ببلی / بابر۔۔۔۔۔قربِ عباس

لکڑی کے فریم میں بڑا آئینہ لگا ہوا تھا، جس میں نیچے سے اوپر تک ایک لمبی دراڑ تھی جو کہ اُس کے عکس کو دو حصوں میں بانٹ رہی تھی۔ آنکھوں کا کاجل جو نمکین پانی کے سا تھ بہہ کر رخساروں پر کچھ کالی اور ٹیڑھی لکیریں چھوڑ گیا تھا، جب سُرخ ہونٹوں پر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی رگڑی تو وہ لکیریں مٹ تو گئیں مگر سرخی پھیل گئی۔ لمبی لمبی پلکیں اتار کر چھوٹی سی ڈبیا میں رکھی اور گھنے کالے بالوں کو بھی سر سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ وہ ببلی سے بابر بن چُکا تھا۔

کچھ دیر اِسی ٹوٹے آئینے میں اپنی پیشانی سے لے کر ناف تک دو حصوں میں بٹے عکس کو دیکھتا رہا اور پھر قمیض اتار کر پیٹھ دیکھی جس پر لاٹھیوں کے نشان واضح تھے۔

وہ کچھ گھنٹے پہلے ایک شادی سے لوٹا تھا، جس پر جانے کے لیے تیار ہوتے ہوئے اُسے اپنی ضرورتوں کے سمندر میں قطرہ شامل ہونے کی اُمید تھی، یہ اُمید ہر شادی سے پہلے جنم لیتی تھی۔ حالانکہ اُسے معلوم تھا کہ گرمی کی پوری رات ریشمی لباس پہن کر بغیر سا نس لیے ناچنا پڑے گا، لوگوں کی رنگ برنگی باتیں سننا پڑیں گی، ہر طرح کی چھیڑ خانی کا بھی ہنس کر جواب دینا ہو گا، مگر بدلے میں جو پیسے ملیں گے اُن کے سامنے اِن عذابوں کی کیا اوقات تھی ؟ لیکن ایسا ہوا کہاں۔

شادی کی محفل عروج پر تھی وہ ناچتا چلا جا رہا تھا، تمام لونڈوں نے شراب پی کر آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا، جب حد پار ہوئی تو خاندان کے کچھ بزرگ آ کر انہیں گالیاں بکنے لگے ، ایک نے تو آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ببلی پر لاٹھی لے کر برس پڑا، پیسے تو کیا ملنے تھے بمشکل جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ بس گھر پہنچ کر تب سے اِس ٹوٹے آئینے کے سامنے بیٹھا اپنے خوابوں کی کرچیاں چُن رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے زخموں کو سہلانے کی کوشش میں تھا۔

اب بھلا شادیاں اُسکی ساری ضرورتیں کیسے پورا کر دیتیں؟
ضرورتیں تھیں بھی تو بہت زیادہ۔ ماں کے گلے کا کینسر تو خیر اب اپنی موجودگی بھی بھول چکا تھا، سو بابر کو بھی اب اُسکی اتنی فکرنہ رہی۔ مگر سب سے زیادہ اُسے اپنی بہن کا جہیز(چار کُرسیاں ایک میز) پریشان کر رہا تھا جو پڑا پڑا دو مسہریوں کے انتظار میں دیمک زدہ ہو چکا تھا، اور وہ دو مسہریاں ابھی تک رشتے کے انتظار میں بنی ہی نہیں تھیں۔ ہاں! ایک اور بھی فکر تھی، روز کی روٹی۔

آنسو بدستور ٹپک رہے تھے، پھر اس نے ہا تھ بڑھا کر آئینے کی ٹیڑھی سی دراڑ کو دو انگلیوں سے چُھوا، وہ دراڑ کبھی ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ آئینہ جڑ سکتا تھا، ہموار ہو سکتا تھا۔ مگر اس کے عکس کو دو حصّوں میں تقسیم نہ کرتا یہ کہاں ممکن تھا؟ اس دراڑ کو چُھوتے ہی اس کے ذہن میں لاڈو کے کہے الفاظ ابھرے: “ٹیڑھی لکیریں”

لاڈو اسکی گُرو تھی، ناچنا چھوڑ کر سگریٹ پان کا کھوکھا بنا لیا تھا۔ وہ خود کو قدرت کے کھینچی ٹیڑھی لکیر کا جزو کہتی تھی، نہ مرد نہ عورت! مگر دماغ تو بہت مکمل تھا۔ وہ کہتے ہیں ناں وقت بہت بڑا استاد ہے۔۔۔ صرف گھنگھرو پہن کر ناچتی نہیں رہی تھی بلکہ بہت کچھ سیکھتی سکھاتی بھی رہی۔

جب لاڈو پیدا ہوئی تھی تو ماں باپ نے کچھ سال تو اسے چھپا کر رکھا مگر پھر ایک دن کئی ٹیڑھی لکیریں گلیاں گردانتے ان کی دہلیز پر آکر واویلا کرنے لگیں۔ کیا ہو سکتا تھا، لاڈو کے لیے معاشرے نے جو جگہ مختص کر رکھی تھی اسے وہیں آنا پڑا۔ ماں باپ کی زندگی تک تو گھر آنے کی اجازت تھی، مگر ان کے بعد بھائیوں نے اپنے بچوں کے وقار کی خاطر اسے دھتکار دیا۔ اُسے اس گھر میں قدم رکھنے کے حق سے دستبردار کر دیا گیا جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی اور پھر کبھی اُس نے بھی وہاں کا رخ نہ کیا۔

ڈھلتی عمر میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹا سا سگریٹ پان کا کھوکھا بنا لیا۔ اکثر کہا کرتی تھی؛
“کیا بُرا تھا اگر وہ مجھے بھی مکمل کر دیتا؟ آنکھیں دیں، کان دیا ، ناک، منہ ہاتھ پیر۔۔۔ ٹانگیں! جہاں پوری دنیا کو دریا دلی سے جنس بانٹ ہی رہا تھا تو ہم جیسوں پر آکر کونسا کال پڑ گیا؟ مجھ میں کمی ہے، اس سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔ چلو ادھورا چھوڑ دیا کوئی بات نہیں۔ پر اپنی باقی مخلوق کو تو پورا بناتا، انھیں کم از کم مکمل سمجھ تو دے دیتا، اتنا جاننے کے قابل تو بنا دیتا کہ ہم بھی اس کے بنائے لوگ ہیں۔۔۔ دل اور دماغ رکھتے ہیں، جذبات ہم میں بھی پلتے ہیں۔ بارش ہمیں بھگوتے ہوئے بدکتی نہیں۔ ہَوا ہمیں بھی چھوئے بغیرنہیں گزرتی۔ تو پھر یہ خدا کا بنایا انسان، دوسرے انسان سےجینے تک کا حق کیوں چھین لیتا ہے؟ کیوں ہنستا ہے؟ کیوں مذاق اڑاتا ہے؟ کیوں گھورتا ہے؟

ہمیں شادیوں پر نچاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، خوش ہوتے ہیں، دعائیں بھی کرواتے ہیں۔۔۔ کچھ تو اپنی ہوس کی آگ بھی بجھاتے ہیں، عزت کرنا تو ایک طرف انسانوں کی گنتی میں بھی نہیں گنتے۔۔۔ اصل ہیجڑا پن تو یہ ہے۔۔۔ یہ ڈھیلے نالے (ازار بند) والی دنیاانسان کی شلوار میں جھانک کے ہی کیوں اُسے انسان ہونے کی سند دیتی ہے؟ قصور ہمارا تو نہیں، ہم تو قدرت کی کھینچی لکیر یں ہیں۔ ٹیڑھی لکیریں ہی سہی۔۔۔!”

لاڈو قدرت سے بھلے جتنا بھی لڑ لے، کوس لے، خود کو اسی کی کھینچی ٹیڑھی لکیر کہے مگر ۔۔۔ اس کے باوجود وہ پوری عمر کی کمائی میں سے حج کر آئی تھی۔ اکثر ہنس کر کہا کرتی تھی کہ میں نہیں جانتی کہ خدا مجھے یہاں سنتا تھا کہ نہیں، سوچا میں مقدمہ لے کر اس کے گھر ہی جاؤں، کہ خدایا اتنی کنجوسی۔۔۔؟

رمضان و مُحرم کے فاقوں، لوگوں کی بد اخلاق نظروں اور پھر غیرت مند بزرگوں کی بے رحم لاٹھیوں جیسی چیزوں کا سامنا کرکر کے بابر نے ببلی کو خیر باد کہہ دینا ہی مناسب سمجھا۔ یہ بات پہلی بار اُسکے ذہن میں نہیں آئی تھی، بلکہ کئی مہینوں سے اِس پر سوچ رہا تھا لیکن ہمت نہ پڑتی ۔ آج پھر جب لاڈو کی زندگی پر غور کیا تو اس کے خیالات کو اور تقویت ملی۔
وہ اپنے ما لک مکان کے پاس پہنچا دروازے پہ دستک دی۔
” کون؟”
“الیاس بابو میں ہوں۔۔۔ بابر۔۔۔ ذرا باہر آنا!”
الیاس باہر آیا “ہاں جی کیا بات ہے بھئی؟”
“آپ کو بتانے آیا ہوں کہ کمرہ چھوڑنے لگا ہوں” بابر نے ڈھیلی سی آواز کے ساتھ نظریں جھُکا کر کہا ۔
“کیوں؟ خریت تو ہے ناں؟ کہاں جا رہے ہو؟”
“آہو جی، بس اپنے گھر ، یہ کام چھوڑنے لگا ہوں”
“ہوا کیا ہے؟”
“کچھ نئیں جی، بس کچھ نئیں رکھا اس کم میں”
“اچھا۔۔۔ چلو مرضی تھہاڈی ، کوئی اور کرائے ہوتو بتانا”
“جی ٹھیک ہے”
“تھاڈی یاد بڑا ستاوے گی” الیاس نے مُسکراتے ہوئے بابر کی ناک اپنی شہادت کی انگلی سے چھوئی
بابر بھی ببلیانہ انداز میں شرماتے ہو ئے بولا؛
”الیاس جی تُسی وی نا۔۔۔ باز نہ آنڑاں۔۔۔”
“جانا کب ہے؟”
“بس کل ہی “

جس سائیکل پر اُسکا باپ سبزی بیچا کرتا تھا وہ چھ مہینے سے گھر کی دیوار کے سہارے پنکچر ٹائر لیے کھڑا تھا اور باپ سائیکل کے پنکچر ہونے سے ڈیڑھ مہینہ پہلے جہاںِ فانی سے کُوچ کر گیا تھا، اُس سائیکل کی مرمت کروانے کے بعد بابر نے سبزی منڈی جا کر کچھ سبزیاں خریدی اور سائیکل پر لاد کر بیچنے نکل پڑا۔ گلی کی نکڑ پر پہنچ کر آواز لگائی:
“آلو۔۔۔ ٹماٹر۔۔۔ مرچاں۔۔۔ اوہم اوہم۔۔۔ ”
آواز قدرے ہلکی تھی، قہقہہ سنائی دیا مڑ کر دیکھا تو گلی میں کھڑے کچھ لڑکے ہنس رہے تھے، اُن میں سے ایک بولا؛
“فیر بول۔۔۔ فیر بول۔۔۔”

اب بھلا بابر بننے کے فیصلے سے چال ڈھال یا ادائیں تو نہیں بدل جاتیں، بھلے وہ بابر بننے کی ٹھان چکا تھا مگر جو اُس وجود میں ‘ببلی’ رَچ بس چُکی تھی اُسکا جانا اتنا آسان تو نہ تھا۔

سائیکل پر سوار ہوا لڑکھڑاتے ہنڈل کو سنبھالتے ہوئے پوری قوت سے پیڈل مارنے لگا۔ غصہ اور شرم پانی بن کر اُس کے ماتھے سے ٹپک رہا تھا۔ سوچا محلے سے کہیں دور جایا جائے۔ قدیمی محلے میں پہنچ کر سائیکل سے اترا، اِدھر اُدھر دیکھ کر آواز لگائی ابھی آدھی گلی ہی پار کی تھی کہ ایک عورت آئی؛
“ٹماٹر کس طرح لگائے ہیں؟”
“جی باجی صرف سٹھ روپے کلو”

عورت نے انداز دیکھا تو مُسکرا کر ڈوپٹے سے آدھا چہرہ ڈہانپ لیا؛
” پچاس کے لگا لو اور ایک کلو دے دو”

اُس نے ٹماٹر تولنا شروع کر دیے، عورت دوبارہ بولی؛
” تم شادیوں پر بھی ناچتے ہو ناں؟”

بابر کے ہاتھ رک گئے۔ تھوڑی دیر عورت کی طرف دیکھا اور پھر ٹماٹر شاپنگ بیگ میں ڈالتے ہو ئے بولا؛
” جی باجی ۔۔۔ اب چھوڑ دیا ہے”

“مجھے یاد ہے تم میرے دیور کی شادی پر آئے تھے، لاہور والی بچیوں نے تمہارا ڈانس دیکھنے کے لیے تمہیں اندر بُلوایا تھا۔ اچھا کیا جو ناچنا چھوڑ دیا۔۔۔ محنت کر کے کماؤ۔”

بابر نے ٹماٹر دے کر پیسے لیے اور آگے چل پڑا؛
” ہونہہ۔۔۔ ہر کو ئی حاجی بنڑیا پھردا اے”

کچھ ہی گھنٹوں میں اُس نے بہت سی نگاہیں برداشت کیں اور بہت قہقہے سُنے۔ بہت جملے کسے گئے۔۔۔ اُسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اپنے پیشے سے زیادہ ایک پھیری والا بن کر ذلت سہہ رہا ہے، ہر دوسری گلی میں کوئی نہ کوئی ایسا مل جاتا جو ببلی سے واقف ہوتا، ایسے میں سبزی تو خاک بیچنا تھی بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔

سورج ڈھل رہا تھا مگر سوچوں کے انبار تلے دبی اُس کی آواز کا باہر آنا ممکن نہیں رہا تھا، کمر میں لاٹھیوں کا درد دوبالا ہو چکا تھا، ٹانگیں جواب دیتی جا رہی تھیں، قمیض چھاتی، کمر اور بغلوں کی جگہ سے پسینے کے سبب جسم کے ساتھ چپکی ہوئی تھی، اُسے اس باریک لباس میں ریشمی لباس سے زیادہ اکتاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ سائیکل کا ہینڈل تھامے پیدل چلتا جا رہا تھا، سمت کا نہیں پتہ، بس چلتا ہی جا رہا تھا۔
آواز آئی؛
“اوئے اوئے۔۔۔ ببلی بدماش توں شریف ہو گئی۔۔۔”

اور ساتھ ہی بہت سارے قہقہے۔ اُس نے مُڑ کر نہ دیکھا ، چُپ چاپ چلتا رہا۔ فقط ہونٹ بُڑبُڑائے؛
”کتے، حرامزادے”

پھر ایک اور آواز سُنائی دی؛
” اک کلو آلو دے جا تے نال دو ٹھمکے وکھا جا۔۔۔”
پھر وہی قہقہے، اُس نے اَن سُنی کر دی۔۔۔

اتنے میں ایک لڑکا سائیکل پر سوار پاس سے گزرا، بابر کی سائیکل کو لات مار کر آگے نکل گیا۔۔۔ سائیکل زمین پر گرتے ہی ساری سبزیاں یہاں وہاں بکھر گئیں۔ پہلے سبزیوں کی طرف دیکھا پھر اُن لفنگے لڑکوں کی طرف اور مخصوص زنانہ انداز میں بولا؛
“ذلیلو۔۔۔ کتو۔۔۔ شرم تے نئیں آندی۔۔۔”

قہقہوں کے حلقے میں گھرا وہ نیچے بیٹھ کر سبزیاں چُننے لگا، زمین اس کے وجود سے ٹپکتے نمکین پانی کو جذب کرتی رہی۔

۔۔۔۔

دروازے پر دستک ہوئی، اندر سے آواز آئی؛
” کونڑ۔۔۔؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

“الیاس بابو میں ہوں۔۔۔ ‘ببلی’۔۔۔ ذرا باہر آئیں۔۔۔ کمرہ کرائے کے لیے خالی ہے ناں؟
میں ۔۔۔ میں کل واپس آرہی ہوں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply