اسلئے ان دو ممالک کا رتبہ اسلامی تنظیم میں وہی تھا، جو اقوام متحدہ میں امریکہ اور سویت یونین کا ہوتا تھا۔ مگر تین دہائی قبل ہی آہستہ آہستہ پاکستان اس تنظیم کیلئے غیر متعلق ہوتا گیا اور یہ سیٹ ترکیہ کے پاس آتی گئی، جو اب خاصا فعال ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ اردوان کی حکومت آنے کے بعد یہ رول کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔ سعودی عرب خو د ہی لیڈرشپ رول سے پیچھے ہٹتا گیا، جس کا خاطر خواہ فائدہ قطر، متحدہ امارات، ملیشیا اور ایران کو حاصل ہوا۔ نظریاتی وجوہات کی بناکر ایران کا رول محدود ہی رہا۔ مگر اس نے لیڈرشپ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ موجودہ حالات میں خاص طور پر بھارت کے ساتھ محدود جنگ میں ہارڈ پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے لئے لیڈرشپ کا رول پھر استوار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ایران کا بھی پیمانہ بھاری ہو گیا ہے۔ اس کانفرنس میں محسوس ہوا کہ سعودی عرب لیڈرشپ کے حصول کیلئے واپسی کر رہا ہے۔ مصر بھی ایک بار لیڈرشپ رول میں تھا، مگر وہ پھر پوری طرح غیر متعلق ہوگیا ہے۔عرب ممالک میں قطر اور افریقی ممالک میں برکینو فاسو اس بار بہت ہی سرگرم تھے۔ کانفرنس کے دوسرے دن جب خاصی تگ و دو کے بعد اعلامیہ جاری ہوا، تو مایوس کن بات یہ تھی، کہ اس میں ایران پر اسرائیل کے حملوں کا تو ذکر تھا، مگر امریکہ کا کہیں نام شامل نہیں تھا۔ ستاون ممالک میں کوئی بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستان کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد اردوان کو بریف کرنے پہنچ گئے تھے، انہوں نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔ ایک اہم انکشاف یہ تھا کہ مسلم دنیا میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔ اس کانفرنس میں استنبول میں ہی ایک میڈیا فوم کے قیام کو منظوری دی گئی۔ اس کا خاکہ ایک دہائی قبل دیا گیا تھا، مگر ابھی اس کا قیام باقی تھا۔ بتایا گیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف یہ ایک موثر فورم کام کریگا اور مسلم دنیا کیلئے بیانہ وضح کرنے کا بھی کام کریگا۔ ایک ایسے عہد میں جب تاثرات کی جنگ سفارتی میدانوں سے پہلے ڈیجیٹل دنیا میں لڑی جاتی ہے، مسلم دنیا کے لیے اپنی کہانی خود سنانا بغیر مسخ، تعصب یا بیرونی مفروضات کے نہ صرف ثقافتی ضرورت ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔ فورم کے تحت تربیتی پروگراموں کا آغاز، کردار کشی پر فوری ردعمل کے نظام، اور عوامی نشریاتی اداروں و میڈیا ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ متوقع ہے۔ ایسے وقت میں جب ایک وائرل کلپ یا جھوٹی خبر بین الاقوامی پالیسی کو کمزور کر سکتی ہے یا نفرت انگیزی کو ہوا دے سکتی ہے، تو یہ پہل علامتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی ضرورت بن چکی ہے۔ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر شفارش کی گئی کہ اشتعال انگیز تقاریر کو قابل سزا جرم بنانا اور مذہبی تعصب کے خلاف تعلیمی صلاحات کرنا اور اقوام متحدہ کی شراکت سے ایسے عالمی نظام کی تشکیل کرنا، جو مذہبی امتیاز کی تفتیش اور نگرانی کرکے اس پر فوری کاروائی بھی کرے۔ جس بھی ملک سے کوئی شہری اس ادراہ کے پاس امتیاز کی شکایت کرے، تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔ اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں مذہبی رواداری سے متعلق اسلامی دنیا کا پہلا بامعنی کردار ہو گا۔ دہائیوں سے اسلامی ممالک تعصب اور نفرت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، اب وہ ان کا تدارک پیش کر رہے ہیں ۔ ایک ایسی پیش رفت جسے مغربی جمہوریتیں نظرانداز نہیں کر سکتیں۔ اعلامیہ میں ایک حیران کن چیز یہ دیکھنے کو ملی کہ جہاں برما کے روہنگیا وغیر کا تذکرہ کیا گیا تھا، اس میں چین کیشین جیانگ یا چینی ترکستان کے اویغور آبادی کا تذکرہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ اجلاس ہی استنبول میں منعقد ہو رہا تھا، جہاں جلا وطن ایغور آبادی آچھی خاصی ہے، تو ان کا ذکر نہ کرنا عجیب ہی لگا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اعلامیوں میں جب ایغور آبادی کا تذکرہ ہوتا تھا تو چین اس پر سیخ و پا ہوتا تھا، جیسے بھارت کشمیر کے ذکر پر اسلامی تنظم کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ چند برس قبل چین نے اسکا توڑ یہ نکالا کہ جدہ میں او آئی سی سیکرٹریٹ کیلئے ایک خصوصی سفیر کا تقرر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اسلامی تنظیم کے اندر رسائی حاصل ہوئی اور اس نے تنظیم کو آفر دی کہ وہ ہر سال اسلامی ممالک کے وفد کو شین جیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دیں گے اور اگر وہاں عوام کی بہبودی کیلئے ان کو کوئی سفارش کرنی ہو، تو براہ راست اسلامی تنظیم میں متعین چینی سفیر کو دیا کریں۔ اس کے بعد اعلامیہ میں ایغور آبادی کا ذکر آنا بند ہوگیا۔ یہ شاید بھارت کیلیے بھی ایک سبق ہے۔ بجائے اسلامی تعاون تنظیم کے اعلامیوں کو ہدف تنقید بنانے کے، انٹرایکشن کا ماحول ترتیب دینے کی کوشش کرے۔ اسی کانفرنس کے دوران او آئی سی سیکرٹریٹ نے چین کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس کا مقصد وظائف، تعلیمی تبادلے اور مشترکہ تحقیق کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ جہاں او آئی سی عشروں سے مغربی اداروں سے منسلک رہی ہے، وہاں یہ شراکت ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ہے ترقی کے ایسے ماڈلز تیار کئے جائیں گے جو مغربی امداد کی شرائط سے آزاد ہونگے۔ او آئی سی ممالک کے لیے یہ ایک نایاب موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، سائنس اور تحقیق کے میدان میں مغربی انحصار سے باہر نکلنے کے راستے فراہم کرے۔ چینی سفیر چانگ ہوا نے اس معاہدے کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات میں “اہم سنگِ میل” قرار دیا اور تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، اور دیگر مشترکہ شعبوں میں مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔ اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق، علمی تبادلہ اور ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹریٹجک فریم ورک قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔جس میں بیس سے زائد ترک اعلیٰ تعلمی ادراے شامل ہونگے۔ اس کے ذریعے مشترکہ تحقیق، تربیتی پروگرام، اور رکن ممالک کی جامعات کے درمیان نیٹ ورکنگ کو تقویت ملے گی۔ اسی طرح او آئی سی مرکز برائے پولیس تعاون کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ابتدا میں سات رکن، ترکیہ ، قطر، موریتانیا، بینین، گنی بساو، گیمبیا اور لیبیا شامل ہونگے۔ یہ مسلم ممالک میں داخلی استحکام اور بین الاقوامی قانون نافذ کرنے کیلئے طریقہ کار وضح کرے گا۔ (جاری ہے)
بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں