مجید امجد تنہائی کا شاعر/سیّد عبدالوحید فانی

مجید امجد اردو شاعری کا ایک اہم اور منفرد نام ہے۔ ان کی شاعری میں گہرائی اور معنی خیزی انھیں اوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ مجید امجد کی شخصیت اور ان کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسا شاعر ہے جنھوں نے اپنی تنہائی اور اپنے منفرد تجربات کو اپنی تخلیقی قوت بنایا۔ مجید امجد کا پیدائش سن 1914 ہے، اور اسی دور میں میرا جی، فیض احمد فیض اور ن م راشد نے بھی جنم لیا تھا۔ ان سب شاعروں نے اپنے اپنے مکاتبِ فکر کو جنم دیا اور اپنے دور میں بہت مقبول ہوئے۔ بہت سے ادبی اور تنقیدی مباحث کے مراکز رہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے دھومیں مچا کر ادبی منظر نامے سے چلے گئے۔ لیکن مجید امجد نے روایتی راستہ چھوڑ کر اپنی الگ راہ چنی۔ اسی لیے وہ اب تک نیا ہے اور قارئین کی آنکھوں کو چکا چوند کر رہا ہے۔ میرا جی، فیض اور راشد نے تو نئے آنے والے شعرا کے لیے تقلیدی راہ ہموار کر دی تھی اور نئے آنے والے کسی نہ کسی کے پیچھے قطار میں قسمت آزمائی کے لیے کھڑے ہیں۔ لیکن اس کے بر خلاف، مجید امجد تقلید میں تنہا ہے۔ اس نے نہ خود کسی کے پیچھے چلنا گوارا کیا اور نہ ہی کسی اور کو اپنی تقلید کے لیے راغب کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی تنہائی مجید امجد کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس نے خود کو ادبی تحریکوں اور معاشرتی دباؤ سے دور رکھا۔ اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ یعنی تنہائی ان کے تخلیقی تجربوں کا ایک اہم لازمہ تھی۔ ایک روایتی فقیر کی طرح انھوں نے مزاجاً بہت سی چیزیں خود پر حرام کردی، جو ان کی اپنی اختیار کردہ ہے۔ اسی فعل کی کڑی میں انھوں نے اپنی زندگی کے بہت سے لذتوں اور آسائشوں کو ترک کر دیا۔ جس نے ان کے فن کو ایک نئی بلندی عطا کی۔ یہ ایک شعوری لاتعلقی تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہجوم یا جلوت میں آکر وہ اپنی انفرادیت کھو دے گا، جس پر ان کے کلام کی عمارت کھڑی ہے۔ اور اس تنہائی کے ذریعے وہ اپنے باطن کا رنگ اپنے ظاہر پر غالب کرنا چاہتا تھا۔ اس سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوئی اور وجود مزید ارفع ہو گیا۔ مجید امجد کی شاعری میں تنہائی کی گہرائی اور اس کے نفسیاتی اثرات کو نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی نظروں میں وہ تجربات اور جذبات عیاں ہوتے ہیں، جو ایک تنہا انسان محسوس کرتا ہے۔ ان کا فنکارانہ تخلیقی عمل ان کی تنہائی کی عکاسی کرتا ہے اور ایک نئی روحانی جہت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر، ان کی نظم “کنواں” ایک ایسی تخلیق ہے، جو انسانی تجربات کی گہرائیوں کو بیان کرتی ہے۔ یہ تجربات تنہائی کے تجربات ہیں، جو دراصل تمام تقسیموں اور تفریقوں کو ختم کرنے والے لمحات ہیں، جنھیں مجید امجد نے کنویں کے طور پر دیکھا ہے۔ اس نظم سے ایک اقتباس ذیل میں پیش کر رہا ہوں:
اور اک نغمۂ سرمدی کان میں آرہا ہے، مسلسل کنواں چل رہا ہے
پیاپے مگر نرم رو اس کی رفتار، پیہم مگر بے تکان اس کی گردش
عدم سے ازل تک، ازل سے ابد تک، بدلتی نہیں اک آن اس کی گردش
نہ جانے لیے اپنے دولاب کی آستینوں میں کتنے جہاں اس کی گردش
رواں ہے رواں ہے
تپاں ہے تپاں ہے
یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے
کنواں چل رہا ہے
مجید امجد کا فن اور ان کی شاعری، ان کی تنہائی اور منفرد تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی شاعری آج بھی جدید نسل کے دلوں کو چھو رہی ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی گواہی دے رہی ہے۔ ان کا مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کی مشکلات اور تنہائی کس طرح ایک تخلیقی عمل کو جنم دے سکتی ہے۔ مجید امجد کی شاعری اردو ادب کا ایک قیمتی حصہ ہے اور اس کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply