بانو قدسیہ اور قراۃ العین حیدر- قصہ معتوب و محبوب/راجہ شہزاد

راقم نے بانو قدسیہ اور قراۃ العین حیدر کی تقریباً ہر شائع شدہ تحریر پڑھی اور بعض کئی بار پڑھی ہیں ( قراۃ العین کی غیر مطبوعہ بھی اور انکے جرنلزم کے مضامین بھی)۔ یہ مختصر مضمون ایک بہت بڑے مضمون کا خلاصہ ہے جو راقم نے بہت محبت سے لکھا ہے۔ حسب سابق میں اپنے لئے ہی لکھتا ہوں لیکن کچھ دوست ایسے ہیں جو میرے لکھے کو پڑھتے ہیں اور یوں وہ اس “ اپنے” کا حصہ بن جاتے ہیں۔ امید ہے میری رائے انہیں گراں نہیں گزرے گی۔

ذاتی طور پر مجھے بانو قدسیہ پر ایک بہت بڑے ادبی اور علمی طبقے کی تنقید سے اتفاق نہیں رہا۔البتہ ہمیشہ حیرت رہی کہ جس بات کو وجہ بنا کر ان کی ناقدری کی گئی اور کی جا رہی ہے وہ بات اتم طریقے سے قراۃ  العین حیدر کی گردش رنگ و  چمن سے شروع ہونے والی تحریروں کا ماخذ ہے ،تو دکھ ہوتا ہے۔ میری بانو قدسیہ سے نہ کبھی ذاتی ملاقات ہوئی نہ کوئی ذاتی رابطہ رہا البتہ قراۃ  العین حیدر سے کئی حوالوں سے بلواسطہ اور ایک آدھ بار براہ راست ربط ہوا ( ایک بہت عزیز دوست انکے ساتھ بمبئی میں عرصہ تک قیام پذیر بھی رہیں)۔
تو بات یہ ہے کہ دونوں نے تصوف اور پیری مریدی کو ذاتی اور پھر تحریر کی صورت اپنے اپنے انداز میں فروغ دیا۔ بانو قدسیہ اور گروہ قدرت اللہ شہاب کی مریدی میں تھے اور قراۃ العین حیدر عارف میاں کی سقہ بند مرید تھیں( عارف میاں کو ان سے بٹو باجی والدہ افتخار عارف نے متعارف کروایا تھا۔۔ بقول قراۃ  العین افتخار عارف کا نام بھی عارف میاں کے نام کی مناسبت سے ہے۔ بہت تفصیلی بات ہے جو مضمون طویل میں حوالہ جات تحریری اور زندہ اشخاص کی زبانی ہے)۔

راجہ گدھ کی حیثیت پاکستان کے ادبی منظر کے تناظر میں اتنی ہی ہے جتنی آگ کا دریا کی۔ دونوں کے موضوعات اور انداز تحریر بالکل جدا ہے البتہ ناول کے ادبی اور روحی عناصر دونوں میں مکمل ہیں۔ کئی حوالوں سے راجہ گدھ ایک شہر ( لاہور) کی روح اور جسم کو جس طرح بیان کرتا ہے اور اسکا اطلاق مرد کی نفسیات سے جوڑتا ہے بالکل ایسا ہی ہنر V S Naipaul کی Half a Life میں ہے ،جس پر انہیں سمجھیں نوبل پرائز ملا اور ہماری بانو قدسیہ کو گالیاں۔بانو قدسیہ کا مختصر ناولٹ یا طویل افسانہ “ شہر ِبے مثال” میرے لئے اب تک ایک ادبی عجوبہ ہے۔” دوبارہ”  لاہور کی روح اور اور اسکی نسوانیت اس مختصر تحریر میں کئی ماہرین نفسیات کا کام آسان کرتے ہوئے ادب کی سند ہے۔”حاصل گھاٹ” کو آپ نظر انداز کر سکتے ہیں۔
لیکن کچھ ایسا ہوا کہ قراۃ  العین حیدر کی پیر پرستی ( بشمول جنوں کی حاضری، الّو کا جھپیٹا، عارف میاں کا ان سے ایک شہر میں ملنا جبکہ بیک وقت لکھنو میں حاضر ہونا وغیرہ ) بہت پیار سے نظر انداز ہوا جبکہ بانو قدسیہ کو عمیرہ احمد کے ادب کی موجد بتایا گیا ( عمیرہ احمد۔۔ ذرا سوچیں)۔

مجھے قراۃ  العین حیدر کی ذات، تحریر اور انکی شخصیت سے عشق ہے۔ عشق اندھا ہوتا ہے لیکن گونگا بہرہ نہیں ہوتا۔ انکا ادبی قد دنیائے ادب کے رائٹرز میں بھی اونچا ہے۔۔لیکن یاد رہے کہ انکے پدرم سلطان بود والے انداز کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا جبکہ بے چاری بانو قدسیہ کے اپنے میاں کی تعریف اور تمجید پر یہاں تک الزام لگایا گیا کہ “راجہ گدھ “اشفاق احمد نے لکھا ہے۔ قرہاۃ العین حیدر کا  اپنے نسب اور خاندان پر تفاخر ( اور بلاشبہ بجا تفاخر) انکی ذات کا اور تحریروں کا حصّہ رہا ( تفصیلاً کار ِِ جہاں دراز ہے پڑھیں اور انکے انٹرویوز پڑھیں سنیں۔۔ خود تحقیق کریں)۔ بانو قدسیہ کے ہاں کی درویشیت البتہ نظرانداز رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت تکلیف سے اس نتیجے پر پہنچا کہ باقی باتیں ایک طرف۔۔ ہمارے ادب میں بھی اشرافیہ اور مڈل کلاس ادیبوں کی کیٹیگری بنی ہے ( فرفرانگریزی دان ، خاندانی جاہ و نسب، غیر ملکی اسفار اور پوزیشن ۔۔ کہیں نہ کہیں تعصب کی صورت جھلکتے ہیں) ۔ تو یہ ہے کہ صرف تصوف ، پیر پرستی اور جنوں بھوتوں معجزوں پر یقین کرنے کی وجہ سے اگر معتوب کرنا ہے تو عینی آپا کے نمبر زیادہ ہیں یہاں۔
اور سب سے اہم بات میرے لئے یہ کہ میں دونوں کے فلسفہ جذب، دونوں کے پیری فقیری تجربے اور جنوں بھوتوں پریوں ، حاضری، الو کا جھپیٹا، جادو، عالمِ ارواح ، قطب و ابدال و ہمہ فلسفہ و طریقہ اور ایک لمبی فہرست ہے جسے عقل پرست خرافات کہتے ہیں ۔ان پر مجھے کامل یقین ہے۔ اکثر جب کوئی اور نہ ملے تو آنکھ بند کر کے قراۃ  العین سے پوچھتا ہوں کہ میرے فلاں دوست یا رشتہ دار کی خبر نہیں اور وہ کہتی ہیں عارف میاں سے پوچھ کر بتاتی ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply