جس نے آواز اُٹھائی ہے، اُٹھایا گیا ہے۔۔۔مظہر حسین سید

پشتون تحفظ موومنٹ  پہلے دن سے ہی ریاست اور ریاستی اداروں کے لیے  ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔  لیکن اس تحریک  کے مطالبات کا حقیقی بنیادوں  پر جائزہ لینے  اور اُن  کے حل کے لیے  مناسب اقدام اُٹھانے کے بجائے ساری توانائیاں   اس تحریک کو  سبوتاژ  کرنے پر صرف کی گئی ہیں ۔  الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا  پر سنسرشپ لگا کر اس تحریک کی کوریج کو روکا گیا  ۔  اس کے خلاف مصنوعی تحریکیں  اُبھارنے  کی ناکام کوششیں کی گئی ۔  اس کے رہنماؤں کے خلاف  بیرونی ایجنٹ اور غدار ہونے کا پراپیگنڈہ کیا گیا ۔  لیکن یہ تمام حربے  آخر کار ناکامی سے دوچار ہوئے  ۔

ریاستی ادارے شاید یہ نہیں جانتے کہ وقت بدل رہا ہے اور  بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ روایتی  ہتھکنڈے کارگر ثابت نہیں ہوتے ۔   اپنے حقیقی اور سلگتے ہوئے مطالبات کے باعث یہ تحریک بڑھتی گئی اور  خیبر پختونخوا  سے نکل  کر پنجاب  اور  سندھ تک پھیل گئی ۔  اور   جہاں جہاں  اس کی گونج سنائی دی   مسائل میں گھرے نوجوان ، طلبا اور محنت کش اس تحریک کی حمایت میں  نکلنے لگے ۔

ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اس صورتحال کا فوری حل تلاش کیا جاتا اور تحریک کے مطالبات کی جانب کوئی پیش رفت ہوتی  ۔ لیکن اداروں نے اس کے بجائے جبر کے روایتی طریقوں  پر ہی اکتفا کیا ۔ کہ آواز اُٹھانے والوں کو ہی اُٹھا لیا جائے ۔

پہلے کراچی میں “پروگریسیویوتھ  الائنس  ” کے نوجوانوں کو  پشتون تحفظ موومنٹ  کی حمایت کرنے پر گرفتار کر لیا گیا   ۔  جب اس غیر قانونی گرفتاری پر لاہور میں احتجاج ہوا  ۔ اور کئی دیگر تنظیموں نے بھی اس کی مذمت کی تو ”   ریڈ ورکرز فرنٹ ”  “پرگریسیو یوتھ الائنس ” اور   “عوامی ورکرز پارٹی  ” کے کئی کارکنان  کو گرفتار کر لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔

یہ سوشل میڈیا  اور انٹر نیٹ کا دور ہے ۔  اس دور میں لوگوں کو گرفتار  یا  لاپتہ کر کے  اُن کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا ۔اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا جرم بنا دیا جا ئے تو اس سے تشدد اور بدامنی ہی فروغ پاتی ہے  امن تشکیل نہیں دیا جا سکتا ۔    منظور پشتین نے  اپنے ایک بیان میں اس عمل کی شدید مذمت کی ہے  اور گرفتار کارکنان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔  اس ریاستی  رد عمل سے    تحریک  کی مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہوا ہے ۔

اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا  میں ترقی پسند تنظیمیں   ان  سیاسی کارکنان کی رہائی کے لیے  آواز بلند کر  رہی ہیں ۔  اور احتجاج کی گونج دنیا کے مختلف خطوں میں سنائی دے رہی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی  ادارے اب بھی اُسی  ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں یا   گرفتار کارکنا ن کو فوری رہا کر کے  تحریک کے جائز مطالبات  کی جانب کوئی مثبت پیش رفت کرتے ہیں ۔   کیونکہ تحریک کے کارکنوں کا لب و لہجہ    آنے والے دنوں میں طوفانی حالات  کی پیشن گوئی کر رہا ہے ۔

Facebook Comments

مظہر حسین سیّد
شاعر نثر نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply