بارودی ہوائیں۔۔۔۔۔۔۔ محمد افضل

ذرا دھیرے چلیے صاحب، نسلیں اور ملک بننے میں صدیاں لگتی ہیں۔ لیکن اجڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ شام ، اعراق اور لیبیا جیسی کئی مثالیں اور اسکے بدنما اور بھیانک اثرات ہمارے سامنے ہیں۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان اب ایٹمی جنگ ہوئی تو اس سے دنیا کے ایک ارب سے زائد انسان متاثر ہوں گے۔ کچھ عرصہ پہلے آنے والی یہ رپورٹ “انٹرنیشنل فیزیشنز فار دا پریوینشن آف نیوکلیئر وار” نامی ادارے نے شائع کی تھی ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ جنگ علاقے تک بھی محدود رہی تب بھی اس کے عالمگیر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ رپورٹ میں یہ بتائی گئی تھی کہ انڈیا پاکستان تو متاثر ہوگا ہی یہ جنگ دنیا کے ماحول پر بہت بری طرح اثر انداز ہو گی اور چین، امریکا اور دیگر ملکوں میں خوراک کی پیداوار بھی بہت کم ہو جائے گی۔ رپورٹ کے مصنف ڈاکٹر ایرا ہیلفینڈ کا اس بابت کہنا تھا ’’جوہری قحط سالی کے بارے میں خدشات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کریں۔ نئے شواہد بتاتے ہیں کہ نسبتاً چھوٹے پیمانے پر جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے درمیان جوہری تنازعہ بھی دنیا کے ماحول اور ایکو سسٹم کو بری طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘

سو اے قوم کے شیر جوانوں، ہم ٹویٹر ، فیس بُک، مباحثوں یا انڈیا کی طرح ٹی وی پر بیٹھ کے تو جنگ لڑ رہیں ہیں مگر شاید ہمیں پتا نہیں کہ جنگ ہوگئی تو دونوں ملکوں کو کیا بھیانک نتائج دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ یہ ایسی جنگ نہیں ہوگی کہ جس میں کوئی ایک فریق جیتے گا بلکہ نقصان دونوں اطراف کا ہوگا ، گھروں کے گھر ، شہر کے شہر اجڑیں گے ۔ ایک کہرام مچے گا جسکا خمیازہ ہم صدیوں بھگتیں گے ۔ جتنا انتشار اور جنون اس خطے میں پایا جاتا ہے، اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ یہ وار لمیٹڈ یا سرجیکل سٹرائیکس سے شروع ہو کے ایٹمی وار یا عالمی وار میں تبدیل نہیں ہوگی۔  اکنامک کوریڈار کا شروع ہونا ، بھارت کا چین کی وجہ سے امریکہ کی گود میں بیٹھنا ، پھر افغانستان، ایران اور سعودی عرب سے قربتیں بڑھانا اور اسی اثنا میں روس کا پاکستان میں مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے اپنی آرمی کو پاکستان بھیجنا، اگر اس سارے پس منظر کو سامنے رکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ ممالک کی ترجیحات ، فوائد اور ماحول تبدیل ہو رہا ہے اور ایسے میں امید ہے کہ یہ لمیٹڈ وار اور سرجیکل سٹرائیکس خود کو عالمی جنگ کے روپ میں نہیں بدل پائیں گی۔

تاریخ کو دیکھیں تو پہلی عالمی جنگ بھی محض آسٹریا ہنگری کے ولی عہد شہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ کو 28 جون 1914ء کو گولی مار کر ہلاک کرنے پر ہی شروع ہوئی تھی۔ کیا تب کسی نے سوچا ہوگا کہ یہ ایک ہلاکت سے شروع ہونے والی جنگ عالمی جنگ میں تبدیل ہوکر مزید ایک کروڑ لوگوں کو لقمہ بنا لے گی۔ اور کون جانتا تھا کہ دوسری جنگ عظیم 3 ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر جرمنی کے حملے کے بعد اس قدر بڑھے گی کہ چھ کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو لقمہ بنا لے گی۔ آس پاس تماش بینوں کا تو کچھ نہیں گیا البتہ جاپان اور دوسرے متاثرہ ممالک آج بھی اس کے اثرات بھگت رہے ہیں۔

انڈیا و پاکستان کے دونوں اطراف سے فیس بُک پر جنگ لڑنے والے تمام دانشور ، ٹی وی اینکر ، ٹویٹر ماسٹر ، تجزیہ نگار ، انتہا پسند ، ریڈرز اور شر پسند عناصر کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ کہ ہم ایٹمی ملک کے باشندے ہیں- لہذا اپنے اپنے شعبہ اور پلیٹ فارم پر ہماری زمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہے۔ ہمیں زندہ دلی اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔

جنگ میں مرنا تو ہم عوام نے ہی ہے اور اچنبے کی بات یہ ہے کہ ہم ہی جنگ جنگ کا راگ بھی الاپ رہے ہیں۔ آپکی ایلیٹ کلاس کے بچے تو پہلے ہی دوسرے ممالک میں سیٹل ہیں۔ ساحلِ سمندر اور ملبے کے ڈھیر سے بچے تو ہمارے ہی نکلے گے ۔ اور جو خوش قسمتی سے بچ بھی گے کوئی یتیم ، اپاہج اور لولے لنگڑے مستقبل کے ساتھ ہی بچے گا ۔ وہ یورپ تو کیا چیچہ وطنی جانے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔

( بقول بیدل حیدری )

ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے

ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے

کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے

سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچّے

ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا

مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچّے

یہ ضروری ہے نئے کل کی ضمانت دی جائے

ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے

  اور ساتھ میں صدیوں سے اس خطے میں رہنے والے اپنی ہر چیز ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ساتھ دفن بھی ہو جائیں گے۔ جس پہ آپ آج اتراتے پھر رہیں ہیں جنگوں کے بعد وہ چیزیں بھی ملیا میٹ ہو جایا کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لیے ہر آخری حد تک کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جنگ نہ ہو جنگ سے اور اس کی تباہی سے بچا جائے لیکن ہاں کوئی تلوار لے کر آپ کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو اور آپ آگے سے اخلاقیات کا درس دینے میں مشغول ہوں تو ایسی نیکی سے بھی میں بعض آیا کیونکہ اپنی حفاظت بھی انسان پر لازم اور فرض ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply