مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے

ہم میں سے جو لوگ سوشل میڈیا کی بجائے اپنے گھروں میں پل بڑھ کر جوان ہوئے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب کسی سگھڑ گھرانے میں نئے مہمان کی آمد ہوتی ہے تو اتنی توجہ اس نئے مہمان پر نہیں دی جاتی جتنی اس سے بڑے بہن یا بھائی پر دی جاتی ہے، کیونکہ اس نئے مہمان کی آمد سے جہاں بڑے کی لاڈلی پوزیشن خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے وہیں وہ توجہ کی کمی سے احساس کمتری میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ ہر طرح کی احتیاط کے باوجود بچہ بعض اوقات ایڈجسٹ نہیں ہوپاتا اور قابل اعتراض حرکتیں کرتا ہے، مار پیٹ کرتا ہے، بدتمیزی کرتا ہے۔ اس کے جواب میں اسے نافرمانی یا گستاخی کا لیبل لگا کر جائیداد سے عاق نہیں کردیا جاتا بلکہ اس کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے پیار سے سمجھایا جاتا ہے، توجہ کی کمی کا ازالہ کیا جاتا ہے اور احساس دلایا جاتا ہے کہ تمہیں اب ذمہ دار بننا چاہیے کیونکہ تم اس گھرانے کے بڑوں میں شمار ہونے لگے ہو اور اس طرح نئے آنے والے سے اس بچے کی مانوسیت بڑھائی جاتی ہے۔
“ریاست ہو گی ماں کے جیسی” کی مالا جپنے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عوام ریاست کی اولاد ہوتی ہے اور اولاد کیسی بھی ہو، ماں ان کی بھلائی چاہتی ہے۔ اولاد آپس میں جھگڑا بھی کرے تو امن سے صلح سے معاملے کو رفع دفع کراتی ہے۔ہم سب پر پچھلے ہفتے مولانا لدھیانوی کا جو انٹرویو نشر کیا گیا اس نے عوام کی اکثریت کے اذہان میں موجود نظریاتی چپقلش کو عیاں کردیا۔ ایک طرف وہ سوچ ہے جو محض نیت پر قیاس کرکے جنت اور جہنم کے نہ صرف فیصلے سناتی ہے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، ان پر فوری عمل درآمد کروا کے اپنے تئیں معافی اور رجوع کے دروازے جلد از جلد بند کروانے کی حامی ہے لیکن ان کی جانب سے بشری خطا اور معافی کے امکانات و درجات پر ایسی خامہ فرسائی کی گئی کہ ہر عاصی معصوم معلوم ہونے لگا۔ دوسری جانب تھی وہ سوچ جو آزادی اظہار رائے کے نام پر اکثریت کے جذبات کوٹھیس پہنچانے کے عمل کو نہ صرف ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کی حامی ہے بلکہ ایسے کسی واقعے کے بعد معافی و تلافی اور درگزر کے سب سنہرے اصول بھی یاد آجاتے ہیں لیکن اب کی بار انہوں نے قصاص کے بارے میں ایسے دلائل کے انبار لگائے کہ کوئی سخت گیر قاضی القضاۃ بھی کیا دے گا۔ بہرحال مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے، خدائی کاموں میں کون بول سکتا ہے۔
بات محض اتنی ہے کہ ہمیں سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آج سے تیس چالیس برس قبل ہوا کیا تھا۔ اس کے محرکات کیا تھے۔ جدید ریاستی نظریے میں کوئی بھی ریاست اپنے اصل مفہوم میں مذہبی یا کم از کم اسلامی ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ سو بش افغان حملے کے لیے صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کرے یا ضیاء الحق افغان جہاد کی اصطلاح گھڑے، مذہب کو اپنے اپنے مفادات کی کھیر میں کھوئے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ روس امریکہ سرد جنگ کو افغانیوں کے لہو سے گرمانے کے لیے ایک بیانیے کی ضرورت تھی۔ وہ بیانیہ سعودی عرب و ہمنوا کی مدد سے پاکستان میں مینو فیکچر کر کےلدھیانوی اور اسی قبیل کے دیگر افراد کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔ وہ لوگ من و عن وہی کرتے رہے جو ریاست کو مطلوب تھا اور ریاست اور معاشرے کے ہیرو رہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ گزشتہ سالوں میں یکایک معتوب کیوں ہوگئے؟۔۔۔ معتوب وہ اس لیے ہوئے کہ ہم نے مغربی مشینوں پر پلانٹ کیا ہوا برانڈ نیو بیانیہ امپورٹ کر لیا جس سے یک دم پرانے بیانیے والے بیک فٹ پر چلے گئے اور وہی حرکات شروع کر دیں جو توجہ سے محروم بچہ کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ریاست کھلے عام اپنی خطا تسلیم کرتی یا پھر ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انہیں نئے بیانیے کے ساتھ مانوس کرواتی، ریاست نے ان کو اپنی بندوق کی نوک پر رکھ لیا۔ اس طرح جو توجہ اور عوامی اہمیت وہ چاہتے تھے وہ انہیں حاصل ہوگئی۔ اسی شہہ پر انہوں نے رسوخ اور دائرہ کار کو وسیع تر کر لیا۔ بات اب عاق کرنے تک آپہنچی ہے۔ تو کچھ انہیں بھی ہوش آئی ہے۔ وہ بھی ٹھٹھکے ہیں۔
یاد رکھیے کہ آپ نے انہیں عاق کرکے گھر نکالا بھی دے دیا تو محلے اور معاشرے میں وہ بہرحال آپ کے نام سے ہی جانے اور پہنچانے جائیں گے۔ آپ لاکھ اشتہار دیں کہ ان عاقبت نااندیشوں سے احقر کا کوئی تعلق نہیں، وہ آپ کے نام سے ہی منسوب رہیں گے اور آپ ہی کی بدنامی کا باعث بنیں گے۔ انہیں گھر میں دفنانے کا خطرہ مول اس لیے نہیں لے سکتے کہ موت حمایت پیدا کرتی ہے اور گھر کے مکینوں کو وہ وقت بھی یاد ہے جب ان کی اسی قسم کی حرکتوں پر انہیں والدین سے باقاعدہ شاباشی اور انعام ملتا تھا۔ واحد حل یہی ہے کہ انہیں سپیس دیں،، گھر سے نکالے جانے اور ممکنہ تنہائی پر جو خوف انہیں پیدا ہوا ہے اس کا بروقت استعمال کریں اور انہیں گھر کا مفید اور کارآمد حصہ بنائیں۔ اسی میں گھر کی بقا بھی ہے اور آبرو بھی۔ خون بہت بہہ چکا۔ بہت سا بہنا ابھی باقی ہے۔ جہاں خون ریزی سے بچنے کا موقع ملتا ہے اسے غنیمت جانیے اور انا کا معاملہ مت بنائیے۔ لدھیانوی، ہود بھائی، شیرانی اور کائرہ کو اکٹھے بٹھائیے اور مکالمے کو فروغ دیجیے۔ ایسا نہیں کر سکتے تو ایسا کرنے والوں کی مدد کیجیے۔ اس دکھیارے معاشرے میں سینے دہک رہے ہیں اور نفرتیں عروج پر ہیں۔ اسے بات چیت، برداشت اور مسکراہٹ سے ٹھنڈا کیجیے۔ ایسا معاشرہ تشکیل دیجیے جہاں اذان کی آواز بھی ہو اور مندر کی گھنٹی بھی۔ جو جیے دلیل پر جیے اور جو مرے دلیل پر مرے۔

Facebook Comments

احسان الحق
خواب دیکھتے ہیں اور اسے حقیقت میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی فصل گل کے منتظر و متمنی ہیں جسے اندیشئہ زوال نہ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply