• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • سعودی عرب کا غیر ملکی افراد کو نوکریوں سے نکالنے کا فیصلہ

سعودی عرب کا غیر ملکی افراد کو نوکریوں سے نکالنے کا فیصلہ

سعودی عرب کا غیر ملکی افراد کو نوکریوں سے نکالنے کا فیصلہ
طاہر یاسین طاہر
ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کی وزارت سول سروسز نے تمام سرکاری اداروں کو حکم دیا ہے کہ 3 سال کے اندر اندر تمام غیر ملکیوں کو نوکری سے فارغ کردیا جائے۔سعودی حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب کہ گزشتہ برس سے سعودی عرب کی تیل کی کمائی میں نمایاں کمی واقع ہوئی، کیوں کہ سعودی عرب کی کمائی کا زیادہ تر انحصار تیل کی پیداوار پر ہے۔سعودی حکومت نے وژن 2030 کے تحت ایک ایسے منصوبے کا اعلان بھی کر رکھا ہے، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔اس منصوبے کے تحت سعودی حکومت تیل کی کمائی کے بغیر چھوٹے، بڑے اور درمیانے درجے کی مختلف سرمایہ کاری اور کاروبار کے منصوبے شروع کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔سول سروسز کے ڈپٹی وزیر عبداللہ ال میلفی نے تمام متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ 2020 کے بعد کوئی بھی غیر ملکی نوکری پر نہ ہو۔
ڈپٹی وزیر کی صدارت میں دارالحکومت ریاض میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس کے اختتام تک ملک بھر میں 70 ہزار غیر ملکی افراد نوکری کر رہے تھے۔اجلاس میں عبداللہ ال میلفی نے واضح طور پر کہا کہ سعودی بادشاہت وژن 2030 کے تحت مکمل طور پر تمام سرکاری نوکریاں قومی اور مقامی افراد کو دینا چاہتی ہے۔اقس سے پہلے سعودی گزٹ نے رواں برس فروری میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی حکومت نے نومبر 2016 سے اب تک 39 ہزار پاکستانیوں کو ملک سے بے دخل کیاہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب کے مالی سال 2017 کے بجٹ میں خسارے کا تخمینہ تقریباً 53 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جو متوقع خسارے سے کم ہے۔جب سعودی وزرات خزانہ نے بجٹ پیش کیا تھا تو اس کے بعد شاہ سلمان نے سرکاری ٹی وی پر کہا کہ ’بجٹ انتہائی غیر مستحکم اقتصادی صورتحال کے وقت آیا ہے، جس کی بڑی وجہ عالمی اقتصادی نمو اور تیل کی قیمتوں میں کمی ہے۔ایک اندازے کے مطابق سعودی بادشاہت میں اس وقت 90 لاکھ غیرملکی ملازمین ہیں۔ان سب کو ویژن 2030 فارمولے کے تحت اب سعودی عرب سے اپنے اپنے وطن کو واپس لوٹنا پڑے گا۔
یہ امر واقعی ہے کہ سعودی معیشت کا دارو مدار اس کی تیل کی آمدن پر ہے۔ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل بر آمد کرنے والا ملک شمار ہوتا ہے مگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کے دیگر ذرائع سے عالمی خریداروں کے استفادے کا رحجان سعودی معیشت کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ایک وقت تھا کہ ایشائی مزدور بالخصوص سعودی عرب میں بن لادن اور دیگر کنسٹرکشن کمپنیوں میں اکم ملنے کو باعث ِ نعمت تصور کرتے تھے۔لیکن چند برس قبل بن لادن کمپنی دیوالیہ ہوئی،سعودی عرب میں بھارتی اور پاکستانی مزدوروں سمیت دیگر ایشیائی مزدور مہینوں تنخواہوں کی ادائیگی کا انتظار کرتے رہے اور بھارت و پاکستان کی حکومتوں کی کوششوں سے ان مزدوروں کو تنخواہیں ملی تھیں جو ایک طرح کی کفیل کی قید میں تھے۔بے شک ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے مفادات کو مقدم جانے اور انھیں بہتر تعلیم، صحت ارو روزگار کی سہولیات دے۔سعودی عرب کو بھی یہ ھق حآصل ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اپنے شہریوں کو سرکاری و نجی شعبوں میں روزگار کے مواقع دے۔
لیکن یہ امر بھی درست ہے کہ سعودی بادشاہت سارے کے سارے غیر ملکیوں کو تین برس کی قلیل مدت میں بے دخل کر کے عالمی سطح پر بے روزگاری کے فروغ کا ایک ذریعہ بن جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی حکومت اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے ،نیز سارے کے سارے غیر ملکیوں کو بے دخل کرنے کے بجائے کسی معقول فارمولے کے تحت،غیر ہنر مند یا کم پڑھے لکھے افراد کو ہی ان کے ملکوں کو واپس بھجوائے۔ یہاں وہ ممالک جن کی افرادی قوت غیر ممالک میں ہے،وہ ممالک آنے والے سالوں میں اپنے ان شہریوں کے لیے بالخصوص نوکریوں اور کاروبار کے مواقع پیدا کریں جو بیرون ملک بالخصوص سعودی عرب اور گلف کی دیگر ریاستوں میں روزگار کے لیے موجود ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply