• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان: اندیشے اور امکانات ۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی

افغانستان: اندیشے اور امکانات ۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی

افغان سٹوڈنٹس افغانستان کے زمینی راستوں اور دروازوں کا تیزی سے کنٹرول حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ تاجکستان سے جڑنے والے بندر شیر خان کے بعد آج انہوں نے چائنا سے ملنے والا واخان کوریڈور بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ واخان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اس بدخشان صوبے میں ہے جو پچھلے دور میں افغان سٹوڈنٹس جنگ سے بھی حاصل نہ کرپائے تھے۔ جبکہ اس بار یہ بغیر جنگ کے ہاتھ آتا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس کا صوبائی دارالحکومت فیض آباد فی الحال افغان سٹوڈنٹس کے پاس نہیں ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یہ بات شامل ہے کہ سٹوڈنٹس 11 ستمبر سے قبل کوئی بھی بڑا شہر نہیں لیں گے۔ چنانچہ سٹوڈنٹس تب تک بیرونی اضلاع لیتے جا رہے ہیں اور بڑے شہروں کو ٹچ نہیں کر رہے۔ دوسری جانب سٹوڈنٹس قندھار ہائیوے کا کنٹرول بھی سنبھال چکے ہیں۔ چمن بارڈر پر افغان گیٹ کا کنٹرول لینے کے لئے انہیں سپن بولدک لینا ہوگا جس کے لئے انہیں ستمبر کی ڈیڈ لائن کا انتظار کرنا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ اور سٹوڈنٹس فی الحال معاہدے کی پوری پاسداری کر رہے ہیں۔ بائیڈن نے مکمل انخلاء مئی کے بجائے ستمبر تک بڑھایا جسے سٹوڈنٹس نے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ لیکن اب پتہ چل رہا ہے کہ تاریخ میں وہ توسیع بس آفیشل حد تک ہوئی ہے۔ عملا انخلاء وہ جولائی شروع ہوتے ہی پورا کرچکے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ستمبر میں اب رسمی کار روائی ہوگی۔ اگر معاہدے کی پاسداری ہوتی چلی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغان سٹوڈنٹس “ورلڈ مین سٹریم” کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تو وہ براہ راست معاہدے میں ہیں جبکہ چین اور روس کے ساتھ بھی ان کے اعتماد کے رشتے قائم ہوچکے ہیں۔ سو وہ اپنی داخلی خود مختاری پر تو سمجھوتہ نہیں کریں گے لیکن عالمی برادری سے استغناء بھی نہ دکھائیں گے۔ انہیں عالمی قوانین کا حوالہ دیا جائے گا تو وہ صاف کہدیں گے کہ عالمی قوانین کے تو ہم تب ہی پابند ہوسکتے ہیں جب آپ ہمیں “تسلیم” کریں گے۔ پہلے ہمیں تسلیم کیجئے پھر عالمی قوانین منوا لیجئے۔ یوں لین دین کرنا ہی پڑے گا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت سے وہ اپنے پچھلے دور میں بھی رہے تھے۔ اور ان کا ڈیلی گیشن امریکہ میں موجود رہا تھا۔
ایک بہت ہی اہم چیز جسے تجزیہ کار نظر انداز کر رہے ہیں وہ حامد کرزئی کا افغان سٹوڈنٹس کے ساتھ آن بورڈ ہونا ہے۔ ہم یہ تو دیکھ ہی چکے کہ افغان سٹوڈنٹس اشرف غنی کو بالکل گھاس نہیں ڈال رہے۔ اسے مذاکراتی عمل سے بھی انہوں نے بالکل باہر رکھا تھا۔ لیکن دوسری جانب ماسکو میں ہونے والے بین الافغان ڈائیلاگ میں انہوں نے حامد کرزئی کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا تھا۔ ان مذاکرات کے ایک دور میں رشید دوستم کے نمائندے سے تو سٹوڈنٹس کی تلخی ہوئی ہے لیکن حامد کرزئی سے بالکل نہیں ہوئی۔ وہ حامد کرزئی کو ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر قبول کرچکے ہیں حالانکہ کرزئی قندھار کے ہیں، جس سے روایتی طور پر رقابت محسوس ہونی چاہئے تھی۔ حامد کرزئی کے حوالے سے قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ کرزئی، پاکستان، اور سٹونٹس کا موقف تقریبا یکساں ہے۔ میں ذاتی طور پر بہت ہی قابل اعتماد ذرائع سے جانتا ہوں کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سٹوڈنٹس کے مابین معاملات پاکستان نے طے کروائے ہیں۔
وہ دوست جو 2014ء سے میرے ساتھ فیس بک پر ایڈ ہیں، جانتے ہیں کہ میں کئی سالوں سے یہ کہتا آرہا ہوں کہ شمالی اتحاد اور سٹونٹس کے مابین معاملات میں پاکستان زبردست پیش رفت کرچکا ہے۔ پاکستان اب صرف سٹوڈنٹس کی حمایت والی پالیسی پر نہیں چل رہا بلکہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کا سٹیک محفوظ رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ افغان اکائیوں کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت بھی افغانستان کو پاکستان کی گرفت سے نہ نکال سکی لھذا بہتری اسی میں ہے کہ پاکستان سے بنا کر اپنے حصے کا حلوی کنفرم کروایا جائے۔ دوسری جانب پاکستان بھی یہ سیکھ گیا ہے کہ کسی ایک قوت کے سر پر ہاتھ رکھنا درست حکمت عملی نہیں۔ جب آپ کسی قوت کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لئے آپ کے دشمن ممالک آجاتے ہیں۔ اب اگر اس پورے پس منظر میں یہ بات پیش نظر رکھ لی جائے کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت افغانستان میں اب ایک عبوری حکومت آنی ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے۔ اس عبوری حکومت نے ہی افغانستان کا نظام اور مستقبل وغیرہ طے کرنے ہیں۔ اس عبوری سیٹ اپ کے طے کردہ نظام کے مطابق ہی مستقبل کی باقاعدہ حکومتیں آیا اور جایا کریں گی۔ تو سمجھنا دشوار نہیں کہ مستقبل کے حوالے سے ایک پر امن روڈ میپ موجود ہے۔ سٹوڈنٹس کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ روڈ میپ تو طے کیا ہے لیکن عبوری سیٹ اپ نے افغانستان کا جو نظام طے کرنا ہے اس سے اسے باہر رکھا ہوا ہے۔ مستقبل کا یہ متوقع نظام نہ تو امریکہ کا ہوگا اور نہ ہی سٹوڈنٹس کا۔ یہ افغان اکائیوں کی مشترکہ کاوش ہوگی۔
اس کاوش کی راہ میں رکاوٹیں بس دو ہیں۔ ایک مزار شریف اور دوسرا کابل۔ یہی وہ دو مقامات ہیں جہاں اس وقت جنگ کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ مزار شریف کی ممکنہ خون ریزی کو ترکی ٹال سکتا ہے کیونکہ دوستم پر اس کا اثر رسوخ ہے۔ اور اگر نہیں ٹالا تو یہاں لڑائی ہوکر رہنی ہے۔ دوسری طرف مسعود کا بیٹا اور بھائی ہے جو کابل میں شہریوں کو مسلح کرکے بیٹھے ہیں۔ لیکن جب بدخشان میں سٹوڈنٹس آچکے تو صرف یہی ایک موو مسعود زادوں کے ہوش اڑانے کو کافی ہے۔ بدخشان پنجشیر کی پشت پر واقع ہے۔ آنے والے دنوں میں فرنٹ سے سٹوڈنٹس جوں ہی کابل کو شمال سے کاٹیں گے تو پنجشیر مکمل محاصرے میں ہوگا۔ یوں امکان یہ نظر آ رہا ہے کہ کابل کے چکر میں اپنے گھر پنجشیر سےہی یہ ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ تب مسعود زادوں کے پاس جنگ کی صورت میں آخری آپشن براستہ کابل ایئرپورٹ ملک سے فرار ہی بچے گا۔ امن تو انہیں تب تک ہی حاصل ہے جب تک گولی نہ چلے۔ ایک بار گولی چل گئی تو عام معافی کا آپشن غیر مؤثر ہوجائے گا۔
ادارتی نوٹ: ذیل میں افغان طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر فتح کردہ علاقوں کی تفصیلات پیش خدمت ہیں:
Index Province Captured District Total Captured
1. Logar 3 Charkh a.
Azra 2
Barki Barak 3
2. Laghman 2 Dawlat Shah 4
Baad Pakh 5
3. Baghlan 10 Dahn-i- Ghori 6
Borka 7
Doshi 8
Jalga 9
Nahreen 10
Khost Firang 11
Central Baghlan 12
Tala wo Barfak 13
Khinjan 14
Guzargah e Noor 15
4. Badghis 3 Sang e Atish 16
Marghab 17
Qadis 18
5. Helmand 2 Washir 19
Nawa 20
6. Daykundi 2 Gezab 21
Fato 22
7. Kandahar 8 Arghistan 23
Maiwand 24
Ghorak 25
Khakrez 26
Maroof 27
Shah Wali Kot 28
Panjwaye 29
Miansheen 30
8. Herat 3 Farsi 31
Obe 32
Chasht 33
Ghoriyan 34
9. Maidan Wardak 5 Nirkh 35
Jalrez 36
Said Abad 37
Chaki 38
Jhaghatu 39
10. Ghazni 7 Haik 40
Jhaghatu 41
Aab Band 42
Gilan 43
Maqar 44
Qarbagh 45
Umari 46
11. Faryab 10 Dawlat Abad 47
Qaisaar 48
Lolash 49
Tagab 50
Juma Bazaar 51
Garzewan 52
Bal Chiragh 53
Andkhoi 54
Qarmaqol 55
Qarghan 56
12. Sari-e-pul 4 Sozma Qala 57
Sayyad 58
Sangcharak 59
Gosfandi 60
13. Farah 4 Pusht Rod 61
Joen 62
Anar Dara 63
Farah Rod 64
14. Ghor 4 Shahrak 65
Saghar 66
Tulak 67
Du Layna 68
15. Uruzgan 4 Janarto 69
Khas Uruzgan 70
Chora 71
Char Cheno 72
16. Jowzjan 7 Mingajik 73
Mardyan 74
Khanqah 75
Faizabad 76
Aqcha 77
Qarqin 78
Khamyab 79
17. Takhar 16 Baharak 80
Bangi 81
Khwaja Ghar 82
Yangi Qala 83
Hazar Sumuch 84
Namak Aab 85
Chal 86
Dashti Qala 87
Ashkmash 88
Darqad 89
Chah Aab 90
Khwaja Bahauddin 91
Rustak 92
Gulfagan/Kalafagan 93
Farkhar 94
Warsaj 95
18. Samangan 4 Dara-e- Sufi Payan 96
Dara-e- Sufi Bala 97
Feroz Nakhchir 98
Hazrat Sultan 99
19. Balkh 9 Char Bolak 100
Zaree 101
Dawlatabad 102
Sholgara 103
Kishindih 104
Chimtal 105
Khas Balkh 106
Shortepa 107
Kaldaro 108
20. Kunduz 5 Dasht e Archi 109
Qalay-i- Zal 110
Imam Sahib 111
Ali Abad 112
Chardara 113
21. Zabul 5 Arghandab 114
Shinkay 115
Shah Joy 116
Shamulzayi 117
Sewri 118
22. Paktia 10 Zazai Aryob 119
Lajh Mangal 120
Ahmad Khel 121
Mirzaka 122
Chamkanio (Shahr e Nou) 123
Patan 124
Jani Khelo 125
Said Karam 126
Rohani Baba 127
Zurmat 128
23. Badakhshan 23 Arghanj Khwa 129
Khash 130
Tishkan 131
Tagab 132
Kishim 133
Wardaj 134
Yaftali Payan 135
Daryem 136
Shahr-i-Buzurg 137
Raghistan 138
Jurm 139
Argo 140
Kuf Aab 141
Baharak 142
Yawan 143
Shuhada 144
Zaibak 145
Ashkasham 146
Khwahan 147
Shakai 148
Nasai 149
Mayemi 150
Wakhan 151
24. Nooristan 2 Mandol 152
Du Aab 153
25. Parwan 2 Shinwari 154
Siagard 155
26. Nimruz 1 Khash Rod 156
27. Paktika 3 Khushamand 157
Zerrok 158
Arandu 159
28. Kapisa 2 Alasay 160
Tagab 161
29. Ningrahar 1 Hisarak 162

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply