دست شفقت۔۔۔رعایت اللہ فاروقی

یہ تماشا بھی ہماری ہی نگاہوں کے نصیب میں تھا کہ جب نواز شریف کو پہلی بار حکومت سے نکالا گیا تو ایک اجنبی کو نگراں وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس روز پاکستان میں سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوالات یہ تھے

’’کون ہے یہ شخص ؟ یہ کہاں رہتا ہے ؟ اسے کہاں سے لایا گیا ہے ؟اس کے ماں باپ کون تھے اور کہاں رہتے تھے ؟‘‘

اس اجنبی کا نام معین قریشی تھا اور یہ ورلڈ بینک کا ملازم تھا جو سالہا سال سے بیرون ملک ہی زندگی گزار رہا تھا۔ وزیر اعظم بننے سے قبل کچھ خاص لوگ ہی اسے جانتے تھے، عوام کے لئے وہ اجنبی ہی تھا۔ یہ ہمارے ملک کا پہلا جز وقتی ’’گرین کارڈ وزیر اعظم‘‘ تھا۔ وہ تین ماہ وزیر اعظم رہا، حسب منشا نتائج فراہم کئے اور سیدھا وہیں گیا جہاں سے آیا تھا۔ اس پورے عمل کے دوران نہ تو اقامے کا سوال پیدا ہوا اور نہ ہی گرین کارڈ کا۔ اور تو اور یہ بھی یقینی نہیں کہ جن تین ماہ کے دوران وہ وزیر اعظم پاکستان رہا اس دورانئے کے لئے بھی اسے قومی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ مہیا کیا گیا یا اسے بھی غیر ضروری سر دردی سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا۔ جز وقتی تجربے کی کامیابی دیکھتے ہوئے ٹھیک دس سال بعد ایک کل وقتی ’’گرین کارڈ وزیر خزانہ‘‘ متعارف کرایا گیا۔ بطور وزیر خزانہ وہ جنرل مشرف کی آنکھوں کی چمک اور بوٹوں کی دمک بن گیا تو اسے ہماری تاریخ کا پہلا کل وقتی ’’گرین کارڈ وزیر اعظم‘‘ بنا لیا گیا اور وہ تین سال تک مزے سے پاکستان پر حکمرانی کرتا رہا ۔ کتنا عجیب ملک ہے ہمارا کہ شوکت عزیز جیسے نمونے کسی صاف و شفاف الیکشن میں کونسلر کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے لیکن جب ’’دست شفقت‘‘ میسر ہو تو یہ تھرپارکر اور فتح جھنگ جیسے دو دو حلقوں سے بھی جیت جاتے ہیں۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ نشستیں خالی کرنے والوں نے ووٹرز سے شوکت عزیز کو ووٹ دینے کا کہا اور ووٹرز نے حکم کی تعمیل کردی تو یہ معجزہ پیپلز پارٹی اپنی لاڑکانہ جیسی سیٹ سے کسی مہاجر کو جتا کر دکھادے ۔ ایسے کام ہاتھ کی صفائی سے ہی ممکن ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی وہی صفائی جو پرویز مشرف دکھائے تو مہاجر شوکت عزیز تھرپارکر سے جیت جاتا ہے اور الطاف حسین دکھائے تو بلوچ نبیل گبول عزیز آباد سے بھی جیت سکتا ہے۔

جز وقتی گرین کارڈ وزیر اعظم کی طرح کل وقتی گرین کارڈ وزیر اعظم بھی اقتدار چھوڑتے ہی اپنے گھر یعنی امریکہ لوٹ گئے۔ معین کی قریشی کی طرح شوکت عزیز بھی پاکستان صرف حکومت کرنے آئے تھے، حکومت کی اور امریکہ کی راہ لی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کیا یہ کوئی جمہوری عمل تھا ؟ کیا یوں ہوا تھا کہ ایک روز عوام کو آگہی حاصل ہوئی کہ معین قریشی نام کا ایک پاکستانی عظمت کے اس مقام پر پہنچ چکا کہ بس اسی کے کرائے گئے انتخابات ہی صاف و شفاف ہو سکتے ہیں اور انہوں نے طے کرلیا کہ اگلا انتخاب تو معین قریش ہی کرائے گا ؟ کیا معین قریشی کو عوام کے پرزور مطالبے پر پاکستان آکر جز وقتی اقتدار سنبھالنا پڑا تھا ؟ کیا شوکت عزیز جیسا کٹھ پتلی وزیر اعظم عوام میں جڑیں رکھتا تھا ؟ کیا وہ جنرل مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت کا رکن رہا تھا ؟ کیا اس نے کبھی بھی کوئی سیاسی جد و جہد کی تھی ؟ اگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں عمران خان جیسا معروف ترین شخص بھی بیس سال تک سیاسی کوچوں میں ایڑیاں رگڑ کر تھک جاتا ہے مگر عوام گھاس نہیں ڈالتی تو پھر یہ معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے اجنبی لوگ نمودار ہوتے ہی تخت پر کیسے جلوہ افروز ہوجاتے ہیں ؟ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

ذرا اقامے اور گرین کارڈ کا فرق دیکھئے۔ اقامہ اس سرکاری دستاویز کو کہا جاتا ہے جو خلیجی ریاستیں ایسے غیر ملکیوں کو جاری کرتی ہیں جو ان کے ہاں ملازمت کرتے ہوں۔ گویا قانونا متعلقہ ریاست ملازمت کی بنیاد پر آپ کو اس دستاویز کی مدد سے اپنے ہاں قیام کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں گرین کارڈ مغربی ممالک کی وہ دستاویز ہے جس کے ذریعے وہ آپ کو اپنی شہریت دیتے ہیں۔ آپ کے پاس ملازمت ہے یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، شہریت ملنے کے بعد آپ امریکی، برطانوی یا فرانسیسی ہی کہلائیں گے۔ آپ کو کچھ ہوا تو ان مغربی ممالک میں سے جس کے آپ شہری ہوئے وہ آپ کے لئے حرکت میں آجائے گا۔ اس کے برخلاف اقامہ ہولڈر کو ایسی کوئی بھی سہولت میسر نہیں۔ وہ جس ملک کا اقامہ ہولڈر ہے اس کا شہری نہیں۔ یہ اس پورے کرہ ارض پر صرف پاکستان میں ہی ہوپاتا ہے کہ گرین کارڈ والے دوہرے شہری تو تشریف لالا کر یہاں حکومت کر جاتے ہیں اور اقامے والے خالص پاکستانی شہری پکڑمیں آجاتے ہیں۔ عجب تماشا کہ کسی کو تو جام شراب جائز ہوجاتا ہے اور کسی کو پانی بھی حرام ہی رہتا ہے۔ یہ سارے کرشمے دست شفقت کے ہیں۔ وہی دست شفقت جو پورا مل جائے تو معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے اجنبی بھی حکمرانی کر جاتے ہیں اور قانون اپنی آنکھوں پر پٹی ہی نہیں کانوں میں روئی بھی ٹھونس کر سویا رہتا ہے۔ وہی دست شفقت جس کی صرف ایک انگلی مل جائے تو عمران خان وزارت عظمی کے قریب تو پہنچ جاتا ہے مگر نصیب نہیں ہوتی۔ چور دروازوں سے یہ نصیب انہی کو ہوتی ہے جنہیں ایک انگلی نہیں پورا دست شفقت میسر ہو !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دست شفقت۔۔۔رعایت اللہ فاروقی

  1. میں کسی پارٹی کا کارکن نہیں ہوں ۔۔۔پر میں نے ان صاحب کو ن لیگ کی حمایت، فوج اور عدلیہ کی مخالفت ہی کرتے دیکھا ہے، اگر معین یا شوکت عزیز وزیر آعظم بن گئے تو وہ مجبوری میں آئے ناکہ ہمیشہ کے لیے پاکستانی کے وزیر آعظم بننے کے لیے۔۔دوسرا وہ پہلے سے گرین کارڈ ہولڈر تھے ناکہ تین تین بار وزارت عظمہ کے عہدے پے براجمان رہنے کے باوجود بھی اقامہ لے کے Safe Passing کے طور پے جیب میں ہر وقت تیار رکھیں۔

    جو انسان ملک کے سب سے بڑے عہدے پے ہو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ بھی گرین کارڈ اور اقانہ جیب میں رکھے۔۔۔مطلب وہ کہیں تو غلط ہے۔۔کہیں تو کچھ خرابی ہے۔۔کہیں تو کچھ گڑ بڑ ہے کہ اتنے بڑے عہدے پے رہنے کے بعد بھی بے یقینی ہے اسے۔۔۔ کسی کے ساتھ اگر برا ہوتا ہے اور وہ بھی اہم ترین عہدے پے ہونے کے بعد بھی تو اسے سوچنا چاہیے کہ میں کب کب کہاں کہاں غلط تھا اور ہوں۔

    مشرف کے دو عہدوں پے تو بڑا واویلا مچا کہ جی وردی اتارو یو صدارت چھوڑو۔۔۔وجہ یہی تھی نا کہ دو عہدے بیک وقت نہیں رکھ سکتے تو پھر یہاں تو ایک ملک کا وزیر آعظم ہو کے دوسرے ملک کی نوکری کی جا رہی ہے۔۔۔

    یہ پھر کیا منافقت ہے۔۔۔!

Leave a Reply