• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انجمن مزارعین پنجاب کی تحریک، ایک جائزہ۔۔۔ یوسف احمد۔حصہ اول

انجمن مزارعین پنجاب کی تحریک، ایک جائزہ۔۔۔ یوسف احمد۔حصہ اول

یہتحریرانگریزیروزنامےڈانمیںشائعہوئیجسےاردوقارئینکیلئےترجمہکرکےپیشکیاجارہا ہے. مترجم اسد الرحمان

حالانکہ مسجد کے لاوڈ سپیکر سے اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یہ خبر گاوں بھر میں پھیل چکی تھی کہ یونس اقبال آخرکار اپنے گاوں لوٹ آیا ہے۔
یہ سنہ ۲۰۰۳ کی بات تھی جب یونس اقبال کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پہلی بار اٹھایا۔ افواہ یہ تھی کہ راضی نامہ حاصل کرنے کی خاطر اس پہ وحشیانہ تشدد بھی کیا گیا تھا ۔ کچھ قائدین کے مطابق اس نے ابھی تک جوانمردی کے ساتھ اس تشد د کا مقابلہ  کیاتھا ، کوئی سچ سے واقف نہیں تھا لیکن اب بلا آ خر یونس لوٹ آیا تھا اور گاوں کے مرکزمیں ایک میٹنگ ہونے والی تھی جس سے یونس نے خطاب کرنا تھا۔
تاہم چک نمبر ۱۰/۴ ایل کے رہائشیوں کو جلد ہی یہ احسا ہو گیا کہ یونس اکیلا نہیں ہے ۔ اسے ایک پولیس وین میں ڈال کر گاوں لایا گیا تھا اور ہتھکڑی ابھی تک اس کے ہاتھوں میں موجود تھی۔ جلد ہی سارا گاوں وہاں پہ اکٹھا ہو گیا اور ایک گھمبیر سناٹے کو توڑتے ہوئے یونس نے کہا ” ملکیتی کاغذات پہ دستخط کر دو“ ۔
ایک خوفزدہ کر دینے والی چپ سارے گاوں پہ طاری تھی ، انجمن مزارعین پنجاب کا قائد جو اپنے گاوں میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان موجود تھا اپنے لوگوں کو زمین کے ملکیتی حقوق سے ستبردار ہونے کا کہہ رہا تھا۔ اگر ان کاغذات پہ دستخظ کر دئیے گئے تو اس کا مطلب ہو گا کہ یونس کا گاوں اپنے موقف سے دستبردار ہو گیا ہے اور پھر جلد یا بدیر دوسرے گاوں بھی اس راستے کا ہی انتخاب کر یں گے۔
انجمنِ مزارعین پنجاب ملتان روڈ کے گرداگرد ایک تحریک کے طور پہ ان زرعی زمینوں پہ ابھری جن کو ” ملٹری فارمز“ کہا جاتا ہے۔ اس کے قائدین کا دعوی ہے کہ یہ ۱۹۹۸ میں معرضِ وجود میں آئی لیکن سامنے ۲۰۰۱ میں ہی آ سکی۔ ابتدائی طور پہ تو یہ تحریک مزارعیت کے قانون میں تبدیلی کے خلاف سنہ ۲۰۰۱ میں اٹھی تاہم اب یہ ملکیت کی ایک قانونی و سیاسی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کسانوں کا نعرہ ہے ”مالکی یا موت“ اور انکی یہ پوزیشن انہیں ریاستی اداروں کے مقابل ایک مشکل حالات میں کھنچ رہی تھی۔
لیکن اب یہ صورتحال تو ایک طرح کے وجودی بحران میں سمٹ آئی تھی کیا اپنے قائد کی بات مانی جائے یا پھر اپنے دماغ کا استعمال کیا جائے؟
کوئی بھی ان کاغذات پہ دستخط نہیں کرے گا ، ایک کونے سے آواز آئی
سب نگاہیں ایک معمر عورت کی جانب پلٹ گئیں، سب لوگ اسے یونس کی ماں کی حیثیت سے جانتے تھے۔
میرا بیٹا دباو میں ہے اس عورت نے دلیل دی ” تم دیکھ سکتے ہو اس کے بدن پہ زخموں کے نشان ہیں“۔ حقیقتا کچھ زخم ابھی تک تازہ تھے جبکہ کچھ چوٹوں کے نشان اب نیلگوں ہو رہے تھے۔

” کوئی کسی قسم کے کسی کاغذ پہ دستخط نہیں کرے گا“ یونس کی ماں نے واشگاف انداز میں اعلان کیا
گاوں کے مرکز میں ہونے والے اکٹھ کا مزاج آنا فانا ہی بدل گیا اور چہ مگوئیاں ایک کورس میں ڈھل گئیں جب گاوں کے بوڑھے مرد بھی اس میں آن شامل ہوئے۔ گاوں اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو گا چاہے یونس کی خواہش جو بھی ہو یونس کی والدہ کی آواز  ایک اجتماعی حکمت میں ڈھل گئی اور سارے گاوں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ پولیس نے دوبارہ یونس کو اٹھایا وین میں ڈالا اور وہاں سے کھسک لیئے۔
انجمن مزارعین کسانوں کی ایک سماجی تحریک ہے جو کہ صدیوں سے ان زمینوں کو کاشت کرتے آ رہے ہیں۔موجودہ پاکستان میں یہ زمینیں فوج کو دی گئیں جنہوں نے مزارعت کے پرانے بندوبست کو ہی برقرار رکھا تاہم سنہ ۲۰۰۰ میں نئے معاہدے کی جو شرایط پیش کی گئیں اسکے مطابق ان کسانوں پہ مالی بوجھ کو مزید بڑھا دیا گیا۔ کسان پہلے ہی افراطِ زر اور زرعی ادویات، بیج اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمیتوں سے تنگ تھا اور اگر وہ اس معاہدے پہ بھی دستخط کر دیتے تو یہ اپنی موت کے پروانے پہ دستخط کرنے کے مترادف ہوتا۔
اس دباو کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تحریک اپنی سرشت میں خود دو تھی اسکی مرکزی قیادت تین دوستوں یونس اقبال اور چوہدری جبار اقبال (اوکاڑہ) اور ڈاکٹر کرسٹوفر جان (خانیوال) کے ہاتھ میں تھی۔ یونس آخرکار اس تحریک کا صدر اور کرسٹوفر اسکا جنرل سیکرٹری بننے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔۔ جس کی وجہ سے یہ تحریک اوکاڑہ اور خانیوال کے تمام دیہات جہاں کاشتکاری کانیا معاہدہ پیش کیا گیا تھا میں اپنی جڑیں بنا لیں۔
کسانوں کی اس تحریک نے جلد ہی طاقت پکڑ لی تاہم اسکے ساتھ ہی اسکا واسطہ ریاست کی طاقت کے ساتھ بھی پڑا۔ انتخابات بالکل قریب تھے اور مشرف کے وزیرِ دفاع سکندر راو کا تعلق بھی اوکاڑہ سے ہی تھا۔ اس تحریک کے قائدین کے خلاف قانونی کیس بھی درج کئے گئے جن میں سے کچھ دہشت گردی سے متعلق بھی تھے۔ مشرف نے بذاتِ خود اس تحریک پہ نظر رکھی ہوئی تھی اور اس وجہ سے قانونی اداروں نے گاوں گاوں جا کر اس تحریک کے کارکنان اور قائدین کو گرفتار کرنے کا عمل شروع کیا۔ بتدریج یہ خبر دیہی علاقوں سے چل کر شہروں تک جا پہنچی ۔
انجمن مزارعین ۲۰۰۱ میں قید و بند کی پہلی لہر کا وار سہ گئی تھی۔ اور اس ریاستی جبر کی خبر کے پھیلتے ہی پاکستان کا نوزآئیدہ ”بایاں بازو“ بھی اس تحریک کی جانب متوجہ ہوا۔ بایاں بازو اس وقت تین نمایاں رجحانات میں تقسیم تھا ، آرتھوڈوکس لیفٹ، نیو لیفٹ اور این۔جی۔اوز ۔ ان میں سے پہلے دونوں رجحان اپنے نظریاتی تعصبات کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوئے جبکہ این جی اوز نے فنڈنگ کا وعدہ کیا۔ این جی اوز پہ یہ الزام بھی تھا کہ انکی اس میں شرکت اس خود رو عوامی تحریک کو غیر سیاسی کر دے گی۔
تاہم بایاں بازور بھی ابھی نوزائیدہ تھا اور اسکے پاس کوئی نیا ہیرو یا نئی طرزِ سیاست کا فقدان تھا۔ انکی سیاست کے مرکزی دھارے میں آخری بڑی شمولیت ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی ( جمہوریت بحالی تحریک) کی تحریک کی صورت میں سامنے آئی تھی ،۔ لیکن نوّے کی دہائی کے آتے ہی بائیں بازو کے بہت سارے کارکن این جی او سیکٹر میں ملازمت اختیار کرنے لگے جس کی وجہ سے بائیں بازو کی جماعتیں بہت سارے کارکنان سے محروم ہو گئیں۔
لیکن اب ایک دہائی سے زائد پہ مبنی جمود کے بعد بائیں بازو کے نوجوان اور متحرک قائدین پہلی بار ایک ایسی تحریک کو ابھرتا دیکھ رہے تھے جو کہ عوام میں اپنی حمایت رکھتی تھی۔ تینوں رجحانات نے انجمنِ مزارعین پنجاب کو ایک حقیقی طاقت کے طور پہ قبول کیا اور پھر انکے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی ان میں سے ہر گروپ یہ چاہتا تھا کہ انجمنِ مزارعین پنجاب صرف اور صرف انکے ساتھ ہی جڑے۔
انجمن کی قیادت نے ان تینوں رجحانات کے ساتھ تعلق بنایا تاہم اپنی جدا شناخت اور تنظیم کو مکمل آزادی کے ساتھ برقرار رکھا۔ یہ سماجی تحریک کسانوں پہ مشتمل تھی اور اس کے دروازے سب کیلئے کھلے تھے تاہم یہ تحریک کسی بھی پارٹی کا ایک کسان ونگ یا فرنٹ بننے پہ تیار تھی اور نہ ہی کسی طور بھی استحصال کا ایک نمائندہ استعارہ۔بلکہ یہ اپنا کیس ہر اس جگہ پہ پیش کرنا چاہتی تھی کہ جہاں پہ کوئی اس سننے کو تیار تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے کچھ اصولوں کو یقننا قربان کیا گیا لیکن پھر بھی انجمنِ مزارعین پنجاب اپنی سرشت اور حقیقت میں مزارعین کی ہی تحریک کے طور پہ اپنی شناخت قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انجمن مزارعین پنجاب کی تحریک، ایک جائزہ۔۔۔ یوسف احمد۔حصہ اول

Leave a Reply