کتھک کی ملکہ “رانی کرنا” کی زندگی پر ایک نظر ۔۔ ۔ صفی سرحدی

حیدر آباد سندھ میں جنم لینے والی کتھک کی ملکہ “رانی کرنا” 79 سال کی عمر میں انتقال کرگئی۔ رانی کرنا کا جنم 11 مارچ 1939 کو حیدر آباد میں ایک ہندو سندھی گھرانے میں ہوا تھا۔ اُن کے والد “اسنداس کرنا” کا تعلق لاڑکانہ کے “کرنا مالانی” قبیلے سے تھا۔ اسی نسبت سے انکا خاندان اور باقی رشتہ دار اپنے نام کے ساتھ “کرنا” لگاتے ہیں۔ 1942 میں رانی کرنا کے والد کا تبادلہ دہلی ہوگیا جسکی وجہ سے انکا خاندان تقسیم ہند سے قبل دہلی منتقل ہوگیا لیکن اس درمیان باقاعدگی سے رانی کرنا چھٹیوں پر اپنے خاندان کے ہمراہ لاڑکانہ اور حیدر آباد آتی رہی۔ اُنکے والد سرکاری ملازم تھے جبکہ ماں سندھی کلچر کی سلائی کڑھائی کی ماہر آرٹسٹ تھی۔ رانی کرنا بچپن میں بہت پیاری تھی انکی ماں اُنہیں اُنکے گلابی گالوں کیوجہ سے گلاب جامن کہا کرتی تھی اور پڑوس میں بھی ننھی رانی کرنا سب کو بہت بھاتی تھی۔ اُنکے پڑوس ہی میں ایک ساوتھ انڈین خاندان رہتا تھا جو روز ننھی رانی کرنا کو گھر لیجایا کرتے تھے اور گنگناتے ہوئے رانی کرنا کو ہاتھ سے پکڑ کر نچاتے تھے یہی سے رانی کرنا کے رقص کی اِبتدا ہوتی ہے۔ دہلی میں رانی کرنا کے چاچا کی دُکان تھی اور وہ روز اپنے والد کا ہاتھ پکڑ کر چاچا کے پاس دُکان جایا کرتی تھی۔ اور گھر کے پاس رستے میں سنگیت اکیڈمی تھی جہاں سے گزرتے وقت گنگروؤں کی آواز ننھی رانی کرنا کو اپنی طرف مائل کرتی تھی۔

ایک دن رانی کرنا نے اپنے والد سے کہا، بابا مجھے گھنگرو لا دیں مجھے رقص سیکھنا ہے۔ لیکن والد نے منع کردیا تو اُنکے چاچا نے اُنکی سفارش کرتے ہوئے کہا۔ بھائی صاحب گھنگرو لاکر دیجئے۔۔ بچی ہے۔ تو اُنکے والد نے بھائی سے کہا، اسے ایک دن کا شوق ہوگا اگلے دن گھنگرو پھینک چُکی ہوگی۔ پر تب ننھی رانی کرنا بولی ،میں نہیں پھینکوں گی میرے لیے خریدیں۔ بیٹی کی ضد کے سامنے والد نے ہار مان لی اور انہیں چار سال کی عمر میں گھر کے پاس اسی سنگیت اکیڈمی میں داخل کرا دیا۔ اور یوں رانی کرنا کے رقص کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

یوں تو رانی کرنا نے کتھک  کے ساتھ ساتھ اوڈیسی، بھرت ناٹیم اور مانی پوری رقص بھی سیکھا لیکن زیادہ توجہ انہوں نے کتھک رقص کو ہی دی، جو انکی وجہ شہرت رہی اور جسکی وجہ سے وہ کتھک کی ملکہ کہلانے لگی۔ رانی کرنا کے ابتدائی گرو “نریتیا اچاریہ نارائن پرساد” اور سندر پراساد تھے۔ بعد میں رانی کرنا نے کتھک گرو ہیرا لال سے جئے پوری گھرانے کا اور لکھنوی گھرانے کا پنڈت برجو مہاراج سے سیکھا۔ پنڈت برجو مہاراج تھے تو رانی کرنا کے ہم عمر یعنی اُن سے صرف ایک سال بڑے تھے۔ لیکن جب وہ نو سال کے ہوئے تو انکے والد کا انتقال ہوا جس کے بعد لکھنوی گھرانے کی روایات کو آگے بڑھانے کیلئے برجو مہاراج کو بچپن میں ہی سامنے آنا پڑا، برجو مہاراج کے والد اچھن مہاراج لکھنؤ کتھک اسکول کے بانی بھی تھے جن کا انتقال 9 اکتوبر 1947 کو ہوا۔

والد کے انتقال کے بعد برجو مہاراج کو دہلی آنا پڑا اور دہلی ہی میں رانی کرنا نے برجو مہاراج سے پانچ سال تک کتھک رقص سیکھا۔ برجو مہاراج نے اُنکے کتھک رقص کو خوب پالش کیا۔ اُن دنوں بچے ٹوپی پہن کر رقص کیا کرتے تھے رانی کرنا نے بھی ٹوپی پہن کر رقص سیکھا اور سات سال کی عمر میں پہلی بار عوام کے سامنے اپنے رقص کا مظاہرہ کیا۔ رقص کے ساتھ ساتھ رانی کرنا کو ڈاکٹر بننے کا بھی بہت شوق تھا سکول کے بعد انہوں نے دلی کے ہندو کالج میں داخلہ لیا جہاں ایک دن کالج میں فیسٹول کا انعقاد ہورہا تھا جس میں انہیں حصہ لینے کی درخواست کی گئی اور جب رانی کرنا نے اس فیسٹول میں اپنے کتھک رقص کا مظاہرہ کیا تو سامعین نے انہیں بہت داد دی۔ چونکہ کتھک رقص رانی کرنا کا پہلا جنون تھا اس لیے کالج میں ہونے والے اس فیسٹول کے بعد انہوں نے اپنی پوری توجہ کتھک رقص پر دینی شروع کی جسکی وجہ سے انہیں گریجویشن کے بعد آنرز میں ہی تعلیم چھوڑنی پڑی۔

رانی کرنا کے شوہر نائیک کا تعلق اوڈیسہ سے تھا وہ پولیٹیکل سائنس پڑھنے کیلئے دہلی آئے تھے۔ ان دنوں کالج میں نائیک نے رانی کرنا کا انٹریو کیا جس کے بعد سے دونوں میں دوستی شروع ہوئی جو سات سالوں تک چلتی رہی۔ اس کے بعد دونوں نے 1963 میں شادی کرلی اور یوں رانی کرنا کو دہلی سے اوڈیسہ سسرال منتقل ہونا پڑا۔ اوڈیسہ میں رانی کرنا کی ملاقات وہاں کی مشہور رقاصہ کم کم موہنتی سے ہوئی۔ کم کم موہنتی کے ذریعے رانی کرنا کی ملاقات اوڈیسہ رقص کے مشہور گرو کیلوچرن مہا پترہ سے ہوئی جس سے رانی کرنا نے 1966 سے لیکر 1985 تک اوڈیسی رقص سیکھا۔

1978 میں رانی کرنا کے شوہر کا تبادلہ کلکلتہ ہوا جسکے بعد سے رانی کرنا نے مرتے دم تک کلکتہ کو ہی اپنا مسکن بنا لیا۔ لیکن اس درمیان وہ اوڈیسہ اور دہلی آتی رہی۔ انکے شوہر نائیک نے انہیں بہت زیادہ سپورٹ کیا اور خود بھی رانی کرنا نے بہت محنت کی چاہے  سردی ہو یا گرمی، دھوپ ہو یا بارش، لیکن وہ روز اپنے معمولات زندگی میں سے وقت نکال کر رقص کیا کرتی تھی۔ رانی کرنا کو اپنے سے سینئر اور اس دور کی مشہور رقاصائیں دامنتی جوش، روشنی کماری، یاونی، اندرانہ رحمانی کے ساتھ بھی رقص کرنے کا موقع ملا اور اُن سب سے اُنکی بہت اچھی دوستی بھی رہی۔ اور خاص کر بنارس سے تعلق رکھنے والی ٹھمری کی ملکہ گرجیا دیوی سے بھی انکی بہت اچھی دوستی رہی چونکہ دونوں نے کلکلتہ کو اپنا مسکن بنا لیا تھا اس لیے قریب ہونے کیوجہ سے دونوں نے ایک ساتھ ملکر بہت کام بھی کیا۔ گرجیا دیوی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ بعد میں سیکھنے کی طلب اور تڑپ کیوجہ سے رانی کرنا نے اموبی سنگھ، نریندرا کمار، للیتا شاستری، رکمنی دیوی اور اروندلے جیسے بڑے رقص گروؤں کی شاگردی بھی اختیار کی۔

رانی کرنا نے کتھک رقص کو مزید بہتر بنایا اور اسے ملاوٹ سے پاک کرایا اور اس سلسلے میں رانی کرنا نے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر سوشیل کمار سکسینا کے ساتھ ملکر کتھک رقص پر تحقیق کا کام سرانجام دیا۔
1995 میں رانی کرنا نے کلکتہ میں ڈانس اکیڈمی سمسکریتیکی شریاسکار شروع کی، جسے تاحال وہ خود چلا رہی تھی جہاں لڑکیوں کو کتھک رقص سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رانی کرنا کلکتہ سکول آف میوزک کی بانی ڈائریکٹر کے طور پر 1978 سے لیکر 1993 تک کام کرتی رہی۔ رانی کرنا بھارت میں تمام بڑے کلاسیکل فیسٹول اور مقابلوں میں شریک ہوتی رہی۔ اور بھارت سے باہر بھی انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ پیش کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان، افغانستان، روس، یوگوسلوایہ، فن لینڈ، برطانیہ، اٹلی، رومانیہ، بلغاریہ، ہالینڈ، بیلجیم، اور فرانس کا دورہ بھی کیا۔ رانی کرنا نے عوام کے سامنے آخری کتھک رقص کا مظاہرہ 2013 میں 74 سال کی عمر میں کیا۔ جس کے بعد سے انہوں نے خرابی صحت کے باعث عوام کے سامنے رقص کرنے سے معذرت شروع کی۔

کتھک رقص کیلئے اُنکی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں بہت سارے اعزازت سے بھی نوازا گیا جن میں 1954 میں وائس پریزیڈنٹ گولڈ میڈل، 1964 میں کوئین اف لاؤس، 1990 میں ویجے رتنا، 1996 میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، 1998 میں ساھتیہ ایوارڈ اور اکھیل بھارتھیہ سندھی بولی ایوارڈ، جبکہ 2014 میں انہیں پدما شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان سندھ میں گزرے دنوں کو یاد کرتے ایک انٹریو میں انہوں نے کہا تھا۔ کہ مجھے اپنا بچپن یاد ہے سندھ میں بہت گرمی ہوتی تھی میں سندھی صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی سے بہت متاثر ہوں اور میں نے انکے کلام پر رقص بھی کرتی ہوں میں نے انکا کلام بچپن میں اپنے والد سے سُنا۔ ہندوستان کی تقسیم کا سانحہ ہم سندھیوں کیلئے بہت بھیانک تھا تقسیم کے بعد بھارت میں سندھی مقامی کلچر کو اپنا گئے جسکا مجھے دکھ رہتا ہے لیکن میں کوشش کرتی تھی حالانکہ میری شادی اوڈیسی فیملی میں ہوئی ہے لیکن پھر بھی میں دیوالی پر سندھی لباس پہنتی ہوں کیونکہ اسی طرح ہم سندھی کلچر کو پھر سے عام کرسکتے ہیں۔

رانی کرنا کی زندگی پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اب ہم کتھک رقص پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں ۔۔۔

کتھک کا لفظ سنسکرت کے “کتھا” سے نکلا ہے، یہ رقص زیادہ تر دیوتاؤں سے منسوب رزمیہ داستانوں کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ہر صدی میں مذہبی پنڈتوں اور اپسراوں نے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور مغلیہ دور میں بھی یہ رقص عروج پر تھا کیونکہ برصغیر میں مغلوں کی آمد کے بعد کتھک میں بہت سی اہم تبدیلیاں آئیں۔ مندروں سے نکل کر یہ رقص مغل دربار کی زینت بن گیا اور اسے ایک کلاسیکی فن سمجھا جانے لگا۔ ہندو مذہب میں مذہبی کہانیوں اور روایات کا اظہار کتھک رقص کے ذریعے پوجا کا ایک مقدس طریقہ تھا۔ کتھک رقص میں کہانی کا آغاز اور اختتام، جسم یا ہاتھ پاؤں کی ایک ہلکی سی جنبش پر ہوتا ہے۔ ہندوستانی کلاسیکی رقص کے آٹھ قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک کتھک رقص ہے۔ جبکہ باقی میں بھرت ناٹیم، اوڈیسی، مانی پوری، کُچُوپُوڑی، کتھاکلی، موہِنی اٹَم، اور ستریہ، شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتھک رقص شمالی ہندوستان میں کافی مشہور ہے۔ اس رقص کے تین اہم گھرانے ہیں، جئے پوری، لکھنوی اور بنارسی گھرانہ۔ اس رقص کے رقاص بڑے ہی دلچسپ پیراہن پہنتے ہیں۔ اور ان کا رقص کلاسیکی انداز کا ہوتا ہے۔ برصغیر میں کلاسیکی رقص کی ابتداء مندروں میں ہوئی، جہاں دیوی دیوتاوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کے قصے بدن اور چہرے کے تاثرات سے بیان کرنے کے لیے موسیقی اور رقص کا میڈیم اپنایا گیا۔ کتھک رقص کی ابتداء کم و بیش پانچ ہزار سال قبل اُتر پردیش میں بتائی جاتی ہے۔ وادی سندھ میں پھلنے پھولنے والی موھنجو داڑو کی تہزیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہزییوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ وہاں کے کھنڈرات سے ملنے والی رقاصاں مورتیوں سے بھی پتا چلتا ہے کہ اس خطے میں پانچ ہزار سال پہلے بھی رقص کو ایک اہم فن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جبکہ رقص کی قدیم ترین کتاب ناٹیہ شاستر بھی اسی دھرتی پر رقم ہوئی تھی۔ لیکن تب کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ پانچ ہزار سال بعد اسی دھرتی پر کتھک کی ملکہ کا جنم ہوگا۔ جو نہ صرف اس رقص کی آبیاری کریگی بلکہ وہ اس رقص کو اگلی نسلوں تک بھی منتقل کریگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply