پارسائی کا کفارہ۔۔۔قراۃ العین حیدر

مانوس خوشبو کا ایک جھونکا اس نے محسوس کیا۔ ۔ چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔ وہی خوشبو تھی۔ ایک لمحے کیلئے اس کی سانس رُک سی گئی۔ ٹانگوں نے اس کا بوجھ برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ وہ قریبی کرسی کا سہارہ لے کر  بیٹھ گئی ۔ اچانک ہی وہ خوشبو پھر سے وارد ہوئی اور خوشبو والا بھی دِکھ گیا۔ نہیں یہ وہ نہیں تھا۔۔ ان چند لمحوں میں وہ بھول گئی کہ یہ کوئی بہت خاص خوشبو نہیں ہے ایک برینڈڈ خوشبو ہے جو وہ بھی استعمال کرتا تھا۔ خوشبو کے اس چکر میں وہ بھول ہی گئی  کہ وہ کس کام سےبینک آئی تھی۔جب وہ  خیالوں سے حقیقی دنیا میں لوٹی تو اس کا ٹوکن نکل چکا تھا اور بینک تقریباً خالی تھا۔ وہ بھاگم بھاگ  ایک کاؤنٹر پہ گئی جہاں ایک خوش لباس لڑکی اپنا کام سمیٹنے میں مگن تھی۔ “جی میرا ٹوکن نکل گیا ہے اور مجھے یہ چیک کیش کروانا ہے؟ ” ۔ لڑکی نے نظریں اٹھا کر کہا “میڈم میرا کاؤنٹر تو اب بند ہے بیلنس کرلیا ہے بینک بند ہوئے بیس منٹ ہونے والے ہیں میں پاشا سے کہتی ہوں کہ آپ کا چیک کیش کردے” ۔

یہ صرف اب کی بات نہیں تھی وہ ہمیشہ کھو جاتی تھی کبھی اس سے منسلک خوشبو میں، کبھی اس سے ملتے جلتے سراپے میں تو کبھی اس سے ملتی آواز اور لہجے میں ۔ اور ستم تو یہ تھا کہ خود تو کھو جاتی تھی لیکن کچھ دیر بعد جب ہوش میں آتی تھی ایک نئے ڈپریشن میں گھِر جاتی۔
“آنکھیں کھولو نہ یار۔۔۔۔۔ خود اتنی اچھی لگ رہی ہو۔۔مجھے دیکھ کے نہیں بتاؤ گی کہ میں تمہیں کیسا لگ رہا ہوں؟ ”

شادی کی پہلی رات وہ خوابوں کی دنیا میں تھی۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ سارے معاملات اتنی آسانی سے حل ہوجائیں گے اور اس کی معیز سے شادی ہوجائے گی۔ شادی کی رات ایک چیز نے اس کے دل و دماغ پر گھر کر لیا۔ وہ تھی خوشبو۔۔۔۔ جو معیز استعمال کرتا تھا!وہ خوشبو جو معیز کے بدن کا حصہ تھی۔ اسے معیز کی خوشبو بننے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ وہ چند ہی ہفتوں میں اس کی عادی ہوگئی۔ معیز اس کی دنیا بن گیا وہ کئی بار سوچتی کہ خالق کے بعد معیز میرا مجازی خدا ہے۔ میرے اور خدا کے درمیان میں دنیا نہیں آ سکتی۔۔۔ لیکن میں حیران ہوں کہ میری دنیا 6 فٹ 2 انچ قامت کے سانچے میں کیسے سمٹ گئی! کیا کسی کی دنیا اتنی مختصر بھی ہوتی ہے!
اس خوشبو اور محبت کے ہنڈولے میں ابھی جھُول ہی رہی تھی کہ فکرِ معاش معیز کو گوریوں کے دیس لے گیا۔ شروع میں تو وہ اسی خوشبو کے سہارے جیتی رہی لیکن پھر معیز کے شب و روز زبان زد ِ  عام ہونے لگے۔ برطانوی شہریت کے حصول کیلئے اس نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری  خاتون  سے شادی کرلی۔ جلد ہی اللہ نے اسے صاحبِ اولاد کردیا اور وہ سسرال کے در پر نوکرانی بن گئی۔ جس کا نہ گھر بار نہ ہی اولاد۔۔۔۔ اسے کچھ عرصہ تو سسرال نے برداشت کیا پھر میکے بھیج دیا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ وہ کیا سوچتی ہے؟ اس کے کیا احساسات ہیں؟ وہ تو ایک بوجھ تھی ہر جگہ۔۔۔ چاہے سُسرال میں ہو یا ماں باپ کے گھر میں ۔ جسے سر چھپانے کیلئے چھت اور دو وقت کی روٹی درکار تھی۔ سو جو دیتا تھا اس کیلئے وہ زر خرید غلام تھی، اور وہ جتا بھی دیتا۔ ان سب لوگوں کے علاوہ معیز نے بھی اس کا خیال نہ کیا۔ سب اسے ہی مُوردِالزام ٹھہراتے کہ اس نے معیز کی لگامیں ڈھیلی رکھیں ۔
زندگی کے آٹھ سال سرگوشیاں کرتے رخصت ہوگئے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے اس نے ایک سکول میں نوکری کرلی تھی جہاں اس کا دل بھی لگ جاتا اور مناسب آمدنی بھی ہونے لگی وہ کسی کی محتاج بھی نہ رہی۔ رفتہ رفتہ وہ یہ بھولنے کی کوشش میں لگی رہتی کہ وہ عورت ہے جذبات رکھتی ہے، چاہ رکھتی ہے۔۔۔۔جذبات کے غبار کا کرب اس وقت اپنے جوبن پر آتا جب وہ خوشبو اسے محسوس ہوتی۔

رات کے بارہ بجے سے کچھ منٹ اوپر وقت ہوچلا تھا، پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ اسے نیند نہیں آتی تھی۔ سردی کے موسم میں یخ بستہ کمرے میں نرم گداز   جسم کے ساتھ ٹھنڈے بستر پر سونا ازحد اذیت ناک مرحلہ ہے۔ یہ اذیت صرف وہی محسوس کرسکتا ہے جو یا تو ڈھلتی جوانی میں کنوارہ ہو یا پھر عوائل عمر کے بعد سے اپنے ہمسفر کی واپسی کے کسی معجزے کے انتظار میں ہو۔ سوچتے سوچتے گھنٹہ دو بعد اس کی آنکھ لگ ہی جاتی تھی۔ فجر کی اذان کے بعد بیدار ہوتے ہی نماز سے فراغت پاتی، والدین کا ناشتہ بناتی اور کام پہ جانے کی تیاری شروع کردیتی۔ وہ گھر سے سکول کے ٹائم کے مطابق نکلتی تھی۔ سکول اس کے لیے  جائے پناہ تھا، جہاں وہ اپنی زندگی کی کمیاں، کمزوریاں، کوتاہیاں اور پریشانیاں بھول جاتی تھی۔ معصوم بچوں کے چہروں پر فرشتوں کی سی معصوم مسکان اس کی زندگی کی  تھکن اتار دیتی تھی۔ وہ اپنے طالب علموں میں خاصی مقبول تھی۔۔۔ بچوں کی عمروں اور ڈیل ڈول دیکھتے ہوئے اندازے لگاتی کہ اگر آج اس کی اپنی اولاد ہوتی تو اتنی بڑی ہوتی۔ لیکن شاید کچھ معاملات اللہ پاک نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔

وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ دھیرے دھیرے وہ معیز کو کسی حد تک بھولنے میں کامیاب ہورہی تھی۔ والدین یہ چاہ رہے تھے کہ اس کی خلع کروالی جائے۔ معیز نے تو وہاں شادی رچا لی ۔ اگر انہیں کچھ ہوگیا تو یہ کہاں جائے گی؟ ماں موقع ملتے ہی سمجھانے کی کوشش کرتی “دیکھو فرح۔۔۔۔ زندگی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ ابھی تمہارا کچھ نہیں بگڑا۔ ہم نہ رہے تو کیا بنے گا تیرا ابھی بھی وقت ہے اپنے لئے سوچ لے۔” ہر بار کی طرح اس نے ماں کو ٹال دیا۔ وہ کچھ کچھ نیند میں تھی کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی، وٹس ایپ پر میسیج تھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ آدھی رات کو اسے کون میسیج کرے گا۔ یہ چیک کرنے کیلئے کہ کس کا ٹیکسٹ ہے  اس نے  ادھ  کھلی آنکھوں سے موبائل آن کرکے میسیج دیکھا۔ ایک انجان نمبر سے مشہور شاعر کی ایک نظم تھی۔ اس کا دل ایک لمحہ کیلئے دھڑکا لیکن اگلے ہی لمحہ اس نے موبائل اس سوچ کے ساتھ رکھ دیا کہ کسی نے غلطی سے بھیج دیا ہوگا۔

چند لمحوں بعد بیل پھر بجی، اسے یقین ہوگیا کہ یہ کوئی خواہ مخواہ میں پیچھے پڑنے کی کوشش میں ہے۔ اس نے یہی سوچ کر میسیج دیکھے بغیر فون کی بیل بند کردی اور بوجھل دل کے ساتھ سونے کی پھر سے کوشش کرنے لگی۔

صبح موبائل الارم بند کرکے اس نے میسیج دیکھا تو کچھ شاعری سی تھی اس نے کوئی رپلائی کیے بغیر اپنے  روز مرہ کے کام نمتائے، سکول سے جونہی  واپس آئی تو گھر میں داخل ہوتے ہی اس کا فون مسلسل بجنے لگا۔ یااللہ اتنے نوٹیفیکیشنز۔۔۔۔ کدھر سے آگئے۔ اسے کچھ عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔ اپنے کمرے میں آکر اس نے بےدلی سے موبائل کے میسیج دیکھنے شروع کئے۔ جس میں کچھ عشقیہ شاعری تھی اور بتایا گیا تھا کہ پچھلے ہفتے کے تقریری مقابلے میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ وہ حیران رہ گئی کہ یہ کوئی جاننے والا ہے۔ اس نے نمبر سیو کرکے دیکھا تو پتا چلا کہ وہ علی تھا جو ان کے سکول کے بوائز کیمپس میں لائبریرین تھا۔ اسے علی کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں پتا تھا اور نہ ہی وہ کچھ معلومات چاہتی تھی۔ اور ایسے تعلق کو بڑھانے کا کیا فائدہ ۔۔۔۔ یہ سوچ کر اس نے میسیجز کو ڈیلیٹ کرنا ہی بہتر سمجھا ۔ زندگی کتنی عجیب ہے کہ ایسے حالات میں جب انسان ایک ساتھی کی ضرورت محسوس بھی کرتا ہو تب بھی کندھے جھٹک کر اس خیال کو دل سے نکالنے کی کوشش کرے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی وہ اسے دن میں کئی میسیجز بھیجتا رہا۔ اور ہمیشہ کی طرح وہ اسے اگنور کرتی رہی۔ یہ سلسلہ لگ بھگ کوئی دس گیارہ مہینے سے چل رہا تھا۔ ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے میسیج کا رپلائی کر ہی دیا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟
میسیج بھیجنے کی دیر تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی رات کے سوا گیارہ بج رہے تھے۔ کسی کو معلوم ہوا تو کوئی کیا سوچے گا؟ گھنٹی مسلسل بجے جارہی تھی اس نے پہلے تو اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا پھر فون اٹھالیا ۔ “شکر ہے آپ نے فون تو اٹھایا۔۔۔۔ مجھے تو لگ رہا تھا کہ آپ فون نہیں اٹھائیں گی پہلے کی طرح “۔ وہ خاموش رہی کہ کیا بولے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ اس طرح بولی کہ گویا اس کی آواز کسی خالی کنویں میں سے آرہی ہو۔ “آپ مجھ سے وقت بےوقت رابطہ کیوں کرنا چاہتے ہیں”؟
“ایک مرد عورت سے رابطہ کیوں کرنا چاہتا ہے۔” علی کے اس طرح کے براہِ راست جواب کی اسے توقع نہیں تھی اور یوں  بھی ہمارے ہاں مڈل کلاس نوے فیصد خواتین چاہے کچھ بھی کریں اس طرح کے جواب سننے کی عادی نہیں ہیں۔ وہ پھر سے گویا ہوا “دراصل میں آپ کو اتنے سالوں سے دیکھ رہا ہوں مجھے آپ اچھی لگتی ہیں میں پچھلے کئی مہینوں سے آپ کی محبت میں گرفتار ہوں لیکن کچھ کہنے کی ہمت کررہا ہوں۔” وہ تو ششدر رہ گئی کہ اس نے ہمت کیسے کی یہ سب کہنے کی۔ اس کا دل آیا کہ کھری کھری سنائے، لیکن  ذرا خاموش ہوگئی کہ کہیں کوئی سُن نہ لے۔ خیر اس نے کسی نہ کسی طرح فون بند کیا۔۔۔ لیکن کوئی چالیس منٹ بعد پھر فون پر گھنٹی بجی تو اسی کا فون تھا۔ اس نے دانستہ طور پر کال کاٹ دی۔ اور مطمئن ہوگئی کہ یہی طریقہ کارگر ہے شاید اسی طرح وہ فون کرنا بند کردے۔
لیکن سلسلہ یہیں نہیں رُکا۔ دن میں تقریباً، دس پندرہ بار اس نے کال کی جو اس نے نہیں اٹھائی لیکن ساتھ میں میسیجز کا ایک جمِ غفیر تھا جو تھم نہیں رہا تھا۔ بہت محبت اور اپنائیت کے ساتھ بات کرنے کی درخواست کرتا رہا۔ کئی خوبصورت جملوں پر وہ پگھلنے لگتی لیکن پھر معاشرتی روایات آڑے آنے لگتیں  اور وہ سر جھٹک کر میسیج   ڈیلیٹ کردیتی۔ کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا دل میں خیال آیا کہ نمبر بلاک کردیا جائے لیکن محبت بھرے الفاظ اسے تازہ دم رکھنے کیلئے کافی تھے اس لئے بلاک کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔

چند دن تو سلسلہ ایسے ہی چلا لیکن وہ اپنے آپ کو نہ جانے کیوں روک نہیں پائی۔ اس کے میسیجز کے خمار میں   ڈوبتی چلی گئی۔ اس کا دل بارہا چاہتا کہ علی سے چیٹ کرنا شروع کردے لیکن ذہن میں خاندانی روایات آجاتیں اور اس  خیال کی نفی کردیتیں۔ کچھ ہفتے اور گزرے اور محبت بھرے پیغامات سے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ کان محبت کی چاشنی سے پُر گفتگو کو ترس چکے تھے۔محبت کی بے اعتنائی اور بےقدری دوسرے کو کتنا حقیر کردیتی ہے۔ لیکن یہ محبت ہی ہے کہ بے قدری اور بے اعتنائی کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑتی۔ انسان ہی انسان کا متبادل ہے۔۔۔۔ایک شخص کی محبت کا زخم  دوسرے شخص کی محبت بھر دیتی ہے۔ اور یوں بھی اس نے علی کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو وہ اسے اچھا لگنے لگا۔ محبت کو ترسی ہوئی فرح نے فیصلہ کیا کہ وہ اور کچھ نہیں علی سے بات ہی کرلیا کرے تاکہ اس کے دل کی تنہائی کسی حد تو دور ہو۔  سو اس نے کانپتے ہاتھوں سے علی کا نمبر ڈائل کیا۔

دوسری ہی بیل پر علی کی خوشی سے لبریز آواز سنائی دی “زہے نصیب! آج آپ نے مجھے سعادت بخش ہی دی۔” شروع کی روایتی علیک سلیک کے بعد مطلب کی گفتگو شروع ہوگئی۔ بات سے بات نکلی اور کب ٹوں ٹوں ہوئی اور لائن کٹ گئی۔۔۔۔ ایک گھنٹہ کیسے گزرا پتا بھی نہ چلا۔ وہ کچھ حیران اور کسی حد تک پریشان تھی۔ اتنے میں موبائل کی بیل پھر سے بجی ۔۔۔ یہ علی کی کال تھی۔ بنا کسی توقف کے اس نے فون اٹھا لیا اور گفتگو کا جو سلسلہ ٹوٹا تھا وہ پھر سے جاری ہوگیا۔ علی نے اپنی بیقراری کی داستانیں سنانی  شروع کردیں۔ لگ بھگ کوئی پینتیس منٹ کے بعد اس نے فون بند  بند کردیا۔ ایک گھنٹہ پینتیس منٹ کی کال۔۔۔ وہ بہت حیران تھی کہ علی کے پاس اس کیلئے اتنا وقت تھا۔ اور وہ شخص جس کے وہ نکاح میں تھی اس نے فون کرنا تو درکنار کبھی رابطہ تک نہ رکھا۔ اور یوں بھی جب کوئی شخص کسی کو چھوڑتا ہے تو اس کی خالی جگہ پُر کرنے کوئی دوسرا آجاتا ہے۔ ایک انسان کی محبت ہی دوسرے کی ادھوری محبت کی جگہ لیتی ہے۔

اب ان دونوں کو بات کرتے ہوئے چند دن ہوگئے تھے۔ زندگی پھر سے خوبصورت لگنے لگی اور ایک بار پھر سے وہ اپنے گھر کے خواب دیکھنے لگی۔ روز بات کرنے اور کئی گھنٹوں کی میسیج   چیٹنگ سے اس کے دل میں محبت کا الاؤ بھڑکنے لگا۔ وہ دل سے چاہنے لگی کہ اسے علی سے ملنا چاہیے  تاکہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ لے سکے۔ ایک دن اچانک علی نے اس سے ملنے کا مطالبہ کردیا اور اسے لگا کہ جیسے اس کے خوابوں کو تعبیر ملنے والی ہو۔ کچھ ہی دن کی پلاننگ کے بعد وہ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ وہ کچھ نروس تھی کہ جو کام پہلے کبھی نہیں کیا وہ آج اس سے سرزد ہوگیا لیکن پھر بھی مطمئن تھی اور اس انتظار میں تھی کہ کب علی اس کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عندیہ دیتا ہے۔ وہ ایک نارمل ڈیٹ تھی اچھی گپ شپ لگی اور وہ واپسی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

عورتیں بھی بہت عجیب ہوتی ہیں جب وہ کسی مرد کو اپنا مان لیتی ہیں تو ایک گھر کے خواب دیکھنے لگتی ہیں۔ وہ شخص مانے نہ مانے لیکن وہ شخص ان کی زندگی کے سنگھاسن پر مجازی خدا بن بیٹھتا ہے۔ اور یہی فرح کے ساتھ ہوا۔۔۔۔ معیز زندگی کے میلے میں کہیں آگے نکل گیا تھا تو اس نے علی کے ساتھ گھر کی بنیاد رکھنے کا سوچا اور خلع کیلئے درخواست دے دی۔ علی کے ساتھ ملنا جلنا بڑھتا ہی جارہا تھا۔ دونوں گھنٹوں مستقبل کی پلاننگ کرتے لیکن ابھی تک علی نے واضح طور پر شادی کا نہیں کہا تھا۔ ایک دن ملاقات کے دوران اس نے خود علی سے کہہ دیا ” علی! ہم شادی کب کررہے ہیں؟ ” اور وہ اس غیر متوقع سوا ل کیلئے تیار نہ تھا۔ “یار کرلیں گے۔۔۔۔ اتنی جلدی کیا ہے۔ تمہیں کیا پتا میں تمہارے بارے میں کتنا سوچتا ہوں۔ میں کچھ اور سوچ رہا ہوں کہ ہم اکثر ریسٹورنٹ پر ملتے ہیں کیوں نہ ہم کسی ہوٹل میں ملیں کمرے میں جہاں ہمیں دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔ ہم جی بھر کر باتیں کریں۔” فرح کچھ چپ سی ہوگئی کہ ہوٹل کے کمرے میں کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرچہ  ہوٹل کے کمرے میں ملنے میں قباحت تو ہے لیکن مجھے علی سے محبت ہے۔ نہیں میں کچھ غلط نہیں سوچ رہی علی مجھ سے محبت کرتا ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یہی سوچ کر وہ راستے میں خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ رات گئے علی کا فون آیا تو اس سے قبل وہ یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ علی کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ اپنے گھر والوں کو رشتے کیلئے بھیجے۔ علی نے اس کی بات غور سے سنی اور ہاں کردی۔ ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ ویک اینڈ پر ملو۔ اس کا رواں رواں خوشی سے ناچنے لگا۔ لیکن ان سب باتوں کے ساتھ کچھ خدشات بھی تھے۔
فرح کے خدشات کسی حد تک درست تھے۔ زندگی میں ایک بار اس نے دل کے ہاتھوں چوٹ کھائی تھی۔ کیا عورت کو خود مختار ہونے کا کوئی حق نہیں؟ اگر اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا ہے تو اس کا کیا قصور؟وہ باقی دنیا کیلئے مالِ غنیمت تھوڑی ہے۔ اسے بھی ایک نئی اور باعزت زندگی گزارنے کا حق ہے۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ اللہ پاک اس کیلئے بند دروازے کھولے گا۔ مقررہ وقت پر وہ علی سے ملنے گئی تو اس نے کچھ اور طرح کی ڈیمانڈ ہی سامنے رکھ دی۔ وہ اس سے ہوٹل کے کمرے میں ملے گی لیکن ہونے والی بیوی کے طور پر نہیں بلکہ اسے بیوی کے طور پر ٹریٹ کرے۔ وہ کچھ پریشان ہوگئی ۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ علی اتنی گھٹیا بات سوچ سکتا ہے۔ وہ چائے کا کپ سامنے رکھ کے خاموش بیٹھی رہی اور اس کے دماغ میں سینکڑوں باتیں اور خدشات منڈلانے لگے۔ آخر وہ بول ہی پڑی ” علی! اگرچہ   میں آپ سے دوسری شادی کے بارے میں سوچ رہی ہوں لیکن آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میری کوئی عزت ہے۔ میں آپ کیلئے ہی ہوں شادی کے بعد میرے جسم و جاں پر آپ کا حق ہوگا۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ مجھے نہیں پتا کہ تم کسی اور تک پہنچنے کیلئے مجھے سیڑھی بنا کر استعمال کررہے ہو۔ میری محبت نئی نئی ہی صحیح ۔۔۔۔ لیکن میں میچور ہوں۔ تمہیں شاید لگتا ہے کہ میں تمہاری چکنی چپڑی اور محبت کے شیرے میں لتھڑی باتوں میں آجاؤں گی۔ ہاں میں آگئی۔۔۔ تمہاری اس so called محبت کے فریب میں آگئی۔۔۔۔ دل سے ایک آواز آئی کہ دیکھو تمہیں بھی نئی زندگی شروع کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ کیسی نئی زندگی ہے جو بستر سے آگے جاتی ہی نہیں۔ میں تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہوں علی۔۔۔۔۔ تمہارے ساتھ بوڑھا ہونا چاہتی ہوں۔ لیکن تم مجھے استعمال کرکے اپنی اگلی راہ تک پہنچنا چاہتے ہو۔ تو مجھے یہ حق ہے کہ میں اپنی عزت کے دفاع کیلئے اپنی لاچار محبت کا گلا گھونٹ دوں”۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پارسائی کا کفارہ۔۔۔قراۃ العین حیدر

  1. بہت بہترین انداز سے معاشرے کی ایک تلخ سچائی کو لفظوں میں سمیٹا ۔قرت لکھتی رہو اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Leave a Reply