1994 کا اسپیشل اسکول اور میکس ویل/مدثر اقبال عمیر

سنہ 1994 میں فدوی اسپیشل اسکول کویٹہ کی جماعت دہم بی کا ایک طالب علم تھا۔ہماری کلاس اسی بیاسی یا شاید 85 بچوں پہ مشتمل تھی ۔خاکسار اگلی بنچوں کا شریف النفس ،شرمیلا ،پڑھاکو بچہ تھا ۔جسے بیک بنچر بننے کا شدید شوق تھا لیکن بیک بنچر کی جملہ خصوصیات میں سے ایک بھی خوبی کا حامل نہیں تھا لہذا تیس چالیس بیک بنچرزکو حسرت سے دیکھا کرتا تھا۔

انہی دنوں  بڑیچ صاحب اسپیشل اسکول کے پرنسپل بنے اور ایک سرکاری اسکول غیر نصابی سرگرمیوں کے لحاظ سے کیڈٹ کالج بن گیا ۔انھوں  نے ایک شاندار اسپورٹس گالا منعقد کیا ۔فدوی کی صحت صرف کرکٹ اور بیڈ منٹن کھیلنے کی اجازت دیتی تھی ۔بیڈ منٹن میں تو دوسرے میچ میں ہی باہر ہوگئے (ہونا تو پہلے ہی میچ میں تھا لیکن پہلے میچ کے حریف نے زندگی میں پہلی دفعہ بیڈمنٹن کھیلا تھا،ہمارے جیتنے کی وجہ یہ بنی کہ اس نے ہم سے زیادہ شٹل باہر پھینکی)۔
کرکٹ کپتان ہمارا” ڈیسک ہمسایہ” تھا ۔اس نے حقوق ہمسائیگی کا لحاظ رکھتے ہوئے بطور فیلڈر ہمیں ٹیم میں شامل کر لیا ۔

ہمارا پہلا میچ غالباً  دہم اے کے ساتھ تھا ۔بیک بنچرز سے بھری ہماری ٹیم کی بیٹنگ پہلے آئی ۔دہم اے والوں میں وسیم ،وقار کی روح حلول کرگئی اور ہم بیٹسمینوں کا آنا جانا دیکھنے لگے ،چھ کھلاڑی جب ہمارے پاس سے اٹھ کر جلد ہی واپس آگئے تو ہم نے کپتان کو دبے لفظوں اچھے ہمسائے کے فضائل سنائے لیکن اس نے سرد لہجے میں کہا “کپتان کی ایک زبان”۔ہم دل ہی دل میں باقی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کی دعا کرنے لگے۔

اچانک کلاس کی ڈیسک لائن نمبر سات کی بنچ نمبر تین میں دوسرے نمبر پہ بیٹھنے والے خلیل نے کپتان کو آنکھیں دکھائیں اور بیٹ لے کر چل دیا ۔وہاں اس نے حکم صادر کیا کہ” رنر “بھی مہیا کیا جائے کیونکہ انھیں دمے کی شکایت ہے ۔ رنر مل تو گیا لیکن اسے بھاگنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔خلیل وہیں کھڑے کھڑے بلا گھماتا اور گیند چونے سے بنائی باؤنڈری سے باہر ۔ظالم نے رج کے دھویا ۔ہم نے آؤٹ آؤٹ والی دعا کرنی چھوڑ دی۔
چھوڑنی ہی پڑی کیونکہ اوور ختم ہوگئے تھے۔

بالنگ کی باری آئی تو پچ بیٹنگ بن گئی۔ کچھ چوکوں میں خاکسار کی کوشش بھی شامل تھی کہ ہم گیند پکڑنے کی کوشش کرتے اور گیند ہمارے ہاتھوں کو چومتی ہوئی عقیدتا ً دور ہو جاتی ۔
اب  کی ہار یقینی تھا  کہ خلیل پھر آن ٹپکا اور گیند ہاتھ میں لے لی ۔کپتان ہمارا صرف مجھ جیسوں پہ کپتان تھا(اس نے کلاس میں رہنا بھی تھا)۔

اب جناب خلیل مختصر سے رن اَپ سے بال کراتا ۔بال شوں کرتی جاتی ،ٹھک کی آواز آتی اور بلےباز کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں ۔

خلیل نے اس میچ میں وہ کر دکھایا ، جو آ ج میکس ویل نے کردیا ہے ۔اس کی اننگزدیکھی تو مجھے بے ساختہ ستائیس سال پرانا میچ یاد آگیا کہ دمے کے مریض نے کیسے یکطرفہ میچ کا پانسہ پلٹا۔آج میکس ویل نے بھی کرکٹ کی تاریخ میں ناقابل فراموش اننگز کھیل کر دکھادی ہیں ۔

مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد ٹورنامنٹ کا کیا بنا تھا کیونکہ کپتان نے ہماری شاندار فیلڈنگ کی بدولت ہمیں فیلڈر سے تماشائی کے درجے میں ترقی دے دی تھی اور ہم نے اس کی اس آفر کو لات مار کر ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری ذاتی رائے میں آسٹریلیا کی ٹیم جب ناک آؤٹ میں آجاتی ہے تو وہ دیو بن جاتی ہے پھر اسے ہرانا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ اب اگر انڈیا اور آسٹریلیا یا آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ کا سامنا ہوا تو فتح کا تاج آسٹریلیا کے سر پہ ہی سجے گا۔
پر سانوں کیہہ ۔ہماری طرف سے بائیکاٹ ۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply