امریکہ میں اے حمید کی سماوار۔۔۔مبشر علی زیدی

ابوالحسن نغمی بزرگ ادیب ہیں۔ سعادت حسن منٹو سے ان کی قربت رہی۔ ریڈیو پاکستان کے ملازم رہے۔ پھر واشنگٹن آگئے۔ کچھ عرصہ وائس آف امریکا میں کام کیا۔ کئی کتابیں لکھیں جن میں داستان جاری ہے، یہ لاہور ہے اور بتیس سال امریکا میں شامل ہیں۔
نغمی صاحب نے واشنگٹن میں سوسائٹی آف اردو لٹریچر کے نام سے دس سال پہلے ایک انجمن قائم کی۔ اس کا مخفف سول بنا جو ان کی کری ایٹی وٹی کا ثبوت ہے۔ اس کا اجلاس ہر مہینے ہوتا ہے جس میں واشنگٹن اور ورجینیا میں رہنے والے شاعر ادیب شرکت کرتے ہیں۔ اکمل علیمی، ستیہ پال آنند، ظہور ندیم، انور اقبال، خالد حمید یہ سب آتے ہیں۔
آج میں پہلی بار اس محفل میں گیا اور اس طرح کہ نغمی صاحب نے اس حقیر فقیر کو صدر بنادیا۔ یہ فرمائش بھی کی کہ اے حمید پر گفتگو کروں جن کی آج برسی تھی۔ اے حمید، اکمل علیمی اور نغمی صاحب تینوں گہرے دوست تھے۔ اے حمید کے دو دوستوں کے سامنے ایک ایسے شخص کی تقریر سنیے جو کبھی اے حمید سے نہیں ملا۔
۔
میں محترم ظہور ندیم اور اپنے پیارے دوست واجد علی سید کا شکرگزار ہوں جنھوں نے میرا تعارف نغمی صاحب سے کروایا۔ نغمی صاحب کا احسان مند ہوں کہ انھوں نے یہاں طلب فرمایا۔ میں رقعے پر اپنے نام کے سامنے صدر لکھا دیکھ کر ہکابکا رہ گیا۔ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ پھر خیال آیا کہ اس صدارت کو شاید صدر ممنون سے کوئی نسبت ہے۔ مجھے محفل میں چپ کرکے بیٹھنا ہوگا۔ لیکن پھر نغمی صاحب نے حکم دیا کہ اے حمید صاحب پر کچھ بات کرنی ہے۔ بات کرنی کبھی مشکل مجھے ایسی تو نہ تھی۔
میں کوئی ادیب شاعر نہیں ہوں۔ بمشکل آدھا پونا صحافی ہوں۔ صحافی ہوں اس لیے زود نویس ہوں۔ سو لفظوں کی کہانی ایک ڈیڑھ منٹ میں لکھ لیتا ہوں۔ لیکن بولنا مشکل کام ہے۔ وائس آف امریکا میں ایک ڈیڑھ منٹ کی رپورٹ میں سو فمبلز ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ دو تین سال میں مجھے کافی تقریبات میں بلایا گیا۔ لٹریچر فیسٹولز اور سیمینارز اور کانووکیشنز اور تقریری مقابلے۔ میں نے مائی بیسٹ فرینڈ اور مائی فیورٹ بک جیسے دو تین مضمون یاد کرلیے تھے۔ تقریر سنتا کون ہے؟ لوگ صرف سیلفی لینے آتے ہیں۔ آڈیٹوریم سے نکل کر کسی کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ اگلی تقریب میں آپ پھر وہی مضمون سنا سکتے ہیں۔
لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ نغمی صاحب موجود ہیں جو اے حمید کے دوست ہیں۔ لاہور میں بہت سے لوگ اے حمید کو جانتے ہوں گے۔ لیکن ہمارے کراچی کی صورتحال مختلف ہے۔ میں وہاں یہ تقریر یوں کرسکتا تھا کہ اے حمید کا پورا نام جنرل عبدالحمید گل تھا۔ وہ سابق ڈی جی رینجرز سندھ تھے۔ انھوں نے کراچی میں کئی ڈرامے لکھے اور کئی ڈرامے کیے۔ بعد میں آئی ایس آئی کے سربراہ بن گئے۔ ان کے قبضے میں کئی جن تھے جن میں عینک والا جن اور دہشت گردی والا جن مشہور ہیں۔
لیکن یہ کراچی نہیں ہے اس لیے مجھے سنبھل کر گفتگو کرنی ہے۔
سچ یہ ہے کہ اے حمید صاحب میرے بچپن کے دوست تھے۔ سعید لخت، معراج، اشتیاق احمد، ابن صفی، مظہر کلیم، حکیم محمد سعید، مسعود احمد برکاتی، محمود شام، اے حمید، یہ سب میرے بچپن کے، میرے لڑکپن کے دوست ہیں۔ انسان جوانی کے عشق بھول سکتا ہے، بچپن کے دوست نہیں بھلا سکتا۔
اے حمید نے بچوں کے لیے کئی دلچسپ ناول سیریز لکھی تھیں۔ ایک سیریز حاتم طائی کے بارے میں تھی۔ میرا خیال ہے کہ چھ سات ناول تھے۔ حاتم طائی لاہور میں۔ حاتم طائی لندن میں۔ حاتم طائی پیرس میں۔ مجھے بھی شوق ہوا کہ اے حمید کے حاتم طائی کی طرح دنیا گھوموں۔ جب میں پہلی بار یورپ گیا اور پیرس پہنچا تو پتا چلا کہ بندہ اگر حاتم طائی جیسا مال دار نہ ہو تو اسے سیاحت پر نہیں نکلنا چاہیے۔
اے حمید کی سب سے مشہور سیریز عنبر ناگ ماریا تھی۔ اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز اور ابن صفی کی علی عمران سیریز کے بعد شاید یہ سب سے مقبول سیریز ہے۔ پتا نہیں آج کے بچے پڑھتے ہیں یا نہیں۔ آج کل تو ہیری پوٹر اور پرسی جیکسن کا دور ہے۔
اے حمید کی سیریز میں ایک لڑکی ماریا کا کردار تھا جو جب جی چاہے غائب ہوجاتی تھی۔ مجھے اس سے پیار ہوگیا۔ اس کے بعد زندگی بھر یہی ہوتا رہا کہ مجھے جس لڑکی سے پیار ہوتا تھا، وہ غائب ہوجاتی تھی۔
ایک کردار کا نام تھا ناگ۔ ایک مفروضہ ہے کہ ناگ سو سال کا ہوجائے تو کوئی بھی روپ بدلنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ اس سیریز میں ناگ یہی کرتا تھا۔ کبھی پرندہ بنتا تھا، کبھی چوپایا۔ اکثر انسان بن جاتا تھا۔ حقیقت کی دنیا میں الٹا حساب ہے۔ یہاں انسان ناگ بن جاتے ہیں۔
اس سیریز کے تیسرے کردار کا نام عنبر تھا۔ وہ امر تھا، یعنی مر نہیں سکتا تھا۔ اسے مارا نہیں جاسکتا تھا۔ انسان کو پتا چل جائے کہ اسے مارا نہیں جاسکتا تو وہ غیر معمولی طور پر بہادر ہوجاتا ہے۔ پھر وہ فوج اور عدلیہ کے خلاف ٹوئیٹ کرسکتا ہے، وائس آف امریکا کی ویب سائٹ پر مضمون لکھ سکتا ہے۔ میں امر نہیں ہوں لیکن کبھی کبھی ایسی حرکتیں کر بیٹھتا ہوں تو اس کی وجہ عنبر ہے۔ یہ بہادری یا بے وقوفی مجھے اس نے سکھائی ہے۔
اے حمید نے بہت سی دوسری کتابیں بھی لکھیں۔ رومانوی کہانیاں، ڈرامے اور ادبی تاریخ، لیکن آج کل میں ان کی جو کتاب پڑھ رہا ہوں، اس کا نام امریکا نو ہے۔ بات یہ ہے کہ جب آپ عشق کرتے ہیں تو عشقیہ شاعری زیادہ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ جب آپ غمزدہ ہوتے ہیں تو غمگین گیت زیادہ اچھے لگنے لگتے ہیں۔
اے حمید نغمی صاحب کی کوششوں سے امریکا آئے اور انھوں نے وائس آف امریکا میں ملازمت اختیار کی۔ میں حال ہی میں امریکا آیا ہوں اور وائس آف امریکا میں ملازمت کررہا ہوں۔ مجھے اے حمید کی یہ کتاب، جسے سفرنامے کے بجائے قیام نامہ کہنا چاہیے، پڑھ کر بہت لطف آرہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب اسی شخص کو پڑھنی چاہیے جو پہلے نغمی صاحب کی آپ بیتی امریکا میں بتیس سال پڑھ چکا ہو۔ ورنہ نیا آدمی بے زار ہوکر امریکا سے فرار ہوسکتا ہے۔
اے حمید نے اس کتاب کا نام امریکا نو کیوں رکھا، میں اس بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ایک خاتون کا مکالمہ لکھا ہے، وہ سنیے!
’’میری ماں میرے باپ سے الگ ہوچکی ہے۔ ایک ہیوسٹن کے ریستوران کے باتھ روم صاف کرتا ہے۔ دوسری نیویارک کے محتاج گھر میں کھڑکی کے شیشے سے لگی ٹھنڈی ویران سڑک کو تکتی رہتی ہے۔ میں خود دو خاوند کرکے چھوڑ چکی ہوں۔ میرے بچے ان کے پاس ہیں۔ ڈی سی کے ایک گندے فلیٹ میں رینٹل آفس کے بڈھے کالے منیجر کے ساتھ رہتی ہوں۔ وہ مجھے روز مارتا ہے۔ اسے چھوڑ کے چلی جاتی ہوں۔ چار روز کی دربدری کے بعد پھر اس کے پاس مار کھانے آجاتی ہوں۔ میرے بھائی ہیں۔ بہنیں بھی ہیں۔ عرصہ ہوا، کوئی مجھے ملنے نہیں آیا۔ یہاں کوئی کسی کا بھائی نہیں، کوئی بہن نہیں۔ مرد ہیں، عورتیں ہیں۔ لنچ کے لفافے ہیں۔ ڈالروں کی دلدل ہے۔ میں بھی اس دلدل میں دھنستی جارہی ہوں۔ جو اس دلدل میں جلدی دھنس جاتا ہے، وہ جلد مر جاتا ہے۔ بھائی کا پیار، بہن کی محبت، ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، خاوند کا ایثار، یہ سب کچھ میرے لیے اجنبی جزیرے ہیں۔ ٹریش ہے۔ دس دن کسی میکڈونلڈز یا رائے راجرز میں ڈش واشر کا جاب کرتی ہوں اور گیارہویں روز پھر آؤٹ آف جاب ہوجاتی ہوں۔ مجھے ہیمبرگر، رہائش، وائن چاہیے۔ یہ میں کہاں سے لاؤں؟ مجھے ایک بہن چاہیے، بھائی چاہیے۔ ایک خاوند چاہیے۔ یہ میں کہاں سے لاؤں؟ امریکا نو، امریکا نو۔‘‘ وہ سسکیاں لیتے ہوئے رونے لگی۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ فکشن کا پیس ہے یا واقعی اے حمید کو ایسی کوئی خاتون ملی تھیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ انھیں خود بھی امریکا پسند نہیں آیا۔ ان کی پوری کتاب امریکا پر تبرے سے بھری پڑی ہے۔ امریکا کے لوگ اچھے نہیں۔ ان کا اخلاق مصنوعی ہے۔ ان کے ہاں علاج مہنگا ہے۔ ان کے ہاں بوڑھوں کو بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی کسی کا رشتے دار نہں۔ یہاں درخت ہیں لیکن لاہور جیسی چھاؤں نہیں۔ یہاں پھول ہیں لیکن لاہور جیسی خوشبو نہیں۔ یہاں پرندے ہیں لیکن لاہور جیسے طوطے نہیں۔ یہاں شلوار میں ازاربند ڈالنے والی نالے پرونی تک نہیں۔ یہاں جوتے ملتے ہیں لیکن لاہور کے جوتوں جتنے مضبوط نہیں۔ یہ مذاق نہیں ہے۔ اے حمید نے واقعی بیاسی ڈالر کے ایک جوتے کے بارے میں کئی صفحات لکھ ڈالے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور وہاں بھی اسے پہننے کے بجائے اس کا مذاق اڑاتے رہے۔
میرا خیال ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو اے حمید کی یہ کتاب پاکستان کے تعلیمی نصاب میں شامل کروانی چاہیے۔ اس کے بعد امریکا کا ویزا مانگنے والوں کی تعداد میں کافی کمی ہوسکتی ہے۔
مجھے آخر میں بتانا چاہیے کہ پاکستان میں اے حمید کو کوئی یاد کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، ان کا لکھا ہوا ڈراما عینک والا جن سب کو یاد ہے۔ اس کے کردار سب کو یاد ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے یہ ڈراما کبھی نہیں دیکھا۔ جب یہ ڈراما ٹیلی وژن پر شروع ہوا تو میں تھوڑا بڑا ہوچکا تھا۔ میری دلچسپیاں جن بھوتوں کے بجائے پریوں میں زیادہ ہوچکی تھیں۔
میری بیوی ہر وقت ٹی وی پر اور اپنے ٹیب پر اور آئی فون پر ڈرامے دیکھتی رہتی ہے۔ کل میں نے اس سے پوچھا، میں عینک والا جن دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیسے دیکھوں؟ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا، آئینہ دیکھ لیں۔ عینک والا جن نظر آجائے گا۔
وما علینا الا البلاغ المبین

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply