بیدار قوم کا سویا ہوا شعور

دو دن سےقادیانی, اہل یہود و ہنود اور نصاریٰ سمیت دیگر غیر مسلم اقوام پاکستانی مسلمانوں کا احتجاج و بائیکاٹ برائے پھلاں اور پھل فروشاں کی فیسبکی تحریک دیکھ کر رج کر محفوظ ہورہے ہوں گے اور آپس میں ایسے محو گفتگو ہوں گے کہ۔۔۔۔۔۔۔دیکھو یہ مسلمان بلخصوص الباکستانی مسلمان جو فیسبک کی ایجاد سے بھی پہلے سے اپنے پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہماری مصنوعات کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں مگر ہمارے خریدار یہاں کم ہونے کے بجائےگزشتہ سالوں میں کئی گنا زیادہ ہوگئے ہیں۔اتنے سالوں میں ایسا ایک دن نہیں گزرا جب ہم نقصان میں گئے ہوں یا ان کے احتجاج اور بائیکاٹ نے 1فیصد بھی کامیابی حاصل کی ہو، کسی ایک چھوٹےسے محلے میں بھی۔اور تو اور جن اسلام پسند اور وطن پرست مسلمانوں اور ان کے مولویوں نے یہ احتجاج اور بائیکاٹ متعارف کروایا اور جن کی زبانیں جمعہ و عیدین پر اس احتجاج اور بائیکاٹ کے فائدے اور اسلامی پہلو بتا بتا کر تالو سے چپک گئیں وہ خود بھی اس پر عمل پیرا نہیں ،اور اپنے مہمانوں کی تواضع غیر مسلم و غیر ملکی مصنوعات سے اس جملے کے ساتھ کرتے ہوئے نظر آئے کہ ہی ہی ہی۔۔۔ جناب کیا کریں ،یہاں کوئی پاکستانی مصنوعات دستیاب ہی نہیں دکان پر، جس سے ہم آپ کی تواضع کرکے اپنا احتجاج اور بائیکاٹ کامیاب بنا سکیں یقیناً وہ ہنس رہے ہوں گے اور اسی طرح کی گفتگو کرکے محفوظ ہورہے ہوں گے۔

کیا وجہ ہے کہ ہمارا دانشور جب ہمارے زوال پر کچھ تحریر کرتا ہے تو اس کا اولین جملہ ایسا ہوتا ہے کہ اسلام کو اور مسلمانوں کو اتنا نقصان غیر مسلم اقوام نے نہیں پہنچایا جتنا خود مسلمانوں نے ایک دوسرے کو پہنچایا ہے۔بیشک یہ بات سو فیصد درست ہے اور اس سے انکار نہیں مگر ایسا کیوں ہے؟اب یہی دیکھ لیں کہ دو چار روز قبل فیسبک پر کسی نے غیر معروف اور غیر مستند آئی ڈی سے ایک تحریر پھل فروشوں کے خلاف بنائی اور ساتھ ہی تین روزہ احتجاج اور بائیکاٹ کی پھلجھڑی چھوڑ کر اس تحریر کو معروف و مقبول گروپس اور پیجز پر وائرل کیا اور حسب معمول اس بھیڑوں کی ریوڑ قوم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کوئی عقلی و منطقی دلیل تلاش کیے بغیر بس ایک جذباتی تحریر پرھ کر احتجاج اور بائیکاٹ والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئی۔کیا گارنٹی ہے کہ اس قوم کا مزید مذاق بنانے کی خاطر یہ قومی و ملکی فتنہ کسی غیر مسلم و غیر ملکی فرد یا ادارے کی اختراع نہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ہمارے مسلمان کا دس بیس روپے کا فراڈ اس کافر کے براہ راست ہزاروں لاکھوں کے فراڈ سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے؟کیا برانڈکانشس قوم کا پھل فروشوں کے خلاف احتجاج جائز اور اخلاقی ہے؟کیا یہ قوم ملٹی نیشنل کمپنیز کی مصنوعات کی فکس اور آؤٹ آف رینج قیمتیں ادا کرتے وقت مہنگائی اور گرانفروشی کے سبق بھول جاتی ہے؟کیا ہم ایسی قوم ہیں جو بیدار ہے لیکن جس کا شعور گہری نیند سو چکا ہے؟ کیا ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہمیں کیا کرنا ہے ،کب اور کس لیئے کرنا ہے اور کس کے خلاف کرنا ہے؟۔۔۔ہمیں سفر کی سوجھ بوجھ ہے لیکن درست سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ایسے حالات میں ہمارے دانشور اور صاحب علم افراد اس قوم کا شعور جگا کر درست سمت کی طرف رہنمائی کیوں نہیں کرتے؟آخر کب یہ قوم بھرپور انداز میں جاگے گی کہ اس کے بائیکاٹ اور غیض و غضب کا نشانہ اس کے اپنے لوگ نہیں بلکہ اصل ذمہ داران ہوں گے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply