نعمان علی ہاشم
کالم نگار بننے کی مسلسل کشمکش میں ہیں۔ امی ڈاکٹر اور ابو انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے کالج سے راہ فرار لی اور فیس بک سے باقاعدہ دانشوری شروع کر دی۔ اب تک چند اخباروں میں مہمان کالم چھپ چکا ہے۔ مگر کسی نے مستقل قبول نہیں کیا. قبول سے یاد آیا کسی نے ابھی تک قبول ہے قبول ہے قبول ہے بھی نہیں کیا
تھر کے گھر گھر تک۔ اگلی صبح تھر کے صحرا میں ہمارے لیے ناشتے میں دہی ،شہد آملیٹ اور تندوری پراٹھوں کا انتظام تھا۔زبردست سے ناشتے کے بعد ہم نے اسلام کوٹ کی جانب سفر شروع کیا ۔۔۔ ہمارے گائیڈ← مزید پڑھیے
“گھر سے تھر تک”۔ یہی کوئی سال دو سال پرانی بات ہے جب دل نے خواہش کی تھی کہ تھر بھی دیکھنا چاہیے مگر جیب نے آنکھیں دکھاتے ہوئی یاد کروایا کہ بیٹا”پہلے منہ تو دیکھ لو،تھر بھی دیکھ لینا← مزید پڑھیے
یہ رمضان کے آخری عشرے کی بات ہے ۔۔۔ اعتکاف کے لیے مسجد میں تھا۔افطاری کے ساتھ گھر سے اکثر بھتیجا حسنین بھی آ جاتا تھا۔ اور پھر نماز مغرب تک کچھ ہنسی مذاق کر لیا کرتا تھا۔بھتیجے حسنین کی← مزید پڑھیے
تاریخ لکھنے والے کی روشنائی تو عام ہی ہوتی ہے۔ مگر کچھ باب ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم سنہری باب کہتے ہیں۔اس سنہری باب کو لکھنے والے اور اس باب کا حصہ بننے والے واقعتاً سونا ہوتے ہیں۔ تاریخ ایسے← مزید پڑھیے
عصر حاضر کی طلبہ تنظیمیں اور پاکستان نعمان علی ہاشم دو سال قبل انہی دنوں میں نےفجر سے قبل راولپنڈی فیص آباد اڈے سے ایک بس میں گوجرانوالہ کی جانب سفر شروع کیا۔کھاریاں کے قریب سات بجے سے کچھ اوپر← مزید پڑھیے
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وجہء تخلیقِ انسان خدائے بلند و برتر کی عبادت اور اس کے احکام کی پیروی ہے۔ اللہ رب ذوالجلال کو یہ بات قطعی پسند نہیں کہ اس کی زمین پر اسی کا← مزید پڑھیے