بلوچستان میں ٹیلی کام ملازمین کا بہیمانہ قتل

 6 نوکری پیشہ لوگ، 6 مزدور ، 6 پرائیوٹ کمپنی کے ملازم ، 6 پنجابی یا 6 پاکستانی جس نام سے بھی خونی داستان لکھنے کی کوشش کروں ہر موضوع اپنی اندر وسعت بھی رکھتا ہے اور ظاہری و پوشیدہ حقائق بھی۔
آپ نے اپنی ڈی پی سیا ہ کی ہے یا نہیں آپ نے کچھ الفاظ ہمدردی کے اپنے سٹیٹس پر ڈالے ہیں یا نہیں میں آپ سے شکوہ نہیں کروں گا۔ کسی نے مزدور سمجھ کر حقارت کی ہوگی کچھ پنجابی سمجھ کر نظر انداز کرگئے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے ایسا نہیں ہو میری خام خیالی ہی ہو۔ سب نے پاکستانی سمجھ کر دل سوزانداز میں تعزیت بھی کی ہو اور عملی طور پر بھی کوئی قدم اٹھایا ہوگا۔
اگر مزدور سمجھ کر ہی نشانہ بنایا گیا تو مزدور تو ہر صوبے شہر دیہات میں پیٹ کی خاطر مزدوری کرتا ہے۔ کسی دوسرے صوبہ میں تو کسی بھی قومیت کے مزدورکو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ صرف بلوچستان میں ہی پنجاب کے غریب مزدور کا خون کیوں بہایا جارہا ہے۔
اگر پنجابی سمجھ کر ہی مارا گیا ہے تو تف ہے ایسے قاتلوں کے بند ذہنوں پر اور لعنت ہے ان کے سیاہ کار چہروں پر جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ فوج کی سربراہی کے عہدہ پر پنجابی پٹھان مہاجر سبھی براجمان رہے ہیں۔ چہرے بدلنے سے ملکی سالمیت کے لئے پالیسیاں نہیں بدلتی۔
ایک طرف پٹھان بھائیوں کو گمراہ کرنے کے لئے مہم زور شور سے جاری ہے۔ دوسری طرف سندھ اور بالخصوص کراچی میں لسانیت اور فرقی واریت کو ہوا دی جاتی رہی اور دی جارہی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو قومیت اور مسلک دونوں وجوہات کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ڈی آئی خان میں شاید ہی کوئی دن ہو جب مسلک کی بنیاد پر کوئی لاش نہیں اٹھی ہو۔ پنجاب کی آبادی سب سے زیادہ ہے اور وہاں کچھ اس طرح سے گیم کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہر پنجابی کے دل میں پٹھان مہاجر اور بلوچی کے لئے نفرت کی آگ سلگا دو۔ فرض کیجئے ایسا ہوتا ہے کہ پنجاب کے ہر شہر سے دوسری قومیت کے مزدوروں ، تاجروں ، صنعت کاروں بیوپاریوں کے جنازے دوسرے صوبوں میں بھیجے جارہے ہوں تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟
پھر بات یہی تک ختم نہیں ہوگی ہر شہر سے غیر قومیت کے جنازے نکل رہے ہونگے۔ ملک میں انارکی ہوگی عراق شام اور افغانستان کی طرح ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہوگا۔ یہی تو استعماری اور طاغوتی قوتوں کی دیرینہ خواہش ہے جو انشاءاللہ کبھی بھی پوری نہیں ہوگی۔
اطلاعات کے مطابق ایک موبائل کمپنی کے ٹاور کی تعمیر کے لئے مزورد اور ٹیکنیکل سٹآف وہاں بیس کیمپ میں رہائش پزیر تھا۔ انہیں وارننگ بھی دی گئی تھی کہ یہاں ٹاور نہیں لگائیں ورنہ مار دئے جاؤ گے۔
یہ مزدور ایسے ہی بلوچستان نہیں چلے جاتے موبائل کمپنیز یہ سائٹس چائینز کمپنیز کو نارمل سائٹس سے 100 گنا زیادہ قیمت میں کنٹریکٹ پر دیتی ہیں اور چائینز کمپنیز (وینڈرز) 90 فیصد منافع اپنےپاس رکھنے کے بعد 10 فیصد خرچ کرکے سب کون (سب کنٹریکٹرز) کو ٹاسک کے ساتھ ساتھ ایسا پریشر دیتے ہیں کہ سب کون مزدوروں کو دو سو یا تین سو زیادہ مزدوری کا لالچ دکے کر ان خطرناک ایریاز میں تن و تنہا اور بے یارو مددگار چھوڑ دیتی ہیں۔ تصویر میں پہاڑی پر زیر تعمیر ٹاور دیکھا جا سکتا ہے
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے واقعہ کی صورت میں انشورنس کا ایک روپیہ بھی نہیں ملتا بلکہ یہ وینڈر اور سبکون کمپنیز انہیں اوون بھی نہیں کرتی یعنی کمپنی کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے بھی مکر جاتی ہیں۔ اس کا مقصد انشورنس سے بچنا، پولیس کاروائی سے جان چھڑانا، ایچ ایس سی (HSE) کے قوانین کی خلاف ورزی کرکے بین یا بلیک لسٹ ہونے سے بچنا اور کمپنی کی شہرت پر دھبہ لگنے سے بچانا جیسے حیلے اور مکر شامل ہوتے ہیں۔
جب ان 6 افراد کو شہید کیا گیا اور ساتویں فرد کو صرف زخمی کیا گیا تو حملہ آوروں نے اصرار کیا کہ تم لوگ ٹآور لگانے کا بہانہ کررہے ہوں تم لوگ فوج کے آدمی ہو۔ میں اس فقرے کے مثبت پہلو کی طرف جاؤں گا کہ وہ جان بوجھ کر یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ وہ فوج کے دشمن ہیں اور پاکستان سے بغاوت کررہے ہیں۔ عالمی منظر عام پر یہ بات سامنے آئے کہ بلوچستان کے لوگ فوج کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
اس گاؤں کے افراد کا تذکرہ نا کرنا زیادتی شمار ہو گی جن کے تعاون اور بھائی چارگی کا اعتراف زخمی مزدور نے کیا۔ چند عناصر کے علاوہ باقی بلوچ عوام میں احساس محرومی ضرور ہو سکتا ہے لیکن پاکستان سے نفرت نہیں۔
حکومتی اداروں سے درخواست ہے کہ جہاں سیکورٹی پر مزید توجہ کی ضرورت ہے وہاں ایسی تمام پرائیوٹ کمپنیز کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ سیکورٹی ، انشورنس، میڈیکل اور دیگر سہولیات کے بغیر اپنے ملازمین کو قربانی کا بکرہ نہیں بنائیں۔ اگر ان قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی ہو تو ایسی کمپنیز کو نا صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں کام کرنے سے روک دینا چاہیئے۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply