئے راستے میں سیکورٹی فورسز کے کتنے چیک پوسٹ قائم ہیں جو صرف اور صرف اب عوام کی پریشانی میں اضافے کا باعث بن گئے ہیں معمولی سپاہی بھی ملک کے بڑے عہدوں پر فائز ڈاکٹر ز، پروفیسرز ، انجینئرز کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہوکر شناختی کارڈ دکھاﺅ ، شناختی کارڈ ہے کہ نہیں کا ورد کریں گے جب کوئی دوسری بات آپ کے زبان سے نکلے گی تو چرب زبانی کے زمرے میں آپ کورگڑا جائے گا دو تین سال پہلے کرک کے ایک پروفیسر کی اتنی درگت بنائی گئی تھی جس نے انصاف کے حصول کے لئے بہت در کھٹکھٹائے مگر انصاف کس چڑیا کا نام ہے جب ہمارے یہ بھائی صاحبان آجاتے ہیں ۔

یہاں پر اشفاق احمد کا وہ قصہ یاد آرہا ہے جب وہ ایک دفعہ یورپی ملک میں عدالت تک جا پہنچے تھے عدالت نے جب پوچھا آپ کرتے کیا ہو تو اشفاق احمد نے کہا کہ میں استاد ہوں تو جج نے کچھ اور نہیں کہا صرف اتنا کہا کہ we have Professor here اور سب عدالت میں بیٹھے لوگ کھڑے ہوگئے تب اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ یہ ممالک کیوں ترقی کررہے ہیں جبکہ ہمارے پروفیسرز کو معمولی سا سپاہی بھی قانون سکھاتا ہے آپ میں سے اکثر کو اس سیچوئشن سے سامنا ہوا ہوگا ، ہمارا چونکہ ہفتے میں گاﺅں جانا ہوتا ہے تو اسی ٹنل کو استعمال کرنا پڑتا ہے جو وقت یہاں ان سیکورٹی فورسز کی چیکنگ کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے شاید ہی کہیں اور ضائع ہوان کو عوامی نیشنل پارٹی دور میں جو بارود کو ڈیٹیکٹ کرنے کے آلات دیئے گئے ہیں وہ کسی کام کے نہیں کئی دفعہ اس کو لوگوں نے چیک کیا ہے مگر پھر بھی ہاتھوں میں پکڑے پریشانی دے رہے ہوں گے شیشے کھولیں ،

Advertisements
julia rana solicitors

ڈرائیور حضرات کو تو انتا بے عزت کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ ، مگر سرکار کے سامنے کس کی چلتی ہے اگر کبھی شناختی کارڈ کوئی بھول گیا تو سواری کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کی بھی خیر نہیں ہوتی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب ہماری حفاظت کے لئے ہے یا ہماری پریشانی کے لئے ان کو یہاں پر تعینات کیا گیا ہے یورپی ممالک میں لوگ سیکورٹی فورسز کے لئے سڑکوں پر خود کھڑے ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہیں اور سیکورٹی فورسز بھی ہنسی خوشی ان کا ساتھ دیتے ہیں مگر یہاں جو چودہ اگست ، چھ ستمبر کو   پریڈ ہوتی  ہیں  اب ان پریڈ میں عوام کی دل چسپی ختم ہوگئی ہے ، راستے پر جب ان کی  کارروائی   جاری ہو آپ ذرا اپنی جگہ سے حرکت تو کرکے دیکھیں فوٹو کنچھوانا تو دور کی بات ہے تب میں آپ کو مانتا ہوں۔ا ور وہ د ن بھی شاید بہت جلد آجائے جب جنوبی اضلاع کے لئے جاتے ہوئے ہمیں پاسپورٹ پیش کرنا پڑے گا کیونکہ یہ ان کا پاکستا ن ہے ہمارا پاکستان نہیں ہے جو وہ چاہیں کریں گےوہی ہوگا۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply