نمازتروایح روزہ دارکے سرکاتاج۔۔۔حافظ کریم اللہ

نمازتراویح پڑھئے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹیے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا جوشخص صدق ودل اوراعتقادصحیح کے ساتھ رمضان میں قیام کرے یعنی تراویح پڑھے اسکے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔مسلم شریف
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے رمضان المبارک کاذکرفرمایاتوسب مہینوں پراسے فضیلت دی بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاجوشخص ایمان اورحصول ِ ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام کرتاہے تووہ گناہوں سے یوں پاک وصاف ہوجاتاہے جیسے وہ اس دن تھاجب اسے اس کی ماں نے جنم دیاتھا۔ایک اورروایت میں ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اورمیں نے تمہارے لیے اس کے قیام (نمازتراویح)کوسنت قراردیاہے لہذاجوشخص ایمان اورحصول ثواب کی نیت کے ساتھ ماہِ رمضان کے دنوں میں روزے رکھتاہے اورراتوں میں قیام کرتاہے وہ گناہوں سے یوں پاک وصاف ہوجاتاہے جیسے وہ اس دن تھاجب اسے اس کی ماں نے جنم دیاتھا۔(نسائی،ابن ماجہ)
رمضان المبارک میں جتنی بھی عبادت کی جائے کم ہے اس مہینہ میں نفلی عبادت کاثواب فرض کے برابراورفرض کاثواب سترسے سات سوگنا تک ملتاہے۔اس لئے اس ماہِ مبارک میں نفلی عبادت کوزیادہ بجالانے کی اہمیت پرزوردیاگیاہے جس میں ایک نمازتراویح بھی ہے۔جو رمضان المبارک کے مہینہ میں عشاء کی نمازکے بعدپڑھی جاتی ہے اس کاتعلق صرف رمضان ہی سے ہے اگراسے رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں پڑھاجائے تووہ نفل نمازکہلائے گی تروایح نہیں۔ حضرت لیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا”رمضان کی راتوں میں نمازباجماعت کانام تراویح اس لئے رکھاگیاکہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھناشروع کیں تووہ ہرچاررکعت کے بعداتنی دیرآرام کرتے تھے کہ اتنی دیرمیں چاررکعت پڑھی جاسکیں۔تروایح کے معنی آرام والی نمازکے ہیں کیونکہ اس میں ہرچاررکعت کے بعدتھوڑی دیرآرام کیاجاتاہے یہ بیس رکعت نمازپورے رمضان میں پڑھناسنت ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اس کوپڑھا اورپسندبھی فرمایا۔اس لئے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جوچاریاچھ روزنمازتروایح پڑھ کرباقی پورے مہینے میں تراویح نہیں پڑھتے۔ام المومنین سیدہ حضرت عائشۃ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے مسجدمیں (نفل)نمازپڑھی تولوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی پھرآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اگلی رات نمازپڑھی تواورزیادہ لوگ جمع ہوگئے پھرتیسری یاچوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے جب صبح ہوئی توفرمایامیں نے دیکھاجوتم نے کیااورمجھے تمہارے پاس (نمازپڑھانے کے لئے)آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکاکہ یہ تم پرفرض کردی جائے گی اوریہ رمضا ن المبارک کاواقعہ ہے۔(متفق علیہ)
امام ابن خزیمہ اورامام ابن حبان نے ان الفاظ کااضافہ کیاہے اورحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم انہیں قیام رمضان (تراویح)کی رغبت دلایاکرتے تھے لیکن حکماًنہیں فرماتے تھے چنانچہ (ترغیب کے لئے)فرماتے کہ جوشخص رمضان المبارک میں ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتاہے تواسکے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں پھرآقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقراررہی اوریہی خلافت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورخلافت حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوائل دورتک جاری رہی یہاں تک کہ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں جمع کردیااوروہ انہیں نمازِتراویح پڑھایاکرتے تھے لہذایہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نمازتروایح کے لئے باجماعت اکٹھے ہوتے تھے۔امام عسقلانی نے التلخیص میں بیان کیاہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے لوگوں کودوراتیں 20رکعت نمازتراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھرجمع ہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کی طرف حجرہ مبارک سے باہرتشریف نہیں لائے پھرصبح آپصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایامجھے اندیشہ ہواکہ نمازتراویح تم پرفرض کردی جائے گی لیکن تم اسکی طاقت نہ رکھوگے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایاحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم حجرہ مبارک سے باہرتشریف لائے توآپصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے دیکھاکہ رمضان المبارک میں لوگ مسجدکے ایک گوشہ میں نمازپڑھ رہے تھے آپصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے دریافت فرمایایہ کون ہیں عرض کیاگیایہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یادنہیں اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازپڑھتے ہیں اوریہ لوگ ان کی اقتداء میں نمازپڑھتے ہیں توحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاانہوں نے درست کیااورکتناہی اچھاعمل ہے جوانہوں نے کیا۔(ابوداؤد)بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایاانہوں نے کتنااحسن اقدام یاکتنااچھاعمل کیااوران کے اس عمل کوحضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ناپسندنہیں فرمایا۔(بیہقی)
نمازتراویح ایک اہم عبادت ہے جس میں نہ صرف روحانی وجسمانی فوائدحاصل ہوتے ہیں۔بلکہ ہررات عشاء کی نمازکے بعدمسلمانوں کابڑی تعدادمیں رات گئے تک اللہ رب العزت کی عبادت میں اجتماعی شرکت کرنااتفاق واتحاداوراللہ پاک کی خوشنودی کاباعث بنتاہے۔ اس نمازمیں روزہ کی طرح صبرواستقامت کامظاہرہ کرناہوتاہے جواللہ پاک کوبہت پسندہے جس طرح روزہ میں کچھ بھوک پیاس ہوتو اسے برداشت کرنے کاحکم دیاگیاہے اسی طرح نمازتروایح میں نیندکی کیفیت اورتھکاوٹ پرقابورکھاجائے اورذوق وشوق سے نمازِتراویح اداکی جائے بلکہ اسے بوجھ نہ سمجھاجائے۔اگرتراویح کی نمازمیں دقت(تکلیف) بھی ہوتواسکواحسن طریقے سے برداشت کرناچاہیے۔ نمازتروایح کی بہت بڑی فضیلت ہے اس سے محروم نہیں رہناچاہیے۔
تراویح کی ابتداء خودنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے کی اوراس کوجماعت سے اداکرکے اس کے پڑھنے کاطریقہ بھی سکھادیادو،چاردن کے اس عمل کے بعدآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اس کوسب کے ساتھ مل کرنہ پڑھاپھرصحابہ کرام علہیم الرضوان الگ الگ پڑھتے رہے۔ یہ طریقہ خلیفہ اوّل امیرالمومنین سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بھی جاری رہااورپھرخلیفہ ثانی امیرالمومنین سیدناحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں بھی ایساہوتارہا۔چونکہ امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ میں شریعت کے تمام احکام میں ایک نظم پیداکیااورہرچیزپرحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی منشاء کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمل کرانے کی کوشش کرتے تھے۔حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری روایت کرتے ہیں کہ میں امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رمضان المبارک کی ایک رات مسجدکی طرف نکلاتولوگ متفرق تھے کوئی تنہانمازپڑھ رہاتھااورکسی کی اقتداء میں ایک گروہ نمازپڑھ رہاتھاامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایامیرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں تواچھاہوگاپس انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے سب کوجمع کردیاپھرمیں ایک اوررات ان کے ساتھ نکلااورلوگ ایک امام کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(انہیں دیکھ کر)فرمایایہ کتنی اچھی بدعت ہے اورجولوگ اس نماز(تراویح) سے سورہے ہیں وہ نمازاداکرنیوالوں سے زیادہ بہترہیں اوراس سے ان کی مرادوہ لوگ تھے (جورات کوجلدی سوکر)رات کے پچھلے پہرمیں نمازاداکرتے تھے اورتراویح اداکرنیوالے لوگ رات کے پہلے پہرمیں نمازاداکرتے تھے۔(بخاری)حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم رمضان المبارک کی ایک رات تشریف لائے لوگوں کوچاررکعت فرض،بیس رکعات نماز (تراویح) اورتین رکعت وترپڑھائی۔(تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی)
تراویح حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اوراگراس کاثبوت حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے نہ ہوتاتب بھی امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااس کوقائم کرناہی اسکے سنت ہونے کے لئے کافی ہوتا۔کیونکہ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کافرمان عالی شان ہے میرے”اصحاب“ستاروں کی طرح ہیں تم جس کی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤگے۔مزیدفرمایاتم عمل کرومیری سنت اورمیرے خلفاء راشدین کی سنت پرجوہدایت یافتہ ہیں۔رمضان کے پورے مہینہ میں تراویح کاپابندی کے ساتھ اداکرنامردوعورت دونوں کیلئے سنت مؤکدہ ہے بلاعذرشرعی اسکوچھوڑناسخت گناہ ہے مردوں کاجماعت کے ساتھ اداکرناافضل ہے۔پابندی کے ساتھ نمازتراویح اداکرنے پراجروثواب کے علاوہ دوسرے فائدے بھی ہیں مثلاًدن بھرکی بھوک پیاس کے بعدافطارکے وقت کھاناکھانے سے طبیعت پرجوبھاری پن ہوتاہے نمازتراویح کے بعدوہ نہیں رہتا۔تیزمعدہ ہلکاہوکرسحری کا کھاناقبول کرنے کے لئے تیارہوجاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم رمضان شریف میں وتروں کے علاوہ 20رکعت نماز(تراویح)ادافرماتے تھے۔(مصنف ابن شیبہ جلد۲)جمہورکامذہب یہی ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اوریہی احادیث سے ثابت ہے حضرت سائب بن یزیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھاکرتے تھے اورعثمان وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے عہدمیں بھی یونہی تھا۔(بیہقی) حضرت یزیدبن رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرفاروق بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں لوگ (بشمول وتر)23رکعت پڑھتے تھے۔(اخرجہ مالک فی الموطا)حضرت یحییٰ بن سعیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ امیرالمومنین حضر ت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کوحکم دیاکہ وہ لوگوں کو20 رکعت نمازتراویح پڑھائے۔(ابن شیبہ)حضرت ابوعبدالرحمٰن سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے رمضان شریف میں قاریوں کوبلایااوران میں سے ایک شخص کوحکم دیاکہ وہ لوگوں کو20رکعت نمازتروایح پڑھائے اورحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم وتر پڑھاتے تھے۔ (بیہقی شریف) حضرت ابوالحسناء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک شخص کوحکم دیاکہ وہ رمضان المبارک میں لوگوں کو 20رکعت نمازپڑھائے۔(ابن ابی شیبہ)
حضرت سائب بن یزیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیاکہ ہم حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فجرکے قریب تراویح سے فارغ ہوتے تھے اورہم بشمول وتر23رکعت پڑھتے تھے۔(رواہ عبدالرزاق)امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں فرمایااکثراہل علم کامذہب بیس رکعت تراویح ہے جوکہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم، حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضورنبی کریمصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے دیگراصحاب سے مروی ہے اوریہی (کبارتابعین)سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ،عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایامیں نے اپنے شہرمکہ میں (اہل علم)کوبیس رکعت تراویح پڑھتے پایا۔(ترمذی شریف)
حضرت سائب بن یزیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیاکہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدمیں صحابہ کرام علہیم الرضوان ماہ رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اوران میں سوآیات والی سورتیں پڑہتے تھے اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدمیں شدت ِ قیام کی وجہ سے وہ اپنی لاٹھیوں سے ٹیک لگاتے تھے۔(بیہقی)حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کوحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں قیام رمضان کے لئے اکٹھاکیاتووہ انہیں بیس تروایح پڑھاتے تھے۔(عسقلانی فی تلخیص الحبیر)حضرت عبدالعزیزبن رفیع نے بیان کیاکہ حضر ت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کورمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وترپڑھاتے تھے۔(ابن شیبہ)
حضرت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کورمضان المبارک کی راتوں میں (نمازتراویح)میں بیس رکعتیں اورتین وترپڑھایاکرتے تھے اوررکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھتے تھے۔(ابن شیبہ)جلیل القدرتابعی حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے (صحابہ اورتابعین جیسے)لوگوں کوبیس رکعات تراویح اورتین رکعات وترپڑھتے پایا۔(مصنف ابن شیبہ)
ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ “مجموعہ فتاویٰ”میں کہاکہ ثابت ہواکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان المبارک میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح اورتین وترپڑھاتے تھے تواکثراہل علم نے اسے سنت مانااس لئے کہ وہ مہاجرین اورانصارتمام صحابہ کرام کے درمیان ان کی موجودگی میں قیام کرتے (بیس رکعت پڑھاتے)اوران صحابہ میں سے کبھی بھی کسی نے انہیں نہیں روکا۔
الحمدللہ!احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیس رکعت نمازتراویح کاثبوت بالکل واضح اورروشن ہوگیاہے۔تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان تابعین، تبع تابعین مستندبزرگان دین کابیس رکعت نمازتراویح پرہمیشہ معمول رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسائل تراوی !
تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے کہ اگرمسجدمحلہ کے سب لوگ چھوڑدیں گے توسب گناہ گارہوں گے اوراگرکسی ایک نے گھرمیں تنہاپڑھ لی توگناہ گارنہیں مگرجوشخص مقتداہوکہ اسکے ہونے سے جماعت بڑی ہوتی ہے اورچھوڑدے گاتولوگ کم ہوجائیں گے اسے بلاعذرجماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں (عالمگیری)٭نابالغ کے پیچھے بالغین کی تروایح نہ ہوگی یہی صحیح ہے (عالمگیری)٭آج کل اکثررواج ہوگیا ہے کہ حافظ کواجرت دے کرتراویح پڑھواتے ہیں یہ ناجائزہے دینے والااورلینے والادونوں گناہ گارہیں اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشترمقرر کرلیں کہ یہ لیں گے یہ دیں گے بلکہ اگرمعلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتاہے اگرچہ اس سے طے نہ ہواہویہ بھی ناجائزہے ٭تراویح میں ایک بار ختم قرآن کرناسنت ہے لوگوں کی کاہلی کی وجہ سے ترک نہ کیاجائے ٭رمضان شریف میں وترجماعت کے ساتھ پڑھناافضل ہے خواہ اسی امام کے پیچھے جس کے پیچھے عشاء وتراویح پڑھی یادوسرے کے پیچھے(عالمگیری،درمختار)٭قراء ت اورارکان کی ادامیں جلدی کرنامکروہ ہے اورجتنی ترتیل زیادہ ہوبہترہے یونہی تعوذتسمیہ وطمانیت تسبیح کاچھوڑدینابھی مکروہ ہے (عالمگیری)٭مقتدی کے لئے یہ جائزنہیں کہ بیٹھا رہے جب امام رکوع کرے توکھڑاہوجائے یہ منافقین کاطریقہ ہے۔٭تراویح اگرفوت ہوئی تواس کی قضاء نہیں بہتریہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں دودوکرکے دس سلام کے ساتھ اداکرے۔٭بلاعذرتراویح بیٹھ کرپڑھنامکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام کے نزدیک تو ہوتی ہی نہیں۔(درمختار)اللہ رب العزت ہم سب کوصراط مستقیم کے راستے پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔اس ماہ مبارک کے صدقے ہمارے تمام گناہ معاف فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply