چنگچی رکشے اور اَن بلیوایبل دانشوری

نواں آیاں ایں سوہنیا؟،۔۔۔ “فاصلہ رکھیے ورنہ محبت ہو جائے گی”،” شرارتی لوگوں کے لیئے سزا کا خاص انتظام ہے”،”ساڈے پچھے آویں ذرا سوچ کے”،”دیکھ مگر پیار سے”،”پیار کرنا صحت کے لیئے مضر ہے”،” صدقے جاؤں پر کام نہ آؤں”،” باجی انتظار کا شکریہ”۔۔۔!
دانشوری کے ان اعلیٰ نمونوں کو پڑھ کر ایک بارتو بندا مسکرا ہی اٹھتا ہے،ہمارے پاکستانی ہم وطنو کو ہر چیز اور کام میں بلاوجہ کیڑ ے نکالنے کی عادت ہے۔جب دیکھو کسی نہ کسی بات پر روتے پیٹتے ہی نظر آرہے ہوتے ہیں،دورِ حاضر میں سب سے بڑا رونا ان پڑھ ہونے کا ہے۔۔حا لانکہ ہمارے ملک میں نہ ٹیلنٹ کی کمی ہے،نہ پڑھے لکھے لوگو کی،اینٹ اٹھاؤ تو دو،چار دانشور اکٹھے ہی باہر نکل آتے ہیں،یہ الگ بات کہ مانتا کوئی نہیں۔ مجھے یاد ہے بچپن میں جب سے ہجے کر کے پڑھنا شروع تو ایک عادت سی بن گئی تھی کہ کہیں آتے جاتے راستے میں جو بھی سائن بورڈ لگے ہوتے،اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں انہیں پڑھنے کی کوشش کرتی،یونیورسٹی جاتے تک یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ مجھے گھر سے یونیورسٹی تک راستے میں لگے تقریباً تمام سائن بورڈ، دکانوں کے ماتھوں پر لکھے نام اور پتے تک یاد ہو گئے تھے۔۔اور اس سارے قصے میں سب سے دلچسپ یاد ہونیوالی وہ عبارتیں تھی جو رکشو ں،ٹرکوں،اور بسوں کے پیچھے تحریر ہوتیں تھیں۔۔اس وقت بھی یہی سوچتی کہ پتا نہیں کیوں ا ن لوگوں کو دنیا ان پڑھ، جاہل اور اسی قسم کے نامعقول القابات سے نوازتی ہے جبکہ جس قسم کی دانشور ی انہوں نے اپنے رکشوں اور ٹرکوں کے پیچھے جھاڑ رکھی ہوتی ہے وہ کسی عام بندے کا دماغ نہیں ہوسکتا۔
ایک بار موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے جو رکشہ ہمارے آگے آگے چلا جا رہا تھا اس کے پیچھے لکھا تھا”شیلا کی جوانی ہمارے کس کام کی”۔۔۔۔موٹر سائیکل رکشے کے برابر ہوا تو “نحیف و نزار” سے ڈرائیور کو دیکھ کر بات سمجھ میں آگئی۔۔۔ ” سواری لبھے نہ لبھے، سپیڈ ایک سو نبے” کہنے والا رکشہ چلا نہیں بلکہ اڑا رہا تھا، اور صاف پتہ چل رہا تھا کہ روز کسی نہ کسی کا” پتا” صاف کرتا ہوگا،”دل برائے فروخت،قیمت ایک مسکراہٹ “لکھوانے والے ٹرک ڈرائیورکھڑکی سے چورس ڈبے جیسا منہ باہر نکال نکال کر اپنے پیلے چیکٹ دانتوں کے بیچ سے پان کی پیک تھوکتے ہوئے پاس سے گزرتے ہر “نوجوان” کو مسکرا مسکرا کر دیکھتے ہیں،اور پھر دوسرا پیغام یہ ہوتا ہے “کبھی آؤ نہ خوشبو لگا کے مردان”۔۔۔۔ انہیں ٹرکوں کے پیچھے یہ عبارت بھی پڑھنے کو ملتی ہے کہ”عشق کے جراثیم مرتے نہیں”،حالانکہ جو ان ٹرک ڈرائیوروں کی حالت ہوتی ہے ان کے جراثیم تو دو دن بعد ہی مرنا شرو ع ہو جاتے ہیں۔کچھ اپنے پیشے سے وفادار ڈرائیور ایسوں کو دیکھ کر گاڑی کے پیچھے یوں عبارت لکھواتے ہیں” عاشقی کرنی ہے تو گاڑی چلانا چھوڑ دو”یہ مفت کا مشورہ ہے،ایسے مشورے بھی ہر کوئی نہیں دیتا،آپ کسی سے کچھ پوچھیں تو الٹا بندہ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے، حالات کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے والے یہ دانشور آپ کے لیئے مشورے مفت ہی اپنی گاڑیوں پر لکھوائے پھرتے ہیں اور اکثر دل کے ساتھ ساتھ نیت کے بھی خاصے بے ایمان ہوتے ہیں ۔”ماں کی دعا جنت کی ہوا،بیوی کی دعا دوزخ کی سزا “اپنے رکشو ں یا بسوں پر تحریر کروانے والے گھریلو مسائل سڑکوں پر ہی حل کرنے کے حامی معلوم ہوتے ہیں۔
یہاں کچھ ضدی اور ہٹ دھرم ٹائپ دانشور بھی ملیں گے آپ کو، جن کی سوچ کی عکاسی ان کی چنگچی کے پیچھے تحریر عبارت آسانی سے کر جاتی ہے،ہم سواری کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک رکشہ برق رفتاری سے اپنی جانب آتا نظر آیا،گمان گزرا کہ شاید ہم ڈرائیور کو نظر نہیں آرہے ،لیکن اس وقت یہ گمان غلط فہمی میں بدل گیا جب رکشے کا اگلا ٹائر عین ہمارے پاؤں سے آدھ انچ کے فاصلے پر آن رکا۔۔۔خطا ہوتے اوسان کے ساتھ دیکھا تو رکشےکی پیشانی پر لکھا تھا “براق کی سواری”۔۔۔۔خیر کرائے پر بھاؤ تاؤ کرکے رکشے میں سوار ہوئے تو “ایک اور خطرے کا سامنا تھا،میں ایک خطرے سے بچ کے نکلی تو میں نے دیکھا”۔۔۔دروازے کے اندرونی سائیڈ پر لکھا تھا”ایک بار رکشہ سٹارٹ کرلوں ،پھر تو میں بریک کی بھی نہیں سنتا”۔۔۔ابھی خشک ہوتی سانسیں بحال بھی نہ ہوئیں تھیں کہ اسپیکر سے ایکدم واہیات سی آواز موسیقی کے نام پر چیخ و پکار مچانے لگی اور اسی پل ایک چنگچی والا ہمارے رکشے کے سامنے آکر کرتب دکھانے لگا،یوں معلوم پڑتا تھا جیسے ہم”موت کے کنوے”کے اوپر کھڑے ہوں ،رکشے والا گول گول چکر کاٹ رہا ہو اور چنگچی والا کنوے کے احاطے میں ناچنے والے رنگ برنگے کھسروں سے ڈسکو ٹھمکوں کا مقابلہ کر رہا ہو۔۔ جس کے پیچھے لکھا تھا “روک مت جانے دے،جٹ تے آپ بڑا اتھرا اے”۔۔۔دائیں سائیڈ پر ہلکے سُروں میں چلتا رکشہ کچھ اور ہلکا ہو گیا ،لکھا تھا “لنگھ جا،تے چول نہ ماریں “۔کچھ ڈرائیور زندگی سے ایسے بیزار دکھا ئی دیتے ہیں کہ ان کے رکشے پر لکھی عبارت پڑھ کر سواری دہل جاتی ہے اور کئی بار سوچتی ہے بیٹھوں کہ نہ بیٹھوں “یہ جینا بھی کوئی جینا ہے،جہلم سے آگے دینہ ہے”خیال گزرتا ہے کہ پتا نہیں جیون بیزار ہیں شاید،چنگچی رکشے سفر کے ساتھ ” suffer ” بھی خوب کرواتے ہیں۔۔
پاکستان کے رکشہ ڈرائیور بھی لکھنؤ میرٹھ جیسا ذوق رکھتے ہیں،بیروزگاری کے ہاتھوں تعلیم یافتہ اعلیٰ ذوق کے حامل افراد بھی چنگچی چلانے پر مجبور ہیں،ان کی فہم و فراست کا انداز ہ اس فقرے سے بخوبی لگا یا جا سکتاہے “ہارن آہستہ بجائیں قوم سو رہی ہے”۔۔۔یہ بیچارے ہارن آہستہ بجانے کا ہی مشورہ دے سکتے ہیں،سوئی ہوئی قوم کے” کان کے نیچے بجانے “کا حوصلہ ان میں مفقود ہے!!!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply