کرپشن ایک لعنت/اورنگزیب نادر

جب کوئی عام آدمی موبائل فون چوری کرتا ہے تو اسے چور کہا جاتا ہے لیکن جب کوئی سیاستدان یا بڑا آدمی چوری کرتے ہیں تو ان کے لیے ایک مہذب لفظ استعمال ہوتا ہے جسے ’’کرپٹ‘‘ کہتے ہیں۔کرپشن ایک ایسی ناسور ہے جو کسی ملک اور قوم کو تباہ کر دیتی ہے۔ جن ممالک یا قوموں میں بدعنوانی جیسی ناسور ہوئیں وہ تباہ ہوگئے۔ اسی طرح ملک پاکستان بھی کرپشن کی زد میں ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیاہے تب سے اس ناسور کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان وجود میں آنے سے لیکر اب تک کئی مسائل کا شکار ہے۔ کہیں زوال معشیت ہے تو کہیں بےروزگاری ، کہیں کرپشن کا ناسور ہے تو کہیں رشوت کی لعنت لیکن اس کرپشن نے سارے مسائل سے زیادہ ساری پریشانیوں سے زیادہ جس طرح اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیاہے۔اس کرپشن کی وجہ سے وطن عزیز اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ اس کرپشن کی وجہ سے اولاد برائے فروخت کی صدائیں بازاروں میں گونجتے ہیں۔ اس ناسور کی وجہ سے بےروزگار نوجوان خودکشیاں کررہےہیں۔ اس کرپش کی وجہ سے عدالتوں میں انصاف نہیں ہورہاہے۔ اس طاقتور ناسور کی وجہ سے غریب کے بچے فاقوں سے مررہےہیں۔ اس کرپشن کی وجہ سے

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کر زخم نمک سے مساج کرتےہیں
غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو
اور امیر شہر کے کتے بھی راج کرتےہیں

بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ نے دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گِر کر 140 تک پہنچ گئی ہے۔ گذشتہ 11 برسوں میں یہ پاکستان کی سب سے بُری درجہ بندی رہی ہے۔ افسوس اس بات کی ہے کہ اسلامی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کرپشن میں سرفہرست ہے۔اسلام کے نام پر بننے والاریاست مدینہ کے بعددوسرا ملک ہےجواسلام کے نام پر معرض وجودمیں آیا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں اسلامی قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہے لیکن اسلام ہمیں اس سے دور رکھنے کا درس دیتاہے۔پاکستان کے ہر ادارے اور ہر شعبے میں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ کرپشن پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے ملک میں کرپشن کی سطح کو جانچنے کے لیے کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے عوام کی اکثریت پولیس اور عدلیہ کو کرپٹ ترین ادارے تصور کرتی ہے۔
سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ عوام کی اکثریت یعنی 85.6 فیصد شہری وفاقی حکومت کی خود احتسابی کی پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اب بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پبلک سیکٹر میں کرپشن زیادہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری سروے کے نتائج کے مطابق ٹینڈرز اور کنٹریکٹس کا شعبہ کرپٹ ترین سیکٹر میں تیسرا اور صحت چوتھا سب سے کرپٹ سیکٹر ہے۔ اسی طرح لینڈ ایڈمنسٹریشن پانچویں، لوکل گورنمنٹ چھٹے، تعلیم ساتویں، ٹیکسیشن آٹھویں اور این جی اوز کرپشن میں نویں نمبر پر ہیں۔ اسی طرح پولیس میں 41.4 فیصد، عدلیہ میں 17.4 فیصد، ٹھیکوں اور ٹینڈرز میں 10.3 فیصد کرپشن ہے اور عوام کے مطابق یہ تینوں ادارے سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکوں میں 59.8 فیصد، صفائی ستھرائی اور کچرا اٹھانے کے ٹھیکوں میں 13.8 فیصد، واٹر سپلائی میں 13.3 فیصد اور ڈرینیج سسٹم کے شعبے میں 13.1 فیصد اور اہم ترین پبلک سروس سیکٹرز میں کرپشن ہے۔ لوگوں کو سہولیات کے حصول کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ سروے میں 51.9 فیصد عوام کے مطابق ملک میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ کمزور احتساب ہے، 29.3 فیصد کے مطابق طاقتور لوگوں کا لالچ اور 18.8 فیصد کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کم تنخواہیں ہیں۔اس سے ہم یہ اندازہ لگاسکتےہیں کہ پاکستان کا ہر ادارہ کرپشن میں ملوث ہے ۔ملک کے چپراسی سے لیکر اعلی منصب پر فائر بیٹھے ہوئے لوگ اس میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں۔ جس سے جتنا کرپشن ہورہاہے وہ کررہاہے۔ جس ملک کے ہر فرد کرپشن میں مصروف ہو گیا کیایہ ملک ترقی کرسکتاہے؟

حب تک ملک میں کرپشن جیسے طاقتور ناسور ختم نہیں ہوگا تب تک ملک ترقی کی راہ پر گامزان نہیں ہوگا ۔ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث ملک اس نہج پر پہنچ چکاہے۔ اگر اس ناسور کو ختم کرنا ہوگا تو سب کو ملکر ایک اور متحد ہوکر اس ناسور کے خلاف جنگ کرنا ہوگا تب جاکے ہم کچھ حد تک اس کو کم کرنے میں کامیاب ہونگے ورنہ ملک دن بدن اندھیروں کی جانب گامزان ہوگا اور پھر اس ناسور کو قابو میں پانا نامکمن ہوگا۔ کسی نے خوب کہا ہےکہ

Advertisements
julia rana solicitors london

دلوں میں جب وطن ہے تو ایک رہو
نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو
دیمک کی طرح کھارہی ہے اس ملک کو کرپشن
مٹانا یہ ناسور ہے اگر تو ایک رہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply