• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گلگت بلتستان مسئلہ کیا ہے؟ ۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

گلگت بلتستان مسئلہ کیا ہے؟ ۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

گلگت بلتستان انتہائی حساس خطہ ہے۔ خوبصورت وادیوں اور بلند و بالا گلیشیرز کی یہ سرزمین شمال پاکستان میں واقع ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں اسی خطے میں واقع ہیں۔ پاکستان اور چائنہ کے درمیان زمینی راستہ اسلام سے گلگت اور ہنزہ سے ہوتا ہوا سوست تک پہنچتا ہے۔ ہنزہ سے سوست بہت ہی خوبصورت روڑ تعمیر کیا گیا ہے اور سوست میں دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم مشین لگائی گئی ہے۔ اس خطے میں پچھلے بیس سال میں ایک خاموش انقلاب جنم لے چکا ہے اور وہ انقلاب تعلیم کا انقلاب ہے، وہ خطہ کہ جہاں بقول علی رضا عابدی چند دہائیاں پہلے کوئی ایک خاتون ایسی نہیں مل رہی تھی جو اردو میں بات کرے اور بات بھی کرنا چاہے، اس خطے میں تعلیم کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بعض  شہروں میں تعلیم سو فیصد ہے۔ اسلام آباد سے لیکر کراچی تک ہر شہر میں جہاں کوئی اچھا تعلیمی ادارہ ہے، وہاں جی بی کے لوگ موجود ہیں۔ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے ملکر یہ معجزہ  برپا کیا ہے۔

اس خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب مسئلہ کشمیر پیدا ہوا تو اسے اس کے ساتھ نتھی کر دیا گیا، حالانکہ اس کا مسئلہ کشمیر سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس خطے کے لوگوں کو ہر حکمران نے تھوڑے بہت حقوق احسان کے نام پر پکڑا دیئے۔ بھٹو دور تک تو وہاں راجگان کا نظام تھا اور عوام ان کے ظلم میں پس رہے تھے۔ آنے جانے کے شدید مسائل تھے۔ بھٹو نے راجووں کا ستم ختم کیا اور ساتھ میں قراقرم ہائے وے کی صورت میں رابطے کا ذریعہ بہتر ہوا۔ جانے کیوں اپنے لوگوں پر اعتماد نہیں کیا جاتا، جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ گلگت بلتستان کو تو پہلے ایجنسی طرز پر چلا گیا، یہ سلسلہ چلتے چلتے گلگت بلتستان کونسل تک پہنچا، جس میں عوام جسے منتخب کرتے وہ تو ڈپٹی چیف ایگزیکٹو ہوتا اور ایک غیر منتخب شدہ شخص ایگزیکٹو  پاور رکھتا تھا۔ پی پی کی حکومت نے دو کام کئے ایک تو شمالی علاقہ جات کا نام تبدیل کرکے گلگت بلتسان رکھ دیا اور دوسرا  یہاں کے عوامی منتخب نمائندے کو  وزیراعلٰی کہا جانے لگا ۔ آپ وزیراعلٰی کے نام سے غلط فہمی شکار ہو کر اسے پنجاب یا سندھ کے وزیراعلٰی پر قیاس نہ کر لیں۔ یہ تو صرف نام کے وزیراعلٰی ہوتے ہیں، اختیارات کا اصل مرکز ابھی بھی بیورو کریسی اور ایسے لوگوں کو بنایا گیا، جن کو منتخب کرنے میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ جی بی کونسل کے ذریعے بہت سے معاملات براہ راست مرکز کے کنٹرول میں رکھے گئے۔

مسلم لیگ کی حکومت نے جی بی اصلاحات کا آغاز کیا اور شروع میں ایسی خبریں آئیں کہ جیسے ابھی جی بی کے ستر سالہ مسائل کا ادراک کر لیا گیا ہے اور عوام کے ستر سالہ انتظار کے بعد انہیں ان کے بنیادی حقوق دیئے جا رہے ہیں۔ سرتاج عزیز ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور معاملات کا ادراک رکھتے ہیں۔ مگر جب اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی تو حیران کن طور پر مکمل صوبہ سے بات سپیشل صوبہ تک پہنچی اور سپیشل صوبہ سے نکل کر ایک پیکج تک آگئی، جس میں مزید کچھ اختیارات جی بی اسمبلی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے اور جی بی کے دوستوں کے خدشات ہیں کہ اختیارات کا مرکز وزیراعظم کو بنا دیا گیا ہے۔ ہر چیز وزیراعظم کی مرضی سے ہوگی۔ یہ بات  اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ وزیراعظم جسے بنانے میں جی بی کے عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان محکموں کے اجلاس طلب کرے، جن کے اجلاس سال میں چند بار منعقد کرانا اس کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے، ایسے میں وہ کیسے جی بی کے ہر معاملے کو ہر روز وقت دے کر حل کرے گا؟ اس پیکج میں کچھ اختیارات منتقل کرنے کی بات کی گئی ہے، جو کہ بہت اچھی بات ہے، مگر عوام اور سیاستدان تو بڑی خبر کی توقع لگائے بیٹھے تھے کہ وزیراعظم جی بی کو صوبہ بنانے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ان کی ان امیدوں کا خون کیا گیا ہے، ایسے میں جب فاٹا کے مسئلہ کو حل کیا گیا، جی بی کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا تھا۔ وہاں سے ایف سی آر کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو یہاں کے شہریوں کے وہ تمام آئینی حقوق کیوں نہیں دیئے جا سکتے، جو پاکستان کے دیگر علاقوں کے شہریوں کو حاصل ہیں۔؟

اس علاقے کے لوگوں کی وطن سے بے مثال محبت ضرب المثل ہے۔ کے ٹو کے بلند و بالا پہاڑوں سے لیکر تھر کے ریگستانوں تک وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کرتے این ایل آئی کے جوان مٹی کا مان بڑھاتے ہیں۔ ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والے تقریباً سب پاکستانیوں کا تعلق اسی سرزمین سے ہے، ان کی وہاں پہنچ کر بنائی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں، وہ جان پر کھیل کر سبز ہلالی پرچم کو بلند کر رہے ہیں۔ پنسٹھ ، اکہتر اور کارگل کی جنگ کے شہداء میں ایک بڑی تعداد جی بی سے تعلق رکھتی ہے۔ لال لک جان شہید جس کی جرات و بہادری کے قصے ہندوستانیوں نے سنائے، وہ اسی سرزمین کا عظیم سپوت تھا، جس کو پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نواز گیا۔ ایسے وفا شعار لوگوں کی قدر کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلسل محرومی ان کے خیالات کو تبدیل کر دے، کیونکہ یکطرفہ محبت کی ایک حد ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مسئلہ کے دو ممکنہ حل ہیں، ایک یہ کہ اسے مکمل صوبہ بنا کر  پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح تمام حقوق دے دیئے جائیں، یہی کرنا ہمارا اور علاقے کے مفاد میں ہے اور سب سے بڑھ کر ان تین نسلوں کی امیدوں کے مطابق ہے، جنہوں نے پاکستان کا مکمل صوبہ بننے کے خواب  آنکھوں میں سجائے رکھے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ اسے ایک متنازعہ علاقے کے تمام حقوق دے دیئے جائیں، وہ خود اپنے وسائل کے مالک ہوں، جو چاہیں کریں، جیسے کشمیر میں سیٹ موجود ہے، اس میں موجود خامیوں کو دور کرکے مزید اختیارات کے ساتھ جی بی میں نافذ کر دیا جائے۔ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں، اپنے بھائی ہیں، ہمیں ان پر اسی طرح اعتماد کرنا چاہیے، جیسے ستر سال سے وہ ہم پر اعتماد کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کے اہل حل و عقد اگر یہ سمجھتے ہیں کہ صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر پر اثر پڑے گا تو دوسرا حل بہتر ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اس  خطے کے محب وطن لوگوں کو اسی حالت میں رکھنا اور پیکجز پر   ٹرکاتے رہنا زیادتی ہے، جو ان وفا شعار لوگوں سے نہیں ہونی چاہیے۔ بالخصوص سی پیک کی وجہ سے ہمارا دشمن اس خطے میں بڑے پیمانے پر  سرمایہ لگا رہا ہے، ہمیں اپنی آنکھیں اور دماغ کھلے رکھنے ہوں گے

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply