رات بارہ بجے میں نے گاؤں جانے کے لئے قبرستان کا چھوٹا رستہ اختیار کیا۔
Advertisements
’’پتر خالد!‘‘
یہ آواز چاچے خیر دین کی تھی۔
میرے قدم تیز ہو گئے۔
’’بات تو سنو‘‘۔
چاچا کب مرا میں نے سوچا۔
’’میں اکیلا نہیں،تمہارے گھر والے بھی ادھر ہیں‘‘ْ
چاچا میرے پیچھے بھاگا۔
خوف سے میں بے ہوش ہوتا چلا گیا۔
ہوش آیاتو منظر ہیبت ناک تھا۔
پورا گاؤں قبرستان میں موجود تھا ۔
’’میں مر چکا ہوں۔۔۔؟‘‘
’’ پتر! مرا کوئی نہیں،گاؤں میں رات بجلی بند رہتی ہے گرمی سے ستائے لوگ قبرستان آ جاتے ہیں رات سکون سے نکل جاتی ہے‘‘
ابانے کہا۔۔۔۔!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں