خالد جاوید صاحب کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں پروفیسر ہیں۔ موت کی کتاب ان کا مختصر ناول ہے جس کو پاکستان میں سٹی بک پوائنٹ نے شائع کیا ہے۔
یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول ہے۔ جس میں ایک ایسی شخص کی داستان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی دکھ اور تکلیفیں سہہ رہا ہے۔
اس ناول کی خاص بات کہ اُردو کے نامور ادیب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے اس ناول کو سراہا ہے اور میرے خیال سے یہ ہی اس کا سب سے بڑا اعزاز بھی ہے۔ فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ ناول کوئی آسان کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا صحیفہ ایوب کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح وہ آسان اس طرح اس کی زبان انتہائی مشکل ہے۔ فاروقی صاحب کے رائے کے آگے بات کرنا تو ویسے بھی سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے مگر میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ پتہ نہیں فاروقی صاحب نے اس کا کس وجہ سے صحیفہ ایوب کے کے ساتھ ذکر کر دیا۔ پھر فاروقی صاحب نے جس طرح اس کتاب کو سراہا اس میں بھی قدرے مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے۔ ہاں البتہ فاروقی صاحب کی اس بات سے ضرور اتفاق ہے کہ یہ کوئی آسان کتاب نہیں۔
مصنف خالد جاوید صاحب نے بھی شروع کے پیش لفظ میں کتاب کے بارے میں بتا دیا ہے کہ ممکن ہے یہ بہت سے لوگوں کو گرا گزرے۔ میں پہلے اس کو مصنف کی عاجزی سمجھا تھا مگر کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مصنف نے یہ بھیانک سچ لکھا تھا۔ اپنی ہی تحریر کا ایسا سچا اور تلخ ذکر کرنے پر خالد صاحب داد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
اپنے پیش لفظ میں خالد جاوید صاحب لکھتے ہیں
‘ادب کو زیادہ تر لوگ جمالیاتی انبساط حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں جبکہ ادب کا اصل کام ضمیر کے دھول بھرے دروازے پر لگاتار دستکیں دینے کا ہے’
مصنف کی بات درست ہے کہ ادب کا ضمیر پر مسلسل دستک دینا ہے۔ مگر جمالیاتی پہلو کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا پھر ضروری تو نہیں کہ ضمیر پر دستک دینے کے لیے قاری کو مسلسل کرب ، اذیت اور تکلیف ہی سے گزارا جائے۔ ادب کا ایک اہم مقصد سماجی شعور کی بلندی ہے۔ سماج میں جہاں بہت سے مسائل ہوتے ہیں تو کئی روشن پہلو بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں آگاہی فراہم کی جانی چاہیے۔ پھر انسانی زندگی میں بھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور ادب کا اہم ترین جز انسان ہی ہے۔ بالعموم جس انسان نے کبھی تکلیف نہ دیکھی ہو اس کی زندگی کے بارے میں کسی کی اتنی دلچسپی نہیں ہوتی لیکن اس پر اگر کوئی ایک ایسے انسان کی زندگی کو موضوع بنائے جس نے کبھی سکھ نہ دیکھا ہو تو وہ بھی ایک غیر حقیقی بات لگتی ہے۔
یہ ناول آج سے دو سو سال بعد کا ایک منظر پیش کرتا ہے جہاں تل ماس کے کھنڈرات میں انیس اوراق کا دو سو سال پرانا نسخہ دریافت ہوا ہے۔اس کی زبان اجنبی ہے مگر اس کو ڈھونڈنے والا اس کی زبان تک پہنچ جاتا ہے اور جو اس نسخے میں موجود ہے اس کو پڑھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ 2211 میں ملے اس نسخے میں دو سو سال قبل کے انسان کی کہانی ہے جس سے اس دور کی زندگی کی ایک جھلک کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس ناول میں بنیادی طور پر ایک شخص کی کہانی ہے جس کی زندگی میں کبھی خوشی نہیں آئی ، جس کو ہر طرف سے اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کا باپ ایک زمیندار ہے جبکہ اس کی ماں مراثن کی بیٹی ہے۔ ماں نے کچھ تعلیم حاصل کی اور خاندانی پیشہ نہیں اپنایا۔ وہ اس کے زمیندار باپ کو پسند آ جاتی ہے۔ جس سے وہ خاندانی دباؤ کو مسترد کرکے شادی کر لیتا ہے مگر جلد ہی ان دونوں میں لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ لڑائی اس وقت شدت اختیار کرتی ہے جب اس کا باپ جنگ کے دنوں میں اپنے ایک ہم مذہب فوجی کو گھر پناہ دیتا ہے۔ بعد میں اس پر منکشف ہوتا ہے کہ اس کی بیوی کے فوجی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ پھر جب وہ حاملہ ہوتی ہے تو اس کا شوہر اس پر شک کرتا ہے کہ یہ اولاد اس کی نہیں ہے۔ عورت یقین دلاتی ہے کہ بچہ اس کا ہی ہے۔ وہ شخص اپنی بیوی کو جبکہ بچہ اس کے پیٹ میں ہوتا ہے پر تشدد کرتا ہے تو پیٹ میں موجود بچے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ لہذا اپنی پیدائش کے بعد جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کو اپنے باپ سے نفرت ہوتی جاتی ہے اور وقت کے ساتھ یہ نفرت بڑھتی جاتی ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار ایک کمزور ارادے کا شخص ہے جو کہانی کے آغاز سے لیکر آخر تک خود کشی کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کو پورا نہیں کرتا۔ ایسا ہی وہ اپنے باپ کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اس کے لیے ایک خنجر اس کے پاس ہوتا ہے کہ اس کے وار سے وہ اپنے باپ کو مار ڈالے گا مگر آخر دم تک وہ یہ کام بھی نہیں کر پاتا۔
مصنف نے بہت کامیابی سے ایک ناکام اور بدقسمت شخص کا خاکہ پیش کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے جس قدر بھیانک اور خوفناک منظر کشی کی ہے وہ جہاں قاری کو تکلیف اور اذیت میں ڈالتی ہے تو مصنف کے طرز تحریر کی تعریف بنتی ہے۔
کہانی کے مرکزی کردار کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خوشگوار بات اس کہانی میں اس کے بارے میں ہے تو وہ یہ خواب ہی ہیں۔ حالانکہ یہ بے معنی خواب ہیں مگر وہ اس کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ یہ خواب اس کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس کو پیدائش سے ہی کچھ مسائل کا سامنا ہےتو اس کو اس کے والدین خواب آور گولیاں دیتے ہیں۔ وہ بہت لمبی نیند سوتا ہے لیکن ان گولیوں نے اس کے اعصاب ہی کمزور کر ڈالے ہیں۔ اس کے ساتھ مرکزی کردار کی جنسی زندگی کی بھی کافی غیر متوازن تصویر مصنف نے بیان کی ہے۔ اس پر ہر وقت جنسی شہوت کا غلبہ رہتا ہے۔ اس کی زبردستی شادی کی جاتی ہے۔ شادی کے ساتھ اس کی جنسی شہوت میں پہلے جیسا جوش نہیں رہتا تو اس کے ساتھ ہی شادی کے بعد اب اس کو خواب بھی نہیں آتے۔ ان خوابوں سے محرومی پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے خوابوں سے کتنا مانوس ہوتا ہے۔
باپ اور بیٹے کے رشتے کی بھی کافی عجیب تصویر پیش کی گئی ہے جو کہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب اس کی ماں ناراض ہو کر جاتی ہے تو اس کا باپ ہی اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ گو کہ باپ اپنے بیٹے کو مارتا بھی ہے مگر ایک باپ کے ذمہ داری کے طور پر اس کے نان و نفقہ کی ضروریات وہ پوری کرتا نظر آتا ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ بھی کوئی مضبوط نہیں ہے۔ اکثر ان دونوں کے مابین جھگڑے اور گالم گلوج کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پہلے بیوی شوہر پر حاوی ہوتی ہے مگر جب اس کی اولاد ہو جاتی ہے تو وہ قدرے بزدل ہو جاتی ہے۔ ایک جگہ دکھایا گیا ہے کہ جب بیوی شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہے تو اپنا غصہ ڈھول مار کر پورا کرتی ہے جس کے ساتھ وہ گالی نما گیت گاتی ہے۔لیکن پھر یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر جاتی ہے تو اس کا شوہر تنہائی میں بیٹھ کر اس کو یاد بھی کرتا ہے اور روتا بھی ہے۔ جس ڈھول سے وہ چڑتا ہے اب اس کی دھول وہ کبھی کبھی صاف کر رہا ہوتا ہے۔
آخر میں مرکزی کردار کو ایک پاگل خانے میں دکھایا گیا ہے جہاں اس کو الیکٹریک شاکس دیئے جاتے۔ ایک پاگل اور ذہنی مریض کے تناظر میں اگر کہانی کو دیکھا جائے تو پھر اس کا پلاٹ اور منظر کے بارے میں مصنف کو داد دی جا سکتی ہے۔ بلکہ مصنف نے تو اس قدر بھیانک تصویر پیش کی ہے کہ پڑھنے والے پر بھی یہ منفی تاثر ضرور چھوڑتی ہے۔
کتاب کے آغاز میں مصنف نے دیگر مصنفین کی کچھ جملے نقل کیے ہیں جو کہ بہت پر اثر ہیں۔
ژاں ژاک روسو کا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں
‘کوئی پھول، پتہ یا پودا کتنا ہی نازک، کتنا ہی خوبصورت، حیرت انگیز اور مختلف کیوں نہ ہو، کسی اناڑی کی انکھ کو وہ زیادہ دیر تک مسرت نہیں بخش سکتا۔نباتات کی رنگا رنگی سے حظ اٹھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی تھوڑی بہت سمجھ تو ہو، مختلف پودوں کے آپسی رشتوں، ان کی خصوصیات اور ان کی انفرادیت کا کچھ علم ضرور ہو اور سب سے زیادہ علم تو مٹی کا ہونا چاہیے”
اس کے ساتھ حوزے ساراماگو کا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں
“بچپن میں پہلی بار میں گیس کا غبارہ ہاتھ میں تھامے ایک سڑک پر دوڑتا چلا جا رہا تھا۔ میں بہت شاد اور مگن تھا کہ غبارہ ایک آواز کے ساتھ پھٹ گیا میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا سڑک پر قابل رحم انداز میں ایک پچکی ہوئی ربڑ کی لچلچی سی شے پڑی ہوئی تھی۔ اب اس عمر میں آ کر مجھے یہ سمجھ میں اگیا وہ پچکی ہوئی شے دنیا تھی”
پسند ناپسند سے ہٹ کر یہ اردو ادب کی تاریخ کا ایک منفرد ناول ہے جس کا اسلوب باقی ناولوں سے جدا ہے پھر شمس الرحمن فاروقی صاحب جیسے مستند ادیب کی تائید بعد اس کو بڑا ناول کہا جا سکتا ہے۔ مگر میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد اس ناول کو دوبارہ پڑھنے کا انتخاب نہیں کروں گا۔
آخر میں والٹر بنجامن کا ہی ایک جملہ جو مصنف نے کتاب کے شروع میں لکھا اس کتاب کے لیے بھی صادق آتا ہے
“کوئی نظم پڑھنے والی کے لیے نہیں ہے، کوئی تصویر دیکھنے والے کے لیے نہیں ہے اور کوئی موسیقی سننے والے کے لیے نہیں ہے”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں