بس یہی کسر تھی۔۔رابعہ احسن

شاید یہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے لیکن اب احساس زیادہ ہوتا ہے کہ رشتوں کی بنیاد ان کے تقدس، مان اور محبت پہ ہی رکھی جاسکتی ہے جہاں پر رشتوں سے یہ مان ، تقدس اور باہمی رواداری ختم ہوتی ہے ان کے سانس گھٹنے لگتے ہیں۔ گرانٹڈ لئے جانے کی بھی کوئی تو حد ہوتی ہے ۔ ہر تعلق اپنی ہئیت رکھتا ہے اور حیثیت بھی اور کاش کہ ہم قائم شدہ رشتوں کو ان کی ہیئت اور حیثیت کے ساتھ نبھاہ سکیں تو ہماری اقدار پوری زندگی سے قائم رہ سکیں۔

کبھی اگر ٹائم مل ہی جائے اور ٹی وی آن کرکے پاکستانی ڈرامہ دیکھنے کی کوشش کی جائے جو کہ ہمیشہ سے میرا فیورٹ ترین رہا ہے لیکن افسوس ساری ڈرامہ انڈسٹری سالی بہنوئی کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑگئی ہے مطلب افئیر ہی چلانا ہو یا عشق ہی کرنا ہو تو اور بڑے لوگ مل جاتے ہیں یہ ہر ڈرامے میں لڑکیوں کو بہنوئیوں کے پیچھے لگا کےکیا ثابت کیا جارہا ہے کہ بہن کا رشتہ اتنا ارزاں ہے اتنا ناپائیدار ہے کہ آجکل ہر لڑکی کو اپنے بہنوئی سے سوکالڈ عشق ہوجاتا ہے ۔ پھر صورت حال اگر خاموش عشق تک ہی رہتی تو بھی سمجھ میں آتا ہے کہ بہر حال عزت ، مان ، رشتے اور احساسات ہی ہم انسانوں کی اصل بنیاد ہیں اور پھر اسلام نے جن رشتوں کو نامحرم قرار دے دیا ہم ان پر اپنے ماڈرنزم اور ہندوازم کے جوائنٹ فیملی سسٹم کی جتنی بھی دلیل کرلیں یہ رشتے نامحرم ہی رہیں گے اور ان کی ہئیت کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتی ۔

لیکن افسوس کا انتہائی مقام تو ادھر سے شروع ہوتا ہے جب سالی اپنے بہنوئی کو حاصل کرنے کیلئے سازشوں کا نہ ختم ہونے والا جال بُنتی ہے مطلب یہ کانسیپٹس ، یہ سازشیں سامنے لاکے دیکھنے والوں کو دکھایا جارہا ہے کہ ان فضولیات کا حصول اب ایسا ناممکن بھی نہیں بس چند سازشیں کریں اور پھر کمال دیکھیں ۔ بہنوئی آپ کے قدموں میں ۔ اور سب سے بڑا کاٹھ کا الو تو مرد کو بنایا جاتا ہے ۔ ویسے اس میں کوئی خاص شک بھی نہیں کہ مرد اپنی تمام تر ذہانت کی حتمی شکل کے باوجود جتنی  آسانی سے سازشوں میں گِھر جاتا ہے عورت اس کے مقابلے میں شاید تھوڑی بہتر ہے یایہ محض میرا اندازہ ہے۔

خیر جب قسمت یا دماغ میں سے کوئی بھی خراب ہو تو کچھ بھی رونما ہوسکتا ہے۔

لیکن دکھ تو اس بات کا ہے ہمارے معاشرےمیں رشتوں کی بدصورتی کی وہ صورت دکھائی جارہی ہے جو فی الواقع ہم نے تو زندگی میں کہیں دور دور تک نہیں دیکھی ۔ ہاں اگر یہ حرکتیں مرد کرتے ہوئے دکھائے جاتے تو حیرت نہ بھی ہو مگر ہمارے ہاں تربیت کا یہ معیار تو بالکل بھی نہیں کہ لڑکیوں کی بہنوئیوں سے عشق، محبت ہو جائے یا پھر بہنوں کے ساتھ انتقام اس حد تک پہنچ جائے کہ خدانخواستہ بہن کی موت ہی واقع ہوجائے۔

اس سب میں ہمیں اندازہ بھی نہیں ہورہا کہ ان ڈراموں کے ذریعے کتنے لاکھوں امیچور ذہنوں تک اس انتہائی فضول ترین عشقیہ کانسیپٹ کو رسائی دی جارہی ہے۔ آرٹ میں انسانی معاشرے کی بدصورتیوں کو پینٹ کرنا حقیقی آرٹ سمجھا جاتا ہے اور آرٹ کی کوئی بھی قسم حقیقت ہی کی مبالغہ آرائی ہو تو زیادہ قریب لگتی ہے سو لکھنے والوں نے کیا کیا نہیں لکھا ۔ معاشرے کی کونسی بد صورتی سامنے نہیں آئی اور آنی بھی چاہیے کہ پردہ ڈالنے سے مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ تہوں کے نیچے بری طرح سلگتے رہتے ہیں ۔
لیکن وہ برائیاں جو سرے سے ناپید ہیں انھیں کیوں آرٹ کا جزو بنایا جارہا ہے غلط کانسیپٹس کیوں پھیلائے جارہے ہیں ۔؟

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے تھرڈ کلاس ڈرامے کدھر سے پیدا کئے جاتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں آج وہ وہ برائی ہے کہ آنکھ اٹھتے ہی تکلیف سے بند ہوجاتی ہے مگر وائے حیرت کہ ان پہ سب کو چپ لگی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ گھریلو سیاستیں جو ہم نے سراسر ہمسایہ ممالک سے لیکر کے اپنے ڈرامے میں انڈیلی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان سیاستوں اور سازشوں سے بہت پالا پڑتا رہتا ہے پتہ نہیں ہمارا معاشرہ تھا ہی اتنا سازشی یا پھر یہ سالہا سال کے انڈین ڈراموں کے اثرات ہیں مگر اب گلہ کیا کہ ہمارا میڈیا بھی بس یہی سب دکھا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے رشتے ہمارے لئے بہت مقدس ہیں ۔ آج بھی ہمارے ہاں جیٹھ ، بہنوئی کو باپ اور بھائی کی جگہ سمجھا جاتا ہے وہ بھلے سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر لڑکیوں کو یہی تربیت دی جاتی ہے تو پھر یہ بہنوئیوں سے عشق والی افتاد اتنی تیزی سے کیوں بپا ہورہی ہے ۔ پیمبرا کبھی کبھی ڈرامہ ختم ہونے کے بعد بین لگا دیتا ہے لیکن ایسے بے سر پیر ڈرامے سوچنے والے کمرشلائزڈ ذہن کہیں باز آکے نہیں دے رہے ۔افسوس کہ عوام بھی پورے ذوق و شوق سے دیکھ کے ریٹنگ بڑھاتی ہے غرضیکہ اس سب کا کوئی انت ہے ہی نہیں۔

Facebook Comments