حقیقت کی تلاش کے راستے(1)-شاکر ظہیر

حقیقت کی تلاش میں انسان شروع سے قریہ قریہ گھومتا رہا ۔ اس تلاش میں جو طریقے اس انسان نے اختیار کیے اس میں ایک ” سیر باطن ” ہے جسے تصوف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ تصوف کے اصول و مبادی ہر قوم میں یکساں رہے ہیں ۔
ہر صوفی دراصل عاشق ہوتا ہے اس لیے ہر ملک کے تصوف کا دارومدار عشق و محبت ہی پر ہے ۔ اگر خدا محبوب ہے اور انسان محب ( محبت کرنے والا ) ہے تو لامحالہ محبوب کے حصول کا طریقہ عشق ہی قرار پائے گا ۔ دوسرا کوئی طریقہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ فرق جو کچھ نظر آتا ہے وہ صرف ظاہری طور طریقے اور رسوم میں ہے ۔ غرض صوفی خواہ ہندو ، مسلمان یا کوئی اور ہو مقصود سب کا ایک ہی ہے مگر ان کے عقائد مذہبی ، شعائر مذہبی اور رسوم مذہبی میں اختلاف کی وجہ سے مزاجوں میں فرق ضرور پیدا ہو جاتا ہے ۔

دنیا کے تمام صوفیانہ ادب میں خدا کو محبوب ہی قرار دیا گیا ہے ۔ فلوطین ، فرفریوس ، شنکر ، رام نوج ، ولبھ اچاریہ ، منصور حلاج ، شیخ اکبر ، مرشد رومی ، خواجہ عطار ، حکیم عراقی ، عارف جامی ، حکیم سنائی ، بیدل ، شاہ لطیف بھٹائی ، سچل سرمست ، وارث شاہ ، سلطان باہو ، بلھے شاہ ، رام کرشن ، پریم ہنس ، علامہ اقبال سب نے خدا کو محبوب حقیقی ہی بنایا ہے اور عشق ِ حقیقی کا نغمہ سنایا ہے ۔ یہ سب ایک ہی شمع حقیقت کے پروانے ہیں اور ایک ہی مسلک یعنی مذہب عشق کے مبلغ ہیں ۔

تصوف کے بنیادی اصول جو ہر ملک اور ہر قوم میں یکساں طور پر مانے جاتے ہیں وہ یہ ہیں
حقیقت صرف ایک ہے ، لاشریک ہے ، واحد مطلق ہے اسی کو صوفی الحق سے تعبیر کرتا ہے۔

یہ حقیقت زبان اور بیان ، تحریر اور تقریر کی گرفت سے باہر ہے ۔ یعنی ہم اسے بذریعہ الفاظ بیان نہیں کر سکتے
روح انسانی با اعتبار تعین determination غیر حق ہے یعنی اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی exact جگہ کون سی ہے ۔ لیکن وہ وجود رکھتی ہے ۔
روح کو موجودہ اصطلاح میں خودی اور حق کو خدا کہتے ہیں ۔

اس روح کی خدا سے ملاقات ممکن ہو سکتی ہے ۔ ملاقات یعنی وصال کا طریقہ خدا سے عشق ہے اور یہ عشق کی صفت انسان کو خدا کے عاشقوں کی صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے ۔

یہ تصوف کے وہ بنیادی اصول ہیں ۔ اس کی تفصیلات ہر تصوف کے ہر بزرگ نے اپنی سوچ کے مطابق بیان کی ہے ۔ یعنی وہ حق کیا ہے ، اس کی خصوصیات کیا ہیں ، اسے بیان کیسے کیا جا سکتا ہے اس کا اس کائنات کے ساتھ تعلق کیسے ہے ۔ اس کائنات میں مادہ کیا ہے ، اس مادے کی حقیقت کیا ہے وہ کہاں سے آیا ۔ یہ روح کیا ہے یہ کہاں سے آتی ہے اور پھر واپس کہاں چلی جاتی ہے ۔ اس روح کا اس مادی جسم سے کیا تعلق ہے ، یہ تعلق کیسے پیدا ہوتا ہے ۔ اس طرح کی اور بہت سی ضمنا  ًتفصیلات ہیں جن میں کچھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بنیادی اصول وہی ہیں ۔ اور مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ ماورائی حقائق کو جاننا اور اس ماوراء کو دیکھنا اور اس سے ملنا ۔ دوسرے لفظوں میں اسے میٹا فزکس بھی کہتے ہیں ۔

ان حقائق کو جاننے کی کوشش میں چائنیز ، ہندوستانی اور مصری پیش پیش تھے ۔ چائنیز کے تصوف کے بارے میں معلومات بہت کم ہم تک پہنچیں ۔ البتہ ہندو اپنشندوں کی تفصیلات ابھی تک ہمارے پاس کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ۔ مصری بھی اس راہ پر چلے ان میں ایک بہت بڑا نام فلوطین ( Plotinus ) کا ہے ۔ جس کے بیان کردہ فلسفے کے اثرات یہود ، مسیحیت ، عناسطی فرقوں اور مسلمان صوفیاء نے قبول کیے ۔

فلوطین مصر کے شہر lycopolis میں 204 CE میں پیدا ہوا ۔ مصر اس وقت روم کے زیر ِحکومت تھا ۔ اٹھائیس سال کی عمر میں اس کے دل میں تلاش حق کا زبردست جذبہ پیدا ہوا ۔ چنانچہ وہ اس زمانے کے علم و فن کے بڑے مرکز اسکندریہ آ گیا ۔ یہاں وہ ایک استاد Ammonium sacas کے پاس گیارہ سال یعنی اس کی وفات تک رہا ۔ استاد کی وفات کے بعد اس نے ایران کا قصد کیا تاکہ ہندی حکماء کے افکار سے واقفیت حاصل کر سکے ۔

فلوطین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی روحانی قوت لے کر دنیا میں آیا تھا ۔ ایک دفعہ ایک مصری کاہن اس سے ملنے آیا تاکہ اس کے سامنے اپنی روحانی قوت کا مظاہرہ کرے ۔ چنانچہ اس نے فلوطین سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی محافظ روح کو طلب کروں ۔ اس نے اجازت دے دی تو کاہن نے اپنا عمل شروع کیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محافظ روح کے بجائے الوہیت مجسم ( خدا ) ہو کر ظاہر ہوئی ۔ یہ دیکھ کر اس کاہن نے فلوطین سے کہا کہ بلاشبہ آپ کی محافظ روح الوہیت ( خدا ) کی ہم پایہ ہے اور یہ نعمت دنیا میں بہت کم آدمیوں کو نصیب ہوتی ہے ۔

فلوطین ہر قسم کے اعتراضات کو خندہ پیشانی کے ساتھ سنتا تھا اور نہایت عالمانہ رنگ میں ان کا جواب دیا کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ اس کے شاگرد نے کامل تین دن اور تین رات اس سے جسم و روح کے تعلق باہمی پر سوالات کیے مگر وہ مطلق چیں  بہ جبیں نہیں ہوا ۔

فلوطین اگرچہ فلسفی تھا مگر اس کی زندگی اولیاء کی زندگی سے مشابہہ  تھی ۔ وہ نہایت زاہد انسان تھا ۔ اکثر اوقات مراقبے میں مشغول رہتا تھا ۔ ہر وقت خدا سے ملاقات کا متلاشی رہتا تھا اور بلاشبہ وہ سراسر خدا کی محبت میں غرق تھا ۔ وہ جب تک زندہ رہا اس مادی عالم materialistic world سے بالاتر ہونے کی کوشش کرتا رہا ۔ اسکی زندگی کا واحد مقصد اپنی ہستی کو خدا کی ہستی میں گم کر دینا تھا۔

وہ خدا ، خودی اور کائنات کی ماہیت ( اصلیت ) اور ان کے آپس کے تعلق کی نوعیت میں غور و فکر کرتا رہتا تھا ۔ اس کے شاگرد فرفریوس ( Porphyry’s ) کے بقول اسے اپنی زندگی میں چار مرتبہ خدا کا دیدار نصیب ہوا ۔ اور خود فرفریوس کا یہ اپنے بارے میں دعویٰ ہے کہ اسے عمر کے 67 سال میں ذات باری کے ساتھ ملاقات یا اتحاد کی نعمت حاصل ہوئی ۔ فرفریوس کہتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ خودکشی کا ارادہ کیا تو فلوطین کو اپنی روحانی طاقت کی بدولت میرے ارادے کا علم ہو گیا ۔ وہ میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ فرفریوس تم نے جو خودکشی کا ارادہ کیا ہے اس کا اصلی سبب استدلال نہیں ہے جیسا کہ تم نے سمجھ رکھا ہے بلکہ محض مایوسی کا شدید غلبہ ہے جو تم پر طاری ہو گیا ہے ۔ اس لیے تم فوراً روم چھوڑ دو اور کسی دوسرے ملک۔ چلے جاؤ ۔ چنانچہ میں نے صقلیہ جانے کا فیصلہ کیا ۔

فلوطین کا درس سننے لوگ دور دور سے آتے تھے لیکن جب وہ محسوس کرتا کہ کوئی بڑا عالم درس میں آ کر بیٹھ گیا ہے تو وہ خاموش ہو جاتا ۔ اصرار کرنے پر جواب دیتا کہ جب مقرر محسوس کرتا ہے کہ اس کی تقریر سے سامعین کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا تو اس کا جوش اور ولولہ ختم ہو جاتا ہے ۔

وحدت الوجود فلوطین کے مذہب کی اساس ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نہ زمان میں ہے نہ مکان میں ہے ۔ نہ وہ محدود ہے نہ محصور ہے ۔ نہ اس کی کوئی صورت ہے نہ شکل ۔ وہ تمام اضافتوں اور نسبتوں سے پاک ہے ۔ وہ خود بخود ، باخود ، درخود موجود ہے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ سزا وار محبت بھی ہے ۔ وہ اس لائق ہے کہ اس سے محبت کی جائے ۔ وہ محبوب ہے بلکہ خود عشق ہے اور واجب الوجود ہے ۔
چونکہ خدا حسن بھی ہے اس لیے کائنات میں جہاں کہیں حسن ہے وہ اسی کے حسن حقیقی کا عکس ہے ۔

وہ لکھتا ہے کہ ” مادی اشیاء میں جس قدر حسن و جمال ہے وہ سب اس خیال سے رابطہ پیدا کرنے کی بدولت ظاہر ہوتا ہے جو ذات حق سے سرزد ہوتا ہے ۔ روح بذات خود حسین و جمیل ہے مگر جب جسم سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کی خوبصورتی چھپ جاتی ہے ۔ اگر وہ مادی حدود سے آزادی حاصل کر لے تو اس کی اصلی خوبصورتی اسی طرح ظاہر ہو جائے جس طرح سونے کو آگ میں گرم کر کے میل کچیل دور کر دیا جائے تو وہ دمکنے لگتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply