ذرا نم ہو تو۔۔۔۔۔۔

(ایک سچا واقعہ ہونے کے باعث کرداروں اور علاقوں کے نام فرضی ہیں )
پختونخوا کے ایک گاؤں میں اپریل کی اک چمکدار صبح وہ جلدی اٹھا ناشتہ کے بعد تیار ہوا اور سائیکل اٹھا کر باہر کی جانب لپکا، پیچھے سے اس کی ماں نے آواز دی جمال تیرے کاغذ تو ادھر ہی رہ گئے ہیں اس نے سائیکل دروازے میں ہی پھینکی اپنی رولنمبر سلپ ماں کے ہاتھوں سے پکڑی اور اسی سپیڈ میں واپس سائیکل اٹھا کر باہر نکل گیا، آج اس کا چوتھا پیپر تھا، لیٹ اس لیے ہورہا تھا کے شب بھر ایک عجیب سی کیفیت اور پریشانی کی سی حالت رہی، باپ بھی گھر پر نہیں تھا وہ چند دن پہلے ہی سوات گیا تھا، کام کے سلسلے میں اسی پریشانی میں ساری رات بے چین رہا اور بہت کم سو سکا، گھر سے نکلتے ہی وہ سائیکل پر سوار ہوا اور تیز تیز پیڈل مارتا ہوا امتحانی مرکز کی طرف چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام سے ہی دونوں بھائی سر جوڑے بیٹھے تھے، اور خاندانی مشترکہ زمین کے مسئلہ پر بات ہو رہی تھی جس پر ان کے والد کی وفات کے بعد ایک اور رشتے دار نے اپنا حصہ کے لیے عدالت میں کیس کر دیا تھا، چند دن پہلے ایک بہن بیوہ ہو کر واپس گھر آ بیٹھی تھی بوڑھی ماں خاوند کی وفات کے بعد بیمار رہنے لگی تھی ،دونوں بھائی اسی پریشانی میں حجرے میں سر جوڑے مسائل کے حل کے لیے بیٹھے تھے اور پھر رات گئے دونوں نا جانے کس بات پر متفق ہوئے، آرام سے اٹھے نسوار کی ایک ایک گولی منہ میں رکھی اور اطمینان سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اگلے دن منہ اندھیرے جیسے ہی ان کی بہن نے جانوروں کے باڑے کا دروازہ کھولا ایک فائر کی آواز کے ساتھ ہی ان کی بہن خون میں لت پت زمین پر گری تڑپ رہی تھی ۔۔۔اس آواز کے ساتھ دونوں بھائی حجرے سے بھاگے بھاگے آئے ،اس سے پہلے کے وہ بہن کو سنبھالتے اس نے ان کے ہاتھوں میں ہی دم توڑ دیا، چھوٹا بھائی فوراً پولیس چوکی کی جانب بھاگا، اور ساتھ ہی بتانے لگا ان کا اپنے کزن کے ساتھ زمین کا جھگڑا ہے اور انہیں شک ہے کہ انہوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور میری بہن قتل ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال تیز تیز پیڈل مارتا ہوا جا رہا تھا گھر سے کچھ فاصلے پر اس نے لوگوں کا رش دیکھا، ہونا تویہ چاہئے تھا کہ وہ جلدی سے وہاں سے نکل جاتا مگر تجسس کے مارے سائیکل روکی اور ایک آدمی سے پوچھا کیا ہوا، اس نے اس کو بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھا اور بولا، تمہیں نہیں معلوم گل کی بہن قتل ہو گئی ہے اور بقول اس کے تمہارے باپ نے اسے گولی ماری اور بھاگ گیا ہے، جمال فوراً غصے سے بولا ،کیا مسئلہ ہے؟ کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ وہ تو کئی دن ہو گئے سوات گیا ہوا ہے ۔اتنی دیر میں گل خان نے اسے دیکھ لیا اور شور مچانے لگا کہ یہ ہے جمال اس قاتل کا بیٹا، میں نے رات کو اسے گھر کی دیوار کے پاس پھرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ شامل تھا۔۔۔۔پولیس نے آؤ دیکھا نہ تا،ؤ جمال کو سائیکل سے اتارا اور گھسیٹ کر پولیس وین کی جانب لے جانے لگے، جمال نے رونا شروع کر دیا اور اونچی اونچی آواز میں بولنے لگا، میں تو پیپر دینے جا رہا ہوں، لیٹ ہو جاؤں گا، فیل ہو گیا تو میرا باپ اور دادا مجھے بہت ماریں گے لیکن پولیس والوں نے اسے اٹھایا اور فالتو سامان کی مانند وین میں پھینک دیا۔ چوکی پہنچ کر پولیس والوں نے پوچھ گچھ شروع کی ،لیکن میٹرک کا ایک طالبعلم جس کی مسیں بھی ابھی نہیں بھیگی تھیں اور جو اپنے امتحانات میں مصروف تھا کو کیا پتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، چند دن پولیس نے اسے حوالات میں رکھنے کے بعد اس کا کیس عدالت میں پیش کیا اور دوران سماعت اس کو جیل بھیجنے کے احکامات لے کر پولیس نے اپنے سر سے بھار اتار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال کے باپ کو جب اس ساری صورتحال کا علم ہوا تو اس نے واپس آنے کا پروگرام بنایا لیکن باپ اور بھائیوں کے منع کرنے پر رک گیا کیونکہ بیٹا جیل جا چکا تھا جو کہ اب ان لوگوں سے محفوظ تھا لیکن اگر وہ جیسے ہی واپس گاؤں آتا ا س کا قتل ہوجانا لازمی تھا، اسی وجہ سے وہ وہاں سے نکل کر وزیرستان اپنے ایک دوست کے پاس چلا گیا اور وہاں پر ٹریکٹر چلانے لگا۔ دوسری طرف مقتولہ کے بھائیوں نے جمال کے گھر پیغام پہنچایا کہ اگر وہ زمین کے مقدمے سے پیچھے ہٹ جائیں تو وہ اپنا مقدمہ واپس لے لیتے ہیں، مطلب صلح کر لیتے ہیں، لیکن جمال کے دادا نے صاف انکار کر دیا۔اسی دوران جمال کو سینٹرل جیل بھجوا دیا گیا۔پندرہ سولہ سالہ کچے ذہین کا بچہ انتہائی پختہ اور جرائم پیشہ لوگوں کے درمیان آ چکا تھا، ہونا تو ایسا ہی چاہئے تھا کہ وہ ان جرائم پیشہ لوگوں کا آلہ کار بن جاتا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ۔۔۔جیسے ہی جیلر نے ایک معصوم سے لڑکے کو دیکھا اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ قتل کے مقدمے میں جیل بھیجا گیا ہے تو اس نے اسے فوراً ایک ایسی بیرک میں بھجوا دیا جس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں تھا جو کہ بچوں کے معاملے میں انتہائی شفیق اور محبت کرنے والا تھا، جس نے اس کو اپنی پناہ میں لے لیا، جس کی وجہ سے وہ ہر طرح کی بد اخلاقی اور دوسری خرافات سے بچ گیا، لیکن اب بھی اس کے چاروں طرف کا ماحول اچھا نہ تھا، جس کا حل جیلر نے یہ نکالا کہ اس نے اسے قیدیوں کی مانیٹرنگ اور پڑھا لکھا ہونے کے باعث قیدیوں کو پڑھانے کی ڈیوٹی پر لگا دیا، اسی دوران اس کا مقدمہ چلتا رہا ،وہ پیشیوں پر جاتا اور جیل میں سرخ ٹوپی پہنے، کمر پر بیلٹ لگائے ،ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے پھرتا رہتا اور قیدیوں کو آٹھویں جماعت تک کی تعلیم دیتا۔ اسی طرح 6 ماہ گزر گئے اور مختلف پیشیوں پر مدعی پارٹی کا وکیل خاطر خواہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا، جس کے باعث اسے رہائی ملی، جیسے ہی وہ جیل سے رہا ہوا اس کی ماں نے اسے گھر اور گاؤں میں رکھنا مناسب نہ سمجھا اور ایک رشتے دار کے توسط سے اسلام آباد میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں چوکیدار کے طور پر بھجوا دیا۔
ایسا بچہ جو زندگی میں ایک بار ہی گاؤں سے باہر نکلا تھا وہ بھی اپنے سکول کے ایک تفریحی دورے پر جب وہ اکیلا اسلام آباد پہنچا تو گویا وہ کسی اور ہی دنیا میں آ چکا تھا، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا ،پہناوا الغرض ہر چیز مختلف تھی سارا سارا دن وہ سائیٹ پر مزدوروں کے ساتھ رہتا اور شام کو کام بند ہونے کے بعد ان کا حساب کتاب کرتا ،سامان تمبو میں رکھتا اور کھانا کھا کر سو جاتا، ایک دن کمپنی کا مالک سائیٹ پر آیا تو ایک نوجوان لڑکا، بجری کے ڈھیر پر بیٹھا اخبار کا ایک ٹکڑا پڑھ رہا تھا، وہ اسے دفتر لے آیا۔ا ور آفس بوائے کی نوکری دے دی ، وہ سارا دن کام کرتا اور رات کو دفتر میں ہی چوکیداری کے فرائض سر انجام دیتا ۔یہاں ہی رہ کر اس کو پڑھنے کا موقع ملا اور ان نے اپنی تعلیم جو جیل جانے کے باعث رک گئی تھی مکمل کرنے کی ٹھانی اور سب سے چھپ چھپا کر دوبارہ پڑھائی شروع کر دی، اس بات کا سوائے کمپنی مالک کے کسی کو معلوم نہ تھا، میٹرک کے پیپر دیے اور پاس ہو گیا اور اسی طرح چھپ چھپ کر ایف اے کی تیاری کرنے لگا لیکن اس میں اسے انگلش کے مضمون نے کافی تنگ کیا۔ اسی طرح دو سال گز گئے اس کا باپ بھی واپس آ چکا تھا اور وہ بھی ہر ماہ اپنے گھر والوں کو اتنا خرچہ دے آتا تھا کہ ان کی گزر بسر ٹھیک ہونے لگی، چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچہ اس کے سر تھا سو اس میں کوئی کوتاہی نہ آنے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال کی کمپنی میں ایک نیا منیجر آیا، اور آتے ہی سب کے ساتھ گھل مل گیا لیکن جمال اپنی شرمیلی طبعیت کے باعث اس سے دور دور ہی رہتا تھا ما سوائے کام کے اور کوئی بات نہ کرتا، ایک دن منیجر دوپہر کے وقت سائیٹ سے واپس آیا اس وقت دوپہر کے کھانے کا وقت تھا اور دفتر میں کوئی بھی نہ تھا، جمال اپنی کرسی پر بیٹھا اپنے کورس کی کتاب پڑھ رہا تھا جیسے ہی منیجر اندا داخل ہوا، وہ گھبرا کے کھڑا ہوا تو کتاب نیچے گر گئی اس نے کتاب اٹھا لی اور اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوے بولا، جمال پانی تو پلاؤ جب جمال کمرے میں داخل ہوا تو منیجر کتاب میز پر رکھے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے کتاب کا سرورق دیکھ رہا تھا، جو کہ ایف اے کی انگلش کی گائیڈ بک تھی۔ منیجر نے پانی پیا، سیگریٹ سلگایا اور ایک گہرا کش لیتے ہوے جمال کی جانب دیکھا جو اضطراب کی حالت میں ادھر اُدھر دیکھ اور اپنی انگلیاں مروڑ رہا تھا۔ منیجر خاموشی سے بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور جمال کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔ جمال کافی دیر اسی طرح رہا اور پھر کرسی پر ایک دم بیٹھتے ہوئے بولا، سر کسی کو مت بتانا میں ایف اے کی تیاری کر رہا ہوں لیکن انگلش میرے لیے کافی مسئلہ کر رہی ہے۔ اسی شام جمال اپنا سامان اٹھائے منیجر کے فلیٹ میں تھا جو کہ کمپنی نے اسے رہائش کے لیے دیا ہوا تھا، جمال دن بھر دفتر میں کام کرتا اور شام کو منیجر کا کھانا بنا کر پڑھائی کرتا۔ پیپر دیے اور جس دن رزلٹ آیا اس نے سب سے پہلے منیجر کو بتایا کہ وہ ایف اے میں پاس ہو گیا ہے۔
ایک ایسا لڑکا جو قتل کے مقدمے میں نامزد تھا اور چھ ماہ جیل بھی کاٹ چکا تھا تین سال کے بعد ایف اے کر گیا۔ اس کے کلاس فیلوز اور ہم عصر لڑکے جو باقاعدہ سکول کالج جاتے رہے کوئی بھی ایف اے کلئیر نہ کر سکا تھا۔ اس کے بعد منیجر نے اسے دفتری کاموں میں شامل کرنا شروع کر دیا جو لڑکا پہلے صرف فائلیں پکڑایا کرتا تھا اب اس نے فائلوں کا کام شروع کر دیا، کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم بھی ادھر سے ہی لینے لگا اور جلد ہی کمپیوٹر پر کام کرنا بھی شروع کر دیا۔ نقشہ پڑھنا، تخمینہ لگانا، بل بنانا اور بلڈنگ کی پیمائش کے ساتھ ساتھ بی اے کی تیاری بھی جاری رہی۔ اور ایک دن وہ بھی آیا جب اس نے بی اے بھی کر لیا۔5 سال کے بعد منیجر نے وہ کمپنی چھوڑ دی، کسی اور کمپنی میں چلا گیا لیکن جمال وہیں پر رہا اور اب وہ اس دفتر کا کرتا دھرتا تھا، بینک اکاؤنٹس اور تمام لیں دین اسی کے ذمہ تھا۔ اسی دوران اس کے گھر والوں کو پیسوں کی اشد ضرورت پڑ گئی اور جمال نے نوکری چھوڑ کر مردان شہر میں کاروبار کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نا ہو سکا ،ریال کمانے کے لئے سعودی عرب نکل پڑا، اس دوران اس کا اپنے منیجر سے رابطہ بحال رہا، ساڑھے تین سال کا عرصہ جو جمال نے ملک سے باہر گزارا اس میں پہلے ہی سال رب نے اسے اپنے گھر کی زیارت کے لئے بلا لیا اور اس نے حج کر لیا، کچا مکان پکا ہونا شروع ہو گیا، باپ نے پرانا ٹریکٹر بیچ کر نیا ٹریکٹر خرید لیا بہن کی شادی ہو گئی دوسرے دو بھائی اور سب سے چھوٹی بہن باقاعدگی سے سکول جاتے اور تعلیم مکمل کرتے رہے۔جمال خود تو سول انجینئر نہ تھا لیکن اپنے سے چھوٹے بھائی کو سول انجنیئرنگ کا ڈپلومہ کروایا۔اسی دوران اس کے والدین نے اس کی غیر حاضری میں گاؤں میں ہی اس کی منگنی کر دی،ساڑھے تین سال کی محنت اور پردیس کاٹنے کے بعد جب وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر پاکستان واپس آیا یہ سوچ کر کہ شاید اب اس کی زندگی کچھ آسان ہو جائے گی اور شادی کے بعد وہ کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے زندگی گزار ے گا، لیکن اس کے سسرال نے کم از کم دوسال شادی لیٹ کر دی اور آج کل جمال اسلام آباد میں اسی کمپنی میں منیجر کی پوسٹ پر کام کر رہا ہے جہاں ایک وقت میں وہ چوکیدار اور آفس بوائے کے طور پر کام کرتا تھا!!!

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply