فیصل آباد میں آئی ٹی یونیورسٹی کا قیام ،سیاسی دعوے اور حقائق

ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ راستے میں پڑے پتھر یا کانٹے کو ہٹانے کا صلہ بھی نوبیل انعام ہی کی صورت میں طلب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ اخلاقی فرض ہے۔ اسی طرح ہمارے منتخب حکمران اگر آٹھ دس سال کی لوٹ مار کے بعد کوئی ڈھنگ کا کام کر لیں، تو چار سُو اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ کروڑوں روپے کے اشتہار اپنی قصہ خوانی کے لیے اخبارات اور چینلز کی زینت بنواتے ہیں حالانکہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ اگر کسی اچھے مقصد کے لیے خرچ کر دیں تو یہ ان کا بھی فرض ہے، کوئی احسان عظیم نہیں۔ تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ چند روز قبل فیصل آباد کی خوش قسمتی کہ آنجناب وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف 10 بار التواء میں جانے کے بعد آخر کار تشریف لے ہی آئے اور الیکشن کی تیاری کے لیے اپنی زنبیل سے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے بھی نکال کر عوامی نمائندوں کی نذر کیے۔ انہوں نے آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی آج کل نجی ٹی وی چینلز پر مقبول انعامی پروگرام کی طرز پر قرعہ اندازی کی صورت میں کیا، حالانکہ اس سطح کی یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ انتہائی سنجیدگی، تحقیق اور مربوط منصوبہ بندی کا متقاضی تھا۔ خیر منصوبے کا اعلان کر دیا گیا لیکن بعد ازاں جو حقائق سامنے آئے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
اول جو جگہ یونیورسٹی کے لیے مختص کی گئی(پرانی سبزی منڈی جھنگ روڈ) وہ آئی ٹی یونیورسٹی کی کثیر المنزلہ اور کثیر المقاصد عمارت کے لیے قطعاً موزوں نہیں، دوم آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کے لیے پاکستان انجینئرنگ کونسل کی اجازت درکار ہے، جہاں ابھی تک کیس ہی فائل نہیں کیا گیا، اور منظوری کے اس عمل کے لیے طویل مدت درکار ہو گی۔ سوم وزیر اعلی کی طرف سے آئی ٹی یونیورسٹی کا اعلان کیا گیا لیکن اب یونیورسٹی کے قیام میں تاخیر کے خدشات کے پیش نظر اسے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ چہارم سیاسی نقاب کشائی کے لیے شہر کے مرکزی دو تعلیمی اداروں (زرعی یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی)میں سے کسی ایک کے اولڈ کیمپس میں ابتدائی طور پر ووکیشنل یونیورسٹی یا ڈیپارٹمنٹ کے نام سے ایک پروگرام شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں آئی ٹی کے پروگرامز بھی شامل ہوں گے اور پنجم یہ کہ مذکورہ ووکیشنل پروگرامز ٹیوٹا اور نیوٹک سمیت فنڈز فراہم کرنے والے اداروں کے زیر انتظام چلائے جائیں گے۔ مقامی یونیورسٹیز سے تعاون اور تجاویز کے حصول کے لیے کمشنر فیصل آباد مومن آغا وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی ڈاکٹر اقرار احمد خاں اور وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی سے الگ الگ ملاقات بھی کر چکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں میں اول الذکر وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی کی طرف سے اظہار دلچسپی نہیں کیا گیا اور جیل روڈ یا نڑ والا روڈ پر نئے ادارے کے لیے اراضی دینے سے بھی معذرت کر لی گئی، البتہ موخر الذکر وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی کی طرف سے منصوبے میں اظہار دلچسپی کیا گیا، لیکن اس منصوبے میں ان کی شمولیت دھوبی گھاٹ سے ملحق اولڈ کیمپس میں عارضی جبکہ نیو کیمپس جھنگ روڈ میں مستقل بنیادوں پر اراضی فراہم کرنے سے مشروط ہو گی۔ ان ملاقاتوں کا احوال دو روز قبل چیف سیکرٹری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کمشنر فیصل آباد پیش کر چکے ہیں، جس کے بعد فیصل آباد میں میڈیکل یونیورسٹی اور آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے لیکن اس کاغذ کے پرزے کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں جب تک انجینئرنگ کونسل یونیورسٹی کے قیام کی منظوری نہیں دیتی۔ گو اس حوالہ سے حکومتی پرزے تاحال درجہ بالا انکشافات کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں لیکن باوثوق ذرائع کے دلائل اور اطلاعات کے برعکس اگر ان سارے حقائق کو مفروضہ مان لیا جائے، تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ اس منصوبے کے لیے فنڈز پنجاب حکومت کے خزانے سے فراہم نہیں کیے جائیں گے۔
کچھ عرصہ قبل ملکی تقدیر بدلنے والے منصوبہ جات پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے الیکشن کیمپین کے لیے ہی بچا رکھے تھے، جو اب دھڑا دھڑ مختلف شہروں میں لانچ کیے جائیں گے۔ ان میں سی پیک کے لیے افرادی قوت کی فراہمی کے منصوبے بھی شامل ہیں، جن میں چین کے پاکستان میں ادارے قائم کے لیے معاہدے بھی شامل ہیں جبکہ کم و بیش 20 ممالک (انڈونیشیا، ملائشیا، عرب امارات، یورپ، کینیڈا ودیگر) نے بھی پاکستان میں ہنر مند افرادی قوت کے حصول کے لیے درجنوں ووکیشنل منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو حکمران تسلیم نہ بھی کریں تو یہ بتانے میں انہیں کوئی عار نہیں ہونی چاہئیے کہ مذکورہ منصوبے کے لیے فنڈز اے ڈی پی(سالانہ ترقیاتی منصوبے) میں کیوں مختص نہیں کیے گئے؟ سپیشل یا صوابدیدی فنڈز اگر کوئی ہیں، تو وہ براہ راست پنجاب بینک سے کیوں جاری نہیں کیے جا رہے؟ غیر ملکی بینکوں سے تھرو پراپر چینل پنجاب حکومت کے اکاونٹ میں کیوں منتقل ہو رہے ہیں؟ حالانکہ یونیورسٹی کے علاوہ 5 ارب روپے کے دیگر منصوبے اے ڈی پی میں شامل ہوں گے۔ ان تمام پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو چند ایک نتائج با آسانی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ یونیورسٹی کا جو خواب دکھایا گیا وہ ایک آدھ دن میں پورا ہونے والا نہیں، اس کے قیام کے لیے کم از کم آئندہ پانچ سالہ حکومتی مدت درکار ہے۔ دوم بیرون ملک سے لیے گئے امدادی اور ترقیاتی فنڈز کو اپنے کریڈٹ پر لے کر واویلا مچایا جا رہا ہے۔ سوم جن منصوبہ جات کے قیام کے لیے دو سال قبل معاہدے ہوئے اور فنڈز بھی وصول کیے گئے، وہ صرف الیکشن مہم چلانے کے لیے تاخیر سے شروع کیے جا رہے ہیں۔ سوال صرف ایک ہے کہ حقائق کے برعکس عوام کو بے وقوف بنانے کی مشق حکمران آخر کب تک کرتے رہیں گے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply