• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بطور نقاد-ایک ذاتی تاثر( حصّہ اوّل)-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بطور نقاد-ایک ذاتی تاثر( حصّہ اوّل)-ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ایک ذاتی تاثر
گذشتہ صدی کی ۱۹۵۰ء  کی دہائی میں جب ابھی میں ایم اے (انگریزی ادبیات) کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا تو کئی بار یہ خیال ذہن میں جاگزیں ہوتا ہوا محسوس ہوتا تھا کہ انگریزی کی طرح اردو میں بھی اس پائے کے نقاد کیوں نہیں ہیں جو اردو تنقید کو اس کی روایتی یا سکہ بند ’’ترقی پسند ‘‘ سوچ کی جکڑ بندیوں سے نکال کر ایک ہی جست میں یورپی تنقید کے برابر لے جا سکیں۔اس وقت کے معروف ناموں کی فہرست پر صرف ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ اردو نقاد کے لیے کسی جامعہ کا پروفیسر ہونا شاید نا گزیرتسلیم کر لیا گیا ہے حالانکہ انگریزی ادب کے سیناریو میں یہ بات نہیں تھی۔ اٹھارہویں صدی کے وسط سے جب سیموئل جانسن نے ’عقلی دریافت‘ کی ابتدا کی، بیسویں صدی کے وسط تک انگریزی میں اٹھارہ کے لگ بھگ ایسے نام گنے جا سکتے تھے جو جامعات سے متعلق نہیں تھے لیکن (کالریج کی طرح) یا تو شاعر تھے یا ( ہیزلِٹ کی طرح ) نثر نگار تھے۔ کچھ اور نام جو لیے جا سکتے ہیں، ان میں جوزف شیلنگ، طامس لَو پی کاک، شیلے، گوئٹے، تھامس کارلایل، اور جان سٹواَرٹ مِل وغیرہ سر فہرست تو نہیں ، لیکن اہم ناموں میں شمار ہوتے ہیں۔ سماجی تناظر میں ادب کو دیکھنے کے کام پر Anne Louise Germaine de Staal نے اپنی معرکۃ الارا کتاب Literature in its Relation to Social Institutions لکھ کر ایک نئی بحث کی بنیاد ڈال دی۔ بیسویں صدی کے آتے آتے اس فہرست میں بیسیوں ناموں کا اضافہ ہوا کیونکہ اس وقت تک برطانوی ادب کے شانہ بہ شانہ امریکی ادب بھی کھڑا ہو چکا تھا اور نقادوں کی ایک نئی پود ادب کو ایک مختلف عالمی تناظر میں دیکھ رہی تھی، جس میں برطانوی نقادوں نے اس سے پہلے دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ ان کے علاوہ یورپ کی دیگر زبانوں میں بہت کچھ ایسا بھی لکھا گیا جس سے ادبی تنقید پردیگر megamorphic disciplines کے اثرات، (خصوصی طور پر Linguistics اور اس کے متعلقات کے اثرات) اس فہرست میں شامل ہو گئے۔

اگلے زمانوں کے لوگ ایسی ہی صحبت کے لیے چشم براہ رہتے تھے اور فخریہ انداز میں یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے کیسے کیسے چوٹی کے اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نارنگ صاحب شاعر ہوتے تو اس وقت تک سینکڑوں ، بلکہ ہزاروں نوجوان شعرا ان کے’ خانوادے‘ سے تعلق رکھنے کو اپنا اعزاز سمجھتے۔ نارنگ صاحب کے بارے میں بقول شخصے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آسمان سے علم کی فضیلت اور زمین سے انسان دوستی کی کشش ثقل کافیضان حاصل کیا ہے۔

میں ۱۹۵۵ء  میں دہلی گیا کہ یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کے جیّد استاد ڈاکٹر دستور سے مل کر یہ کوشش کروں کہ اگر مجھے کوئی اسکالرشپ مل جائے تو میں چنڈی گڑھ سے دہلی چلا جاؤں۔ اس میں تو مجھے کامیابی نہیں ہوئی لیکن شعبہ ٔ اردو کے کچھ اساتذہ اور طلبا سے ملنے کے بعدمیرا یہ قیاس یقین میں بد ل گیا کہ اردو تنقید ایک ایسی راہ پر چل رہی ہے ، جس میں سیموئل جانسن 1کی ’عقلی دریافت‘ سے لے کر بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ٹی ایس ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کی نگارشات کے زیر اثر کچھ لکھنے یا لکھ سکنے کی جرات کسی نے بھی نہیں کی۔حالیؔ سے ہی شروع کریں تو خود الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، ڈاکٹر عبدالحق، دتاتریہ کیفی، محمود شیرانی اور دیگرمتعدد نام ہیں، جو مغربی تنقید کی بلندیوں تک نہیں پہنچے۔پھر مغرب کے اثرات کی جھلک اگر ملتی ہے تو اس ضمن میں کسی حد تک نیاز فتح پوری، فراق، مجنوں، اختر حسین رائے پوری، رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، کلیم الدین احمد وغیرہم میں ، لیکن آخر الذکر کلیم الدین احمد پر ان کے اردو کے کلاسیکی ادب کے بارے میں منفیانہ رویے کی وجہ سے سوالیہ نشان لگا دیں، تو باقی کے حضرات اپنی کلاسیکی یا روایتی یا ترقی پسند ادب کی جکڑ بندیوں سے باہر نہیں نکل سکے۔

اس لیے جب ساٹھ کی دہائی میں ہی مَیں نے مختلف رسائل میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی نگارشات پڑھنا شروع کیں، تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے ایک تازہ ہوا کا جھونکا میرے ذہن کو چھو گیا ہو۔ ساٹھ سے اسّی تک کی دو دہائیوں میں ترقی پسند تنقید نگاروں (پروفیسر احتشام حسین وغیرہ) کی مارکسی ٹکسالی تنقید کو پڑھتے پڑھتے دل جب اوب گیا تو نارنگ صاحب کی طرف ایک بار پھر متوجہ ہوا۔ تب تک موصوف سے صرف رسمی علیک سلیک تھی ۔ پھر کچھ دیگر ذاتی اور خاندانی انسلاکات کی بدولت انہیں زیادہ قریب سے جاننے کا موقع ملا اور یہ بھی محسوس ہوا کہ نارنگ صاحب کی صحبت سے جو بھی فیضیاب ہوا ، وہ بجا طور پر اپنی خوش نصیبی پر فخر کر سکتا ہے۔ اگلے زمانوں کے لوگ ایسی ہی صحبت کے لیے چشم براہ رہتے تھے اور فخریہ انداز میں یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے کیسے کیسے چوٹی کے اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نارنگ صاحب شاعر ہوتے تو اس وقت تک سینکڑوں ، بلکہ ہزاروں نوجوان شعرا ان کے’ خانوادے‘ سے تعلق رکھنے کو اپنا اعزاز سمجھتے۔ نارنگ صاحب کے بارے میں بقول شخصے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آسمان سے علم کی فضیلت اور زمین سے انسان دوستی کی کشش ثقل کافیضان حاصل کیا ہے۔

کیا ہمہ جہتی ہے ان کی شخصیت میں ،صاحب! میں نے ایک بار کینیڈا میں ان کے اعزاز میں منعقد کیے گئے ایک اجلاس میں کہا تھا، ’’ایاز، قدر ِ خود بشناس۔‘‘شاید نارنگ اپنی قدر سے شناسائی رکھتے بھی ہوں لیکن اس پر شعرا کے مقطع فخریہ کی طرح انہوں نے کبھی صاد نہیں کیا۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے خود کو ’’حقیر، فقیر، خاکسار‘‘ کہتے ہوئے ، ایسے ہی درجنوں الفاظ سے اپنے درویش صفت ہونے کا بعینہ ثبوت دیتے ہیں۔ اوّل درجے کے محقق، اعلیٰ معیار کے نقاد، درجنوں نہایت وقیع کتابوں کے مصنف، اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر ہی نہیں، دیگر اہل قلم کے لیے اپنے خیالات کے اعتبار سے ہر من پیارے، کشادہ قلب و نظر رکھتے ہوئے ہر کسی کو شفقت دینے والے ۔  میں نے انہیں ستر اور اسی کی دہائیوں میں بھی ایسے ہی پایا جیسے کہ وہ اب ہیں۔ انہیں ہم کسی بھی پیمانے سے اور کسی بھی رُخ سے دیکھ لیں، ہمارا پیمانہ انہیں مکمل انسان، مکمل نقاد اور مکمل دوست پائے گا۔۔ علمی گراں مائیگی ہو، یا ذاتی اوصاف ۔ ۔ان وجوہ کی بِنا پر دوست پروری تو ہم سب کرتے ہیں، لیکن اس سے آگے نیک طبعی، وسیع القلبی، کرم پیشگی وغیرہ ایسی صفات ہیں، جو اس ایک ہی شخصیت میں خدا کے فضل و کرم سے ہی مجتمع ہو گئی ہیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست : تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply