ایک سنہرے آدمی کا یوم ولادت ۔۔۔محمد فیصل شہزاد

لوگ ستمبر کو ستم گر مہینہ کہتے ہیں… ہم مئی کو!
خاص طور اس کی قاتل گرمی کی وجہ سے… ہم ذاتی طور پر اس مہینے میں پیدا ہونے کو ایک خاصا غیر رومانوی سا کام سمجھتے ہیں… بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ آسمان آگ برسا رہا ہو… ہوا صبا اور نسیم کے خوبصورت، ٹھنڈے، جانفزا پیرہن کو اتار… لو جیسے نہایت سفاک لبادے کو زیب تن کر چکی ہو… قویٰ نڈھال، اعصاب مضمحل، حسین چہرے بدحال ہوں اور… پسینہ کسی ماہ جبیں کی صرف جبیں پر ہی موتی بن نہ چمکے بلکہ کم بخت… جرات گستاخانہ کے ساتھ نا گفتنی مقامات تک پہنچ، انتہائی غیر شاعرانہ کھجلی کا باعث بننے لگے…
خیر ایسے بےمروت موسم میں کوئی پھول سا نازک شوخ بدن، جنت سےاس دنیا میں نزول فرماوے… تو یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا!
مگر کیا کیجیے کہ خود اپنی مرضی سے، اپنے پسندیدہ موسم میں پیدا ہونا، آپ کے اختیار میں بھی تو نہیں، اور یقین مانیے، راوی کہتا ہے کہ اس میں لالہ خٹک کا کچھ اختیار نہ تھا کہ وہ 5 مئی کو پیدا ہوئے… اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ یقینا 12 فروری یعنی Love ڈے کو اپنی پیدائش کے لیے منتخب کرتے مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا… سو 5 مئی کی ایک گرم صبح وہ خواہی نخواہی بس پیدا ہو گئے… گرچہ قدرے تاخیر سے…
تاخیر سے اس لیے کہ چار دن قبل پیدا ہوئے ہوتے تو سڑیل فیس بکی جو یوم مزدور پر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ مزدوروں کا رنڈی رونا، روتے نہیں تھکتے… وابستگان عارف خٹک، ان کے سامنے کم ازکم ایک مثال تو سامنے رکھتے کہ دیکھو ان کے محترم والدین کو اللہ کی طرف سے کیسی شاندار مزدوری ملی…سنہرے حسن کی صورت…!
جی ہاں آج کے لالہ کو ذرا تصور میں لائیے… انہیں ایک طرف بٹھائیے اور پھرتخیل کے کینوس کو وسیع کرتے، بیک گئیر لگاتے، کامل ساڑھے تین عشرے قبل اس مشک بار کمرے کا خیال تو لائیے جہاں ابھی ابھی ایک تازہ کلی چٹکی ہے…
دائی نے نہلا، نرم سفید تولیے میں لپیٹ، ایک سیاہ تل لگا کر ماں کی گود میں دیا ہے… اب تقدس (والدہ محترمہ) کی سیپ (گود) میں اک حسین موتی کو دیکھ کر ایمان سے بتائیے، کیا وہاں موجود سب جن و انساں نے دانتوں میں انگلی نہ داب لی ہو گی؟… سفید بادلوں کی طرح نرم گداز، نکھرا سا بدن… سنہرا رنگ ایسا جس میں گلاب کی پنکھڑیاں کسی نے گھول کر ملا دی ہوں…ارے کیا معصوم حسن ہو گا جس کی تابناکیوں نے ماں کے دل کو روشنیوں سے بھر دیا ہو گا…
اچھا اب اپنے تخیل کو قلانچیں بھرتے دوبارہ حال میں لے آئیے مگر اک ذرا تیزی سے…
کیوں کہ یہ تو ان کی پیدائش کے پہلے دن کا منظر تھا… اگر ان کے سولہویں سال کا منظر آپ نے تخیل کی آنکھ سے دیکھ لیا تو آپ اپنے حواس کھو کر گویا دیوانے ہو جاویں گے… بالکل پشاور کے سیٹھ سمندر خان کی طرح…
جی ہاں سیٹھ نے لالہ کو سولہ کے سن میں دیکھا اور اس الہڑ حسن کے دریا کو اور بہت سے نوخیز دریاؤں کی طرح حسب روایت اپنے سمندر میں اتارنے کو بے قرار ہو اٹھا… لالہ مگر کوئی عام ‘امرد’ تو نہ تھے… سولہویں برس میں بھی ایسے دبنگ اور پراعتماد تھے کہ برملا کہتے تھے: میں خربوزہ نہیں، وہ چھری ہوں…جس پر سمندر خان گرے یا پہاڑ خان، سب خود ہی ذبح ہو جاتے ہیں…
سنا پھر یہی گیا کہ بزعم خود گھاگ شکاری سمندر خان خود شکار ہو کر ہفتوں دنیا والوں سے منہ چھپائے پھرا اور پھر بہت جلد شرم کے مارے دنیا سے ہی پردہ فرما گیا…
خیر اب 38 کا سن ہے…جب نوکیلی گھنی مونچھوں میں کہیں کہیں چاندی چھلک پڑنے لگی ہے…مگر کم بخت شرارتی آنکھوں میں شرارت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی… ہر پل مسکراتی ان شربتی آنکھوں سے کسی شوخ ہرن کا بچ نکلنا ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے…
قصہ مختصر چند الفاظ میں کہا جائے تو وہ ایک کھلا بندہ، نہایت بے باک، نڈر اور دبنگ پٹھان ہے… یعنی مصلحت اور جھوٹے وقار کے نام پر ہر منافقت سے بیزار… عجیب بات یہ ہے کہ وہ واحد جنس کے موضوع پر لکھنے والا ہے، جس کو باقاعدگی سے پڑھنے والی بے شمار خواتین بھی ہیں اور بے شمار مولوی بھی… شاید اس لیے کہ ان کی کھلی ترین پوسٹس میں بھی شگفتگی کا عنصرغالب ہوتا ہے بہ نسبت فحش پن کے!
یہ وہ ان کا امتیاز ہے جو انہیں اپنے عہد کے دوسرے ‘منٹوز’ سے نمایاں کرتا ہے…
آخری بات… بظاہر ہر بات کو جوتی کی نوک پر رکھنے والے اس چھے فٹے کے سینے میں دھڑکتا دل… یقین کیجیے بے حد حساس ہے…عورت کا بے محابہ تذکرہ کرنے والا، یقین کیجیے…عورت کا بہت زیادہ احترام کرنے والا ہے!
میرے خیال میں اتنا تعارف بہت ہے… ویسے بھی چنبیلی کو تعارف کی ضرورت بھی کیا ہے…اس کی خوشبو آپ اس کا تعارف ہے…اور پھر جب چنبیلی چکنی بھی ہو!
لالہ محترم! اسی طرح جھیل سی گہری آنکھوں میں انوکھے سپنے سجائے جیتے رہیے… ہنستے کھلکھلاتے رہیے… اورکم ازکم ایسی پینتیس بہاریں اور دیکھیے کہ اس کے بعد کا بڑھاپا آپ پر بالکل نہیں سجے گا…
میں نے تواپنے عہد کے خیرہ کن حسن کا جب بھی بڑھاپا دیکھا ، خوفزدہ ہو گیا… اگر اللہ نے مجھے زندگی دی تو آپ کو ستر کے سن کے بعد ہرگز نہیں دیکھنا چاہوں گا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply