عصر حاضر کی طلبہ تنظیمیں اور پاکستان

عصر حاضر کی طلبہ تنظیمیں اور پاکستان
نعمان علی ہاشم
دو سال قبل انہی دنوں میں نےفجر سے قبل راولپنڈی فیص آباد اڈے سے ایک بس میں گوجرانوالہ کی جانب سفر شروع کیا۔کھاریاں کے قریب سات بجے سے کچھ اوپر کا وقت ہوا تھا۔ چند کالج کے طلباء بس میں چڑھ دوڑے ۔ میں ڈرائیور کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ بس میں داخل ہوتے ہی طلبہ، ایک طلبہ تنظیم کے سٹیکرز بس کی سیٹوں پر چپکانے لگے۔
ڈرائیور نے منع کیا تو میری سیٹ کے ساتھ کھڑے طالب علم نے ایک غلیظ گالی بکتے ہوئے اپنے والد سے بڑی عمر کے ڈرائیور کو خاموش کروا دیا۔ گجرات کے قریب پہنچ کر طلباء ضد کرنے لگے کہ انہیں شہر کے اندر اتارا جائے۔ ڈرائیور نے کہا ہمارا روٹ نہیں چالان ہو جائے گا. مگر طلباء پھر گالیاں بکنے لگے. ڈرائیور نے منت سماجت کرنا شروع کی۔ مگر طلباء نے بس توڑنے کی دھمکی دی۔ مجبوراً گاڑی گجرات شہر کی جانب چلا دی۔ ان کے اترنے کے بعد بس کی سیٹ پر لگے اسٹیکرز پڑھنے لگا جس پر عشق رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم کے نعرے درج تھے۔ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سوچنے لگا اسوہ رسول صلی الله عليہ و آلہ وسلم ان سے کتنا دور ہے۔
گجرات شہر سے واپسی پر ٹریفک پولیس نے آن لیا اور چالان کر دیا ۔گاڑی میں بیٹھے مسافروں کو بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ۔ایک دن میرے ایک دوست اپنے چند دوستوں کے ہمراہ مجھ سے ملنے آئے ۔ ان میں ایک بڑی طلبہ تنظیم کے ضلعی ذمہ دار بھی تھے۔ میں نے تنظیم کی خدمات کا پوچھا۔ درس قرآن کے علاوہ کچھ بھی ایسا نہ گنوا سکے جس کی تعریف کی جائے۔
ساتھ بیٹھے ایک دوست بولے : ویسے طلبہ تنظیموں کا رعب کافی زیادہ ہوتا ہے۔ بس پھر اس کے بعد “رعب داب ” کے ایسے ایسے قصے سننے کو ملے جن کی نظیر نہیں ملتی ۔ خیر ایک گھنٹے کی ملاقات میں مجھے شرمندگی کا احساس ہوا کہ میں ان جیسے طالبعلموں سے ملا۔
کالج کے زمانہ میں کالج کینٹین میں طلبہ تنظیم کے کارکنان کو سگریٹ نوشی کرتے بھی دیکھتے رہے ۔کالج کے ابتدائی دنوں میں مجھے بھی طلبہ تنظیموں کا کارکن بننے کا شوق تھا۔ مگر جب کبھی کسی تنظیم کے خوبصورت سلوگن کو دیکھ کر اس میں شمولیت اختیار کرتا تو کچھ ہی دن بعد خاموشی سے علیحدگی اختیار کر لیتا۔بہت سی طلبہ تنظیموں میں رہتے ہوئے میں نے کسی ایک بڑی طلبہ تنظیم کو راہ راست پر نہیں پایا. جو کوئی بھی کچھ اچھا کرنے یا اچھی نیت کے ساتھ میدان عمل میں آئے تو پہلے سے موجود تنظیمیں اسے سر اٹھانے نہیں دیتیں۔ کالج کی سطح پر تو ایسی کوئی تنظیم ابھی تک نظر سے نہیں گزری جو اپنے نصب العین کے ساتھ میدان عمل میں کھڑی ہو۔ اور بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہو۔
کوئی عشق نبی صلی الله عليہ و آلہ وسلم کا نعرہ لیے، کوئی اسلامی نظام کا جھنڈا لیے۔۔۔کوئی سیکولر ازم اور سوشلسٹ نظام کا پرچار کرتے کالجز اور یونیورسٹیز میں اپنی اپنی طاقت کے مطابق غنڈا گردی میں ملوث ہیں۔ یونیورسٹیز لیول پر ایک دو نئی تنظیموں کا کام قابل تحسین ہے مگر پرانی سبھی تنظیمیں اپنے نصب العین سے بہت دور جا چکی ہیں۔ میڈیا پر آئے دن ملک کی نامور یونیورسٹیوں کے متعلق خبریں آتی رہتی ہیں ۔ جن میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سرفہرست ہے ۔ یہاں سال میں تین سے چار دفعہ خونیں جھگڑے ہوتے ہیں ۔ اس میں کئی طلباء اور دیگر افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی سے بھی ایسے واقعات میڈیا پر آتے رہتے ہیں جن میں طلبہ تنظیموں کے جھگڑوں میں کئی دفعہ لوگ جان سے چلے جاتے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں چار سال پہلے دو اسلامی نظریاتی جماعتوں کی لڑائی میں پانچ قتل ہو گئے تھے۔
ہماری طلبہ تنظیموں میں برداشت کا مادہ ناپید ہو چکا ہے۔ ہم اداروں میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اپنے اندرونی معاملات کی اصلاح کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ نصب العین کی جگہ اسٹیکرز کافی سمجھتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں طلبہ تنظیموں کی پہچان ہی غنڈا گردی رہ گئی ہے ۔
تحریک پاکستان میں طلبہ کی روشن تاریخ شاید صرف کتابوں کے لیے تھی۔ تعمیر پاکستان میں طلبہ تنظیموں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انجمن حمایت اسلام جیسے جذبے رکھنے والے طلباء شاید ناپید ہو چکے۔پوری دنیا میں طلبہ تنظیموں نے انقلابی اقدامات کر کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا مگر افسوس کہ ہماریطلبہ تنظیموں کے پاس اس وطن کو غنڈوں کے سوا دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے. اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ طلبہ تنظیموں کے ان رویوں کو روکنے کے لیے نہ تو ان تنظیموں کے اکابرین کے پاس پالیسی ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے ان کے لیے کوئی اقدامات کیے۔
طلباء کے کرائے کو معاف کرکےبھٹو صاحب نے شاید ان کے لیے غنڈا گردی کو تقویت پہنچائی ۔ گو کہ اب یہ قانون ختم ہو گیا مگر پھر بھی جس کسی بس سٹاپ پر دس طلباء کھڑے ہوں اور بس میں سوار ہو جائیں تو کرایہ طلب کرنے کی خواہش بھی جرم ہے۔ اور ان سورماؤں کے ناز و نخرے ڈرائیور اور بس کنڈیکٹر کو مفت میں برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
ہمارے کالجز میں نیشل ایکشن پلان کے دوران بھی ایسی تنظیموں کے سربراہان اور کارکنان اسلحہ لاتے رہے ۔ کسی میں ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کہ جہاں قلم کی اجازت ہے وہاں اسلحہ کیوں؟ ۔ تعلیمی اداروں میں موجود یہ لوگ آئے دن اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ مگر کوئی بھی ادارہ ان کی اس بے راہ روی کے آگے بند باندھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ تنظیمی لڑائیوں میں قتل ہونے والے طلباء کے والدین کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے بیٹے کا قتل کیوں کیا گیا۔ پہلے تو اپنے رویوں کے باعث اپنے کارکنان کے قتل کےذمہ دار بنتے ہیں بعد میں یہی لوگ احتجاج کر کے تعلیمی اداروں اور شہروں کا سکون برباد کرتے ہیں۔طلبہ تنظیموں کے اس کردار پر جہاں بہت سے سوال اٹھتے ہیں وہی حکومتی اقدامات پر بھی شکوے بجا ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنا طلبہ کا ونگ اور طلبہ تنظیم رکھتی ہے۔ اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ان قوم کے معماروں کو ناکارہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ اپنی پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے ہر سیاسی جماعت اپنے اچھے برے کارکنان کو تحفظ دیتی ہے۔ اور شاید دانستہ غیر دانستہ اس ظلم کا بازار گرم کرنے کی اجازت بھی۔ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کا داخلہ فارم پُر کرتے وقت پہلے ہر طالب علم اس بات کا حلف اٹھا کر دستخط کرتا ہے کہ کسی سیاسی سرگرمی اور تنظیم کا حصہ نہیں بنے گا۔
کالج ،یونیورسٹی سے لے کر ریاست کے آئین تک ہر جگہ قانون کی مخالفت اور ریاست کو چیلنج کرنے میں طلبہ تنظیمیں پیش پیش ہیں مگر کسی قسم کے اقدمات کرنے کے متعلق شاید حکومت سوچنے کو تیار نہیں ۔
۔

Facebook Comments

نعمان علی ہاشم
کالم نگار بننے کی مسلسل کشمکش میں ہیں۔ امی ڈاکٹر اور ابو انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے کالج سے راہ فرار لی اور فیس بک سے باقاعدہ دانشوری شروع کر دی۔ اب تک چند اخباروں میں مہمان کالم چھپ چکا ہے۔ مگر کسی نے مستقل قبول نہیں کیا. قبول سے یاد آیا کسی نے ابھی تک قبول ہے قبول ہے قبول ہے بھی نہیں کیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply