پاکستان کے محرر بدلو ۔۔۔۔مشتاق خان

اگر ان بچوں کو جن کو ہم چھوٹو  یا نکا بولتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد موٹر سائیکل گاڑی یا الیکٹرانکس کی ورکشاپس پر کام کرتی نظر آتی ہے اور ان میں سے اکثریت جوان ہونے سے پہلے ہی بہترین کاریگر بن جاتے ہیں ۔۔آپ ذرا تصور کیجئے کے اگر ان بچوں کو جو کچھ وہ ورکشاپس میں اپنے ہاتھوں سے ٹھیک کرنا سیکھتے ہیں اگر ان بچوں کو صرف کتابیں تھما دی جائیں  اور ان کو کہا جائے کہ یہ سارے عمل وہ یاد کریں وہ ان اصطلاحات اور پرزوں کے سائنسی ناموں کے ساتھ جو زیادہ تر جاپانی کوریائی جرمن فرنچ اٹالوی زبان میں ہونگے تو کیا یہ بچے اتنے ہی کامیاب استاد کاریگر بن سکتے تھے یقینا ًًً نہیں  بن سکتے تھے ۔

اب آپ کو لیے  چلتے ہیں ایک تھانے میں۔۔ یہاں آپ کو پولیس ملازمین گالیاں دیتے ہنستے لڑتے جھگڑتے کھاتے پیتے مارتے پیٹتے نظر آئیں گے لیکن یہ وہ ملازمین ہیں جن کو یا تو کسی ناکے  پر کھڑے ہوکر لوگوں کو  ذلیل کرنا اور ان سے پیسے بٹورنا ہیں یا وہ ملازمین جو ملزمان کو پکڑنے اور ان سے تفتیش کرنے پر مقرر ہیں اس لئے یہ ملازمین آپ کو خوش باش نظر آئیں گے۔۔ ایک شاہانہ کمرے میں تھانے کا ایس ایچ او بھی براجمان ہے جو صرف صاحب حیثیت لوگوں کو ہی ملتا ہے ،یہ ملازمین اور ایس ایچ او اپنے محکمے  کے  کسی بھی بڑے سے بڑے   آفیسر سے اتنا نہیں  ڈرتے جتنا یہ لوگ ایک گندے پرانے سے کمرے اور ٹی بی کردینے والے پرانے کاغذوں کے انبار میں بیٹھے ایک شخص جس کو محرر کہا جاتا ہے اس سے ڈرتے ہیں۔۔ یہ محرر ان سب ملازمین کا اصل باس ہے جو ان کو اپنا غلام سمجھہا ھے اور اس محرر سے سب کی جان جاتی ہے، سب کی ملازمت ڈیوٹی کے اوقات، ڈیوٹی کی نوعیت، سب اس محرر کا اختیار ہے ۔پولیس والا اہل ہو نہ ہو ۔۔اگر اس کا بس چلے گا تو وہ سپاہی ہوتے ہوئے آئی جی کی پوسٹ پر بھی لگنا چاہے گا لیکن کوئی بھی پولیس والا جو محرر نہ  ہو وہ محرر نہیں  لگنا چاہے گا کیونکہ یہ محرر اس پولیس سسٹم کا نکا ہے اس نے کئی سال کی محنت مشقت سے محرر کا کام اس کی اصطلاحات جو چینی زبان سے بھی مشکل ہیں، اس کے کام کاج کا طریقہ اور سرکاری احکام لکھنا پڑھنا سیکھا ہے، اس کو تھانے کے مال مقدمہ کی تفصیل، اس کو رکھنا ،پیش کرنا، سیل کرنا، لسٹ بنانا اور مقدمہ جات کا ریکارڈ سنبھالنا غرض کہ  یہ ایک ایسا مشکل کام ہے کہ بس جس نے  برسوں تک محنت سے سیکھا ہو وہی کرسکتا ہے۔

کچھ اسی طرح کی صورتحال پٹوار خانوں میں بھی ملتی ہے کہ تحصیلدار ڈپٹی کمشنر، کمشنر چیف سیکرٹری بھی رشک کرتے ہیں ایک اچھے موضع کے پٹواری کی قسمت پر اور پٹواری کی طاقت بھی پرانے چینی زبان جتنی مشکل لکھائی میں لکھے گئے رجسٹر نقشہ جات، فرد لکھنا ،انتقال کرنا، زمین کی بندر بانٹ کا حساب رکھنا، خسرہ ختونی کھاتہ نمبر اور اتنی زیادہ مشکل اصطلاحات پر مشتمل سارا کا سارا پٹوار کا نظام کہ  کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آئے، بس جو پٹواری کہہ دے وہی سچ وہی حقیقت ۔

اور بالکل اسی طرح کا انتظام ہر محکمہ کے ایڈمن برانچوں اور اکاؤنٹ برانچز میں بھی آپ کو ملے گا، وہاں کا انتظام بھی کوئی بہت پرانا تجربہ کار بندہ سینکڑوں سال سے چلاتا ہوا نظر آئیگا ۔

جب جب عوام کو سہولت دینے کے لئے جدیدیت کی طرف جانے کی کوشش ہوئی اس کی مثال ایسی ہی تھی کہ  جیسے  چوہوں کیڑوں مکوڑوں گندگی والے اسی پرانے کچن میں بنے کھانوں اور مٹھائیوں کو خوبصورت شیشوں میں سجا کے ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کردیا جائے ۔

اسی لئے جو پڑھے لکھے نوجوان پولیس میں یا کسی بھی ادارے میں تبدیلی کی خاطر بھرتی کئے جاتے ہیں تھوڑے ہی عرصہ میں وہ بیچارے ان پڑھ بن جاتے ہیں یا سڑکوں پر جلوسوں سے مار کھا کھا کے شہید ہوجاتے ہیں ۔

ہم اگر ہر الیکشن میں چوہدری شجاعت، پرویز الہی، بھٹو، شریف برادران یا انہی گنے چنے خاندانوں کے لوگ ہی وزیر مشیر لگتے دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ  اسٹیبلشمنٹ میں بھی کوئی ایسا ہی سینکڑوں سال پرانا بندہ بیٹھا ہے جو اپنی اصطلاحات کے علم کی وجہ سے سب کا باس ہے اور جس نظام کو جن لوگوں کو وہ جانتا ہے بس انہی کو ادھر ادھر لگا کے کام چلا لیتا ہے کبھی کبھی ان میں سے کچھ کو سزا بھی دیتا ہے پھر ان کے منت سماجت ،کرنے ٹانگیں دبانے پر دوبارہ ان کے عہدے  پر بحال بھی کردیتا ہے ۔

مقصد  یہ  سب کہنے کا یہ ہے کہ  پاکستان میں اصل تبدیلی کے لئے پاکستان کے یہ محرر بدلنا ہونگے اور ان کی پرانی اصطلاحات والی زبان اور ان کا مشکل نظام بدلنا ہوگا اور ان کے پاس پڑا سارا پرانا مال مقدمہ اور ریکارڈ یا ختم کرنا ہوگا یا اس کو سادہ سی لسٹ بنا کے عام فہم زبان میں لکھ کے کہیں  محفوظ کرنا ہوگا اور ان محرروں کو سڑکوں پر جلوسوں سے مار کھانے پر لگا کے ان کی جگہ نوجوان لوگوں کو لگانا ہوگا جو انگلش یا آسان اردو میں اپنے کام انجام دیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تبدیلی سے آپ کو سب کچھ تبدیل ہوتا نظر آئیگا انشاللہ نوجوان پڑھے    لکھے آفیسرز، نوجوان بہادر پڑھے لکھے جرنیل، ایماندار جج سب کا سب نظام مثبت انداز میں بدل جائگا انشاللہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply