• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسس/کیاایف اے ٹی ایف،آئی ایم ایف سے سالانہ جھڑکیاں کھانا آسان ہوتا ہے؟۔۔اعظم معراج

اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارسس/کیاایف اے ٹی ایف،آئی ایم ایف سے سالانہ جھڑکیاں کھانا آسان ہوتا ہے؟۔۔اعظم معراج

ہر سال جب ہمارے تقریباً بارہ سو ممبران سینٹ،قومی وصوبائی اسمبلی کے آثاثہ جات کی تفصیلات الیکشن کمیشن کے زریعے یا پھر ایف بی آر ڈرایکٹری جو کہ عموما ًسالوں بعد ہی چھپتی ہے کہ  ذریعے منظر عام پر آتی ہے۔تو کھربوں پتی ممبران بامشکل ارب پتی اور اربوں پتی بامشکل کروڑ پتی اور کروڑوں پتی بامشکل لاکھ پتی اور لاکھوں پتی باظاہر مفلسی کی لیکر سے اتنے نیچے نظر آتے ہیں کہ ایک دففہ ہم کچھ دوستوں نے انھیں پانچ پانچ سو کےمنی آرڈر بیجنے کا پروگرام بطورِ چندہ بجھوانے کا پروگرام بنایا تھا جس پر سستی کی وجہ سے عمل درآمد نہ ہوسکا۔
ہر سال پیدا ہونے والی اس صورتحال کی ایک وجہ تو یہ ہے۔کہ ہر طرح کی اشرفیہ اکثر اثاثہ جات اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے نام اور زیادہ تر بے نامی جائیدادیں وغیرہ رکھنے میں بھی ماہر ہوتے ہیں دوسری جس تکنیکی خامی کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ زیادہ تر اثاثہ جات کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جو دی جاتی ہے۔ یا ایف بی ار کے گوشواروں میں جو ظاہر کی جاتی ہیں ایک تو وہ قیمت ہوتی ہیں اس وقت کی جب وہ زمین جائیداد خریدی گئی یا جب کسی کو وراثت میں ملی اور دوسرا جو تکنیکی سولہت انھیں حاصل ہوتی ہے۔ وہ ہے زمین جائیداد کی وہ قیمت جو حکومت نے مقرر کی ہوتی ہے۔مثلا کسی نے کوئی گھر یا پلاٹ دہائیوں پہلے پچاس لاکھ میں خریدا اسکی سرکاری قیمت اس وقت پانچ لاکھ تھی۔اب اگر وہ قیمت کروڑوں یا اربوں میں بھی پہنچ چکی ہے تو لوگ گوشواروں میں دکھاتے پانچ لاکھ ہی ہیں۔ جس سے تینوں بلکہ چاروں ریاستی ستونوں کے اہلکاروں کی اشرافیہ اور ان کے حواریوں اور ہوس زر کے دیگر پجاریوں کے اثاثوں کی تفصیلات جب عوام تک پہنچتی ہیں تو عام لوگوں میں اپنی اشرفیہ کے لئے غصے،نفرت اور حقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔کچھ حساس لوگوں اس رونے کے مقام کو ہنسی وتفریح طبع کے لئے بھی استعمال کرکے اپنا کھتارس کرتے ہیں۔ اس سے ایک تاثر معاشرے میں یہ جاتا ہے کہ جب ہماری اشرافیہ اتنی غلط بیانی کرنے کے باوجود باسٹھ تریسٹھ سے محفوظ ہے۔تو عام آدمی سے کیا گلہ۔یوں اشرافیہ کا یہ تاثر بد معاشیہ میں بدل جاتا ہے اور اشرفیہ چاہے بدمعاشیہ ہی ہو وہ ہوتی تو رول ماڈل ہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے مدت ہوئی اس معاشرے میں اشرفیہ نام کی چیز ناپید ہو چکی ۔
ایسے میں اگر کہیں قوم کی کردار سازی کی کوشش ہوبھی رہی ہوتو (خاکم بدہن) تو اس کو نقصان پہنچتا ہے۔ گوکہ ہمیں سود پر قرضے دینے والوں نے بھی اس تکنیکی مسلے کو حل کرنے کے لئے کئی بار ہمیں جبرا ماہرین بطورِ وزیر خزانہ اور دیگر مالیاتی اداروں کے سربراہان مثلاً گورنر اسٹیٹ بینک وغیرہ تحفتاء بھی دئے۔ہمارے کئی حکمرانوں نے مقامی گبر اور شبر بھی آزمائیں لیکن یہ چھوٹا سا مسلہ حل نہ ہوسکا کے حکومت کے ریکارڈ میں چند بیوقوف پاکستانیوں کو چھوڑ کر کسی پاکستانی کی زمین جائیداد کی قیمت وہ نہیں ہوتی جو اسکی مارکیٹ ویلیو ہوتی ہے۔ اب پتہ نہیں اس کام کے دہائیوں سے نہ ہونے کی وجہ متلقہ اداروں میں بیٹھے آفراد کی نااہلی ہے یا بدنیتی یا پھر دونوں فیکٹر ۔موجودہ حکمران اگر واقعی ہی ایسے کاموں میں بہتری چاہتے ہیں۔جسکے بغیر اب اقوام عالم عزت سے نہیں ذلت سے جینا بھی مشکل ہے۔ تو ایک سادہ سی تجویز ہے۔ جس پر صرف ایک انتظامی حکم نامے سے عمل درآمد کروایا جاسکتا ہے۔ اور اس کے ردعمل میں کوئی مافیا سڑکوں پر بھی نہیں آئے گی حکومت جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہاں اس حکم نامے سے ملک کے چپے چپے میں ایک بہت اچھا ماڈل معتارف ہوجائے گا۔

یہ تجویز یوں ہے کہ ایف بی آر یا الیکشن کمیشن ایک انتظامی حکنانامے سے ایوانوں میں بیٹھے ممبران اور ٹیکس پیر کو پابند کرے کے اپنے اثاثے جات ڈیکلیئر کرتے ہوئے اسکی اس سال کی مارکیٹ ویلیو ڈیکلیئر کریں اور اس قیمت کے لئے بطور تصدیق نامہ جس علاقے میں وہ زمین جائیداد ہے اس علاقے کے پٹورای رجسٹرار، تحصیل دار کی حدود میں دفاتر رکھنے والے تین ٹیکس پیر اسٹیٹ ایجنٹ حضرات کے سرٹیفکیٹ لگائیں۔اس سے حکومت اور متعلقہ اداروں کے پاس پاکستان بھر کے ہر علاقے سے زمین جائیداد کی حالیہ قیمتوں کے شفاف اور انصاف پر مبنی اعداد و شمار جمع کرنے کا خود کار نظام قائم ہوجائے گا جو ہر مالی سال میں کارامد ہوگا۔یہ نظام ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بھی کام آئے گا اسکے ذریعے بہت سارے منجمند اثاثوں کی حقیقی مالیات کا حجم بھی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ GDP gross domistic product) میں بھی شامل ہوجائے گا۔پھر جب کھی بھی اس زمین جائیداد کی خرید وفروخت ہوگی تو اسکی اس سال کی حقیقی مالیات پر ہی سرکار کو آمدنی ریونیو وصول ہوگا۔اس طرح بظاہر یہ چھوٹا سا انتظامی حکم نامہ(ایگزیکٹو آرڈرexecutive order ) پاکستان کے ٹیکس کلچر اور زمین جائیداد کی سرکاری قیمتوں کے تعین کے لئےخود کار نظام کو قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔باقی اگر حکومتی وزیروں مشیروں اور سرکاری بڑے اہلکاروں کو یہ کام مشکل لگے تو وہ وہ آسان کام کرتے رہے۔جو دہائیوں سے کر رہے ہیں۔یعنی بے شرموں کی طرح ہر سال آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اب ایف اے ٹی ایف سے جھڑکیاں اور زبانی جوتے کھانا وہ کرتے رہے انشاللہ ہم جلدی معاشی بحرانوں سے نکل کر اقوام عالم میں عزتِ سے جینا سیکھ جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اعظم معراج کی زیر اشاعت کتاب اسٹیٹ ایجنٹ کا کھتارس سے اقتباس

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply