• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خالد سعید: بالشتیوں میں سر بفلک۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

خالد سعید: بالشتیوں میں سر بفلک۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

موجودہ سیاسی و سماجی تناظر میں کثرت سے استعمال ہونے والی اصطلاح “بالشتیا” کے خالق پروفیسر خالد سعید 29 مئی کو اس دنیا سے سدھار گئے۔ وہ جب موجود تھے ،حتیٰ کہ جب وہ صاحب فراش بھی تھے کبھی یہ احساس تک نہ ہوا کہ دنیا ان کے بغیر کیا ہوگی۔ اس بات کا احساس عین اس صبح کو ہوا جب ان کے جانے کی اطلاع ملی۔ یہ اطلاع گو غیر متوقع نہیں تھی مگر پھر بھی ناقابل یقین ضرور تھی۔ جس نے آنا ہے اس نے جانا ہے۔۔۔ صحیح۔۔۔ مگر خالد صاحب چلے جائیں گے،یہ سوچنا ان کے جانے کے بعد بھی محال لگتا ہے۔ خالد صاحب کی موجودگی ہو سکتا ہے آپ کو متوجہ نہ کرے کیونکہ وہ گھنٹوں خاموش بیٹھ سکتے تھے مگر ان کی غیر موجودگی۔۔۔۔۔ اس کا احساس صرف ان کے جانے کے بعد ہوا ہے۔ وہ موجود ہوتے تو ایسے جیسے کسی پر بار نہ ہوں۔ وہ صوفیوں اور سنتوں کی مانند سطح آب پر پھول کی پتیوں کی طرح تیرتے تھے۔ مگر آج ان کا نہ ہونا پہاڑ جتنا وزنی ہو گیا ہے کہ اٹھائے نہیں اٹھتا۔ وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے ان کے ساتھ زندگی کے چند لمحے گزارے ہیں۔ مگر اب یہ خوش نصیب لوگ خالد صاحب کے بغیر زندگی بِتانے کا حوصلہ کہاں سے لاتے ہیں ہمیں اب یہ دیکھنا ہے۔ مجھ ایسے ہزاروں جو فخر سے سینے پر ہاتھ مار کر کہتے تھے کہ ہم خالد سعید کے شاگرد ہیں انہی خالی سینوں میں کھو کھلے پن کے احساس کے ساتھ دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ غرور کیا ہوا۔ وہ احساس کیا ہوا کہ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئی تو بس ایک فون کال۔۔۔ اور جواب موجود۔ بڑی سے بڑی ذاتی الجھن، بس ایک ملاقات۔۔۔ اور الجھن ہَوا۔ ملک میں رونما ہونے والا بڑے سے بڑا واقعہ۔۔ ایک فون۔۔۔اور اُدھر سے یہ کہا جانا کہ دیکھو تمہیں میں نے یہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ یہی کچھ ہونا تھا حیرانی اور پریشانی کیسی۔۔۔ پھر کہتے “پاکستان اب بھی دنیا میں رہنے کے لئے سب سے بہتر جگہ ہے۔ تم بھی واپس آ جاؤ میں گارنٹی دیتا ہوں تم یہاں خوش رہو گے۔”

خالد صاحب استاد نہیں تھے کیونکہ اب استاد تو وہ ہیں جو طلباء سے فاصلے قائم رکھ کر اپنا بھرم بناتے ہیں۔ خالد صاحب وہ گرو تھے جو اپنا آپ دکھا کر طلباء کے دل جیتتے تھے۔  وہ اپنا آپ دکھا کر، اپنے گھر کا دروازہ کھول کر، اپنی دانش کو امتحان سے گزار کر،اپنے علم کو مفت میں بانٹ کر، لیکچر دے کر، گانے گا کر، لطیفے سُن اور سنا کر اور لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوکر یہ بتاتے تھے کہ دیکھو میں ایسا ہوں۔ پھر جو ایک مرتبہ خالد سعید کو دیکھ لیتا اس کے لیے واپس پلٹنا ناممکن ہو جاتا۔ آپ نے ایسا استاد کہاں دیکھا ہوگا جو کالج کی کینٹین پر طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیے، صرف اس کے شاگرد ہی نہیں کوئی بھی آتا جاتا اس محفل میں بیٹھ جائے، چائے اور سگریٹ استاد سے پیے، سوال کرے، الجھے، بقراطی جھاڑے، اپنے ناکام عشق کا رونا روئے، نہ ہو سکنے والے عشق کی الجھنوں کو استاد کے سامنے رکھے۔ اور جب اٹھے تو مطمئن ہوکر۔۔ ہو سکتا ہے ایسے استاد ہوتے ہوں مگر اب نہیں ہوتے۔ اب صرف خالد صاحب ہوتے تھے آپ خالد صاحب نہیں ہیں تو اب کوئی اور کیا ہوگا۔

اوروں کی طرح میں نے بھی بہت سوچا کہ خالد صاحب ایسے کیوں تھے۔ میں ان کو 1984 سے دیکھ رہا تھا۔ جب وہ ٹرانسفر ہو کر پہلی مرتبہ ملتان آئے تو پہلی کلاس ہماری تھی جو انہوں نے پڑھائی۔ نفسیات کا پہلا سبق میں نے ان سے ہی پڑھا تھا۔ اور آج کی تاریخ تک جو بھی جمع پونجی ہے وہ ان کی یا پھر ڈاکٹر اختر احسن کی عطا کردہ ہے۔ میں نے ان کو کالج کی کینٹین پر اساتذہ کے ساتھ بھی دیکھا ہے اور طلباء کے ساتھ بھی۔۔ میں نے ان کو ان کے اپنے گھر میں بھی دیکھا ہے اور اپنے گھر میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ملتے جلتے بھی دیکھا ہے۔  میں نے ان کو آرٹس فورم اور اردو اکیڈمی کے اجلاسوں میں بھی دیکھا ہے۔  نفسیات اور ادب کی کانفرنسز میں بھی دیکھا ہے۔ اور تو اور آرٹس فورم کے اجلاس کے بعد چائے کے ڈھابے پر ڈاکٹر مقبول گیلانی کے لطیفوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔  میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ ہر جگہ میں نے صرف اور صرف ایک خالد سعید دیکھا ہے  ۔ صرف ایک خالد سعید۔۔ جس نے پوری زندگی میں صرف دو چیزوں سے دوستی اور محبت کی اور جس کو انہوں نے آخر سانس تک نبھایا۔ ایک علم سے اور دوسرے زندگی سے (یہاں میں نے انسان نہیں کہا کیونکہ اگر میں انسان کہتا تو ان کے لگائے ہوئے پودے اور لاڈوں سے پالے کتے ناراض ہو جاتے)۔

خالد سعید صاحب(مرحوم)

علم اور زندگی کی ہر صورت سے خالد صاحب کی دوستی کا ثبوت اس آخری لمحے تک سے کشید کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے بقائمی ہوش و حواس گزارا۔ ان کی وفات سے پانچ دن قبل جناب عابد باقر نے فون پر میری ان سے بات کروائی جس کے ایک دن بعد وہ کوما میں چلے گئے اور وہیں سے انہوں نے عدم کی راہ اختیار کی۔ عملی طور پر زندگی کے آخری دن وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ تم نے فینون والی کتاب کا کیا کِیا  اور بتا رہے تھے کہ ناول چھپ کر آگیا ہے تمہاری کاپی میں نے رکھ لی ہے تم آؤ گے تو مل جائے گی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے کہا کہ اس وقت بات نہیں ہو پا رہی، تم سے پھر بات کروں گا اور وہ “پھر” کبھی نہیں آئی۔

میں جس رات ٹھیک سے سو نہ سکوں، اگلا سارا دن لکھنا پڑھنا تو درکنار معمول کے کام نہیں ہوتے۔۔ وہ کیا انسان ہوگا جس نے کینسر کی تشخیص کے بعد کیمو تھراپی کے دوران میں پانچ ہزار سے زائد صفحات تحریر کیے۔  جن میں سے سات سو صفحات پر مشتمل وہ ناول تھا جس کا انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ خالد صاحب کا یہ وعدہ ان کی وفات کے بعد اس ہستی نے پورا کیا جو ان کے لئے شریک حیات سے بہت زیادہ اور بہت کچھ تھی۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ خالد صاحب کیوں کرتے تھے۔ اس مشقت کا کارن کیا تھا؟ کیا یہ سب کچھ پیسے کمانے کے لئے کیا جا رہا تھا۔  اپنے سی وی میں کچھ اضافے کے لیے یا کسی عہدے، مرتبے یا شہرت کے لئے وہ یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ کیا وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کی ان سرگرمیوں سے کوئی عظیم الشان انقلاب رونما ہو جائے گا یا بنی نوع انسان کسی فلاح سے فیضیاب ہو جائے گی۔ ؟بیماری کے دوران میں ان سے ہونے والی بالمشافہ ملاقاتوں اور ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں اور دیگر احباب اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان کو اپنے جانے کا پتہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا۔ اور اس یقین نے ان کے راکھ کی طرح چلتے ہوئے بدن کو توانائی سے بھر دیا تھا اوریانا فلاشی ان کی پسندیدہ ترین مصنفہ اور A Man ان کے پسندیدہ ترین ادب پاروں میں سے ایک تھا۔ انہوں نے بیماری کی حالت میں اپنے سے کیا ہوا یہ وعدہ پورا کیا اور اس ناول کا اردو ترجمہ کر دیا۔ علم کی محبت کے علاؤہ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے جس نے ناتواں کو توانا کردیا تھا۔ ایک اور کام جو ادھورا رہ گیا وہ کارل مارکس کا فرائیڈین تجزیہ تھا۔ کاش ہم دیکھتے کہ وہ کس طرح یہاں اپنے دو پسندیدہ ترین مصنفوں کو اکھٹا کر دینے جارہے تھے۔ میرا دل کہتا ہے کہ اگر وہ اور جیتے رہتے تو فرائیڈ کا مارکسسٹ تجزیہ بھی ضرور کرتے۔ اور ایسا کرنے کی اہلیت رکھنے والے کم از کم پاکستان میں وہ واحد شخص تھے۔

میں نے ان سے کئی مرتبہ گزارش کی کہ وہ استعماریت کی نفسیات پر دسترس رکھنے والی ملک کی اہم اور اہل ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انہیں اس موضوع کی جانب توجہ فرمانی چاہیے۔غالباً  وہ اس موضوع کے سیاست آلود ہونے سے آزردہ تھے۔ مجھے لگا کہ شاید وہ یہ دیکھ کر دل گرفتہ تھے کہ ضیاء الحق کے حامی کس طرح فرانز فینون کے حوالے دے رہے ہیں۔ اس ملک میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ فیض احمد فیض کی شاعری کس کس نے نہیں گائی۔ حبیب جالب کہاں کہاں استعمال نہیں ہوا۔ فاشزم کا الزام کس کس نے کس کس پر نہیں لگایا۔۔۔ میں نے ان سے بحث کی کیا ایرک فرام، ولہم رایخ، فرائیڈ اور فینون کو ان لوگوں کے لئے چھوڑ دیا جائے جن کے نظریات کو یہ نابغے ساری زندگی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اور آج یہ استعماری گماشتے انہیں عظیم مصنفین کی تحریروں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے پھریں۔۔ سگریٹ کا آخری کش لگا کر ایش ٹرے میں اس کو بجھاتے ہوئے فرمایا “ایسا کبھی نہیں ہوگا”۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ انقلابی مصنفین کے لکھے ہوئے ترانے گانے والے کرائے کے گلوکار اب کسی اور بیاض سے گاتے ہیں۔ تاہم میرے اصرار پر اتنا ضرور ہوا کہ ان موضوعات پر میں جو کچھ بھی لکھ سکا خالد صاحب نے اس کو بالالتزام دیکھا اور شاباش میں لپیٹ کر اصلاح بھی کی۔

خالد صاحب جب 1984  میں ملتان آئے تو ہماری کلاس میں اس وقت نفسیات پڑھنے والے صرف سات طلباء تھے۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ دوسرے مضامین پڑھنے والے طلبہ اپنی کلاسوں میں حاضری لگا کر نکل آتے اور خالد صاحب کو سنتے۔جب خالد صاحب فرائد پڑھا رہے تھے تو کلاس میں کھڑا ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ ایک فرائیڈ اور اس پر بیان خالد صاحب کا۔ ان کا زور خطابت اپنے جوبن پر ہوتا تھا۔ جنہوں نے خالد صاحب کو بڑے اجتماعات میں بولتے سنا ہے اس زور خطابت کی جولانیاں صرف وہی سوچ سکتے ہیں۔ اس وقت کلاس روم میں سگریٹ پینے پر ممانعت تو نہیں تھی مگر کوئی استاد پیتا بھی نہیں تھا۔ مگر خالد صاحب پیتے تھے راسٹرم پر بعض اوقات تین تین سگریٹ سلگ رہے ہوتے۔ ہم انہیں نیا سگریٹ سلگاتا دیکھ کر یاد دلاتے کہ سر ایک سلگتی سگریٹ ابھی آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔ بعض اوقات ہم بھی ان کی گفتگو میں اتنے محو ہوتے کہ انہیں یاد دلانا ہمیں بھی یاد نہ رہتا۔ اور نتیجہ راسٹرم پر تین تین سلگتے ہوئے سگریٹوں کی صورت میں نکلتا۔ خالد صاحب کی تصویریں دیکھیں شاید ہی کوئی ایسی ہو جس میں وہ سگریٹ کے بغیر نظر آئیں۔ اور اگر کسی تصویر میں سگریٹ نہیں ہے تو یقین کیجئے کہ انہوں نے تصویر کے لیے سگریٹ بجھائی ہو گی۔ سگریٹ کی غیر موجودگی میں بھی ان کی انگلیاں خیالی سگریٹ تھامے رہتیں۔ اپنی تشخیص سے چند مہینے پہلے وہ ہماری دونوں بیٹیوں کو اپنے کتوں سے ملوانے کے لیے اپنے گھر لے گئے اور وہاں انہوں نے ان سے کہا دیکھو میں نو سال کی عمر سے سگریٹ پی رہا ہوں۔ اور آج بھی ستر سال سے زائد ہوں۔ خوب سگریٹ پیتا ہوں اور مکمل فٹ ہوں۔ لوگ بلا سبب سگریٹ کے خلاف ہوئے جاتے ہیں۔۔ غالباً وہ اس خاکسار کی طرف اشارہ کر رہے ہوں گے۔۔ اے کاش اپنی ہر بات کی طرح خالد صاحب اس بات میں بھی ٹھیک ثابت ہوتے۔

مجھے جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر رنگ اور ہر پہلو سے محبت کرنے والے خالد صاحب اس جان لیوا عادت کو کیوں نہیں دیکھ سکے۔ میرے بہت سے جگری سگریٹ کی علت میں مبتلا ہیں۔ مجھے کسی حد تک اس علت کے اسباب کا علم بھی ہے لیکن خالد صاحب نے ان اسباب پر مکمل قابو پا لیا تھا لیکن لگتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہے۔۔۔۔ بظاہر غصہ، اداسی اور تنہائی ان کے مسائل نہیں تھے۔ میں نے انہیں کبھی ان مسائل کا شکار نہیں پایا۔میں نے زندگی میں جن انقلابیوں کو دیکھا ہے ان میں خالد صاحب اس لحاظ سے بہت نمایاں تھے کہ تلخی، غصہ اور نظریاتی مخالفین کے لئے مخاصمت ان کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ زندگی سے ان کی محبت نے ان میں موجود تمام تر تلخی اور غصے کو شکست فاش دے دی تھی۔ نفرت نہیں وہ محبت کرنے والے انقلابی تھے۔ آپ جانتے ہیں انقلابیوں میں غیر انسانی استعماری نظام کے خلاف غصہ ایک لابدی شخصی خصوصیت کے طور پر موجود ہوتا ہے۔یہ غصہ ہے جس کی بنیاد پر رد عمل اور مزاحمت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ انقلابیت کے جذبے میں کمی بیشی کا انحصار اس غصے کے اتار چڑھاؤ پر منحصر ہوتا ہے۔ جتنا غصہ زیادہ ہوگا انقلابیت بھی اتنی ہی تیز ہوگی۔ لیکن غصے کی زیادتی کبھی بھی ایک نقطے پر مرتکز نہیں رہ پاتی۔ یہ غصہ زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوؤں میں سرایت کرنے سے باز بھی نہیں رہتا اور نہ رہ سکتا ہے۔ خالد صاحب فرائیڈ کے بھگت تھے۔ ان سے بہتر کون جانتا تھا کہ فرائیڈ نے ان جیسے انقلابیوں کے غصے کے بارے میں کیا کہہ رکھا ہے۔ شاید اسی لیے اوائل جوانی ہی میں انہوں نے اس غصے کو نہ صرف شناخت کر لیا تھا بلکہ وہ اس کا رخ بھی تبدیل کرچکے تھے۔ اسی لئے انقلابیت ان کے ہاں غصے کے اندھے اظہار سے ہٹ کر معاشرے میں جینے کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے طور پر ظہور پذیر ہوتی ہے۔ فرانز فینون نے محکوموں کی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کارروائیوں کے ذریعے محکوم اپنے غصے، کمزوری اور بے بسی کے احساسات پر قابو پاتے ہیں۔ خالد صاحب نے عملاً اس کے برعکس کیا۔ انہوں نے اپنی انقلابیت کی اساس زندگی سے محبت پر رکھی۔ جس نے انہیں فکری اور عملی طور پر اتفاق اور اختلاف کے مصنوعی تفرقے سے ماورا کر دیا تھا۔

آپ خالد صاحب سے ملنے والوں سے دریافت کیجئے ہر کوئی بالاتفاق یہ کہے گا کہ ان کے چاہنے والوں میں کٹر مذہبی لوگوں سے لے کر غیر متزلزل انقلابیوں تک ہر کوئی ملے گا۔ ایسا صرف اسی لئے اور اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ جب انسانوں سے اختلاف اور اتفاق سے ماورا جا کر محبت کی جائے۔ ہمارے جہادی معاشرے نے ہمیں ہر اس شخص سے نفرت کرنا سکھا دیا ہے جو ہم سے ذرا سا بھی مختلف ہے۔ خالد صاحب کی زندگی   ہی نے نہیں ان کی نماز جنازہ تک نے اس روش کو غلط ثابت کرکے دکھایا ہے۔ نماز جنازہ پڑھانے والے امام کی تقریر سے لے کے جنازے میں موجود افراد کی سسکیاں اور آنسو زندگی سے پیار کرنے والے کی محبت کی گواہی تھے۔ اس مجمع کی اکثریت خالد صاحب سے نظریاتی طور پر مختلف تھی تاہم ان کے آنسؤوں کا منبع صرف اور صرف خالد صاحب کی موت کا دکھ تھا۔ میں نے مردوں کو اس طرح جنازے کے جلوس میں دھاڑے مار مار کر روتے کبھی نہیں دیکھا ہر کسی کو لگ رہا تھا کہ ان کا اپنا سگا خالد سعید چلا گیا ہے۔۔ لوگ حواس باختہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک دوسرے سے تعزیت کر رہے تھے جیسے سب کا ایک سا نقصان ہو گیا ہو۔ خالد صاحب ساری زندگی مردانہ اوصاف کے خلاف رہے انہوں نے اپنے جنازے میں شامل مردوں کو عورتوں کی طرح رلا دیا۔ تدفین کے اگلے دن جب میں ان کے گھر گیا تو ان کا وہ پالتو کتا جو دستک کے بعد خالد صاحب سے پہلے مہمانوں کا استقبال کرتا تھا صرف بالائی منزل پر کھڑا مہمانوں کو دیکھ کر سسک کر رہ گیا۔ نیچے بھی نہیں آیا شاید کہہ رہا تھا کہ اب نہ تم پہلے کی طرح آؤ گے اور نہ میں پہلے کی طرح ملوں گا جس کے دم سے آنا جانا تھا۔۔۔ وہ چلا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خالد صاحب پر تعزیتی مضمون لکھنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔۔ وعدے کے باوجود جلد نہ لکھ سکا۔ لیکن اس تعزیتی مضمون لکھنے سے زیادہ مشکل ان کی یاد کے ساتھ زندہ رہنا اور ان جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply