کجاوے۔۔۔عارف خٹک

کجاوے یا کجاوا دو بوری نما قسم کی نشستیں ہوتی ہیں۔ جو لکڑی سے بنائی جاتی ہیں۔ آسان لفظوں میں اسے کاٹھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے زمانے میں اونٹوں پر لگاکر اُس میں مسافر بٹھائے جاتے تھے۔ اور دُور دراز سفر کیا جاتا تھا۔ آج بھی افغانستان اور پاکستان کی سرحدی پٹی پر کبھی کبھار خانہ بدوش قبیلہ جو کوچی یا کوچیان کہلاتے ہیں۔اُن کے اونٹوں پر لگے رنگین کجاوے جن میں کوچی خواتین محو سفر ہوتی ہیں۔بندے کو ماضی میں   جانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

کجاوا پشتون معاشرے میں مُحبت اور وصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوچی قبیلہ بھی پشتو رومانی ادب کا حصہ رہا ہے۔پشتون دُلہنیں کجاوے میں سوار ہوکر بابل کا گھر چھوڑ کر پیا دیس سدھار جاتی تھیں۔
میری امی کی شادی 1974ء میں ہوئی۔امی بتاتی ہیں کہ پورے علاقے میں اُن کی شادی کی دُھوم تھی۔ وہ اپنے علاقے کی واحد دلہن تھی۔ جس کو مبلغ 2،500 روپے کا جہیز دیا گیا تھا۔ ساتھ میں پہلی سلائی مشین جو امی کو جہیز میں ملی تھی۔ کجاوا سے وہ مشین اس کی سہیلی کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور ٹوٹ گئی۔وہ آج بھی  اماں کے پاس ویسی کی ویسی رکھی ہوئی ہے۔

میں نے کجاوے آخری بار 1994 میں دیکھے تھے۔چھوٹے ماموں کی شادی تھی۔ اور ماموں کی خواہش تھی کہ اُن کی دُلہن کجاوے میں بیٹھ کر آئے۔مُہاروں سے بیس اونٹوں کا سودا طے ہوا۔اور فی اونٹ کا کرایہ پچاس روپے اور دس کلو گندم کے عوض طے پایا۔صبح سویرے اونٹ لا کر بٹھا دیئے گئے۔ رنگین آنچل ہر سُو لہرا رہے تھے۔ ہم بچے تھے،سو خواتین کا اتنڑ دیکھنے کی اجازت تھی۔ بہانے بہانے سے کبھی چچی کا بیٹا گود میں لیتے،یا پھر ابا کی کسی دُور کی کزن پھوپھو کے پاس جاکر پوچھتے کہ اگر ان کے بچوں نے کھانا نہیں کھایا۔تو ہمیں بتادیں،باہر دیگ والا اپنا بندہ ہے۔

خواتین کی اسی قسم کی جی حضوریاں کرتے ہوئے نانا کے کمرے کے پاس سے گُزر رہا تھا۔کہ اچانک نانا کی غصے بھری آواز میں گالی سنائی دی۔ساتھ میں زنانہ چیخ نے گویا میرے قدم روک لئے۔ ممانی رو رہی تھی۔
لرزتے پیروں سے آگے بڑھ کر دروازے کی اوٹ سے کان لگا کر سُننے لگا۔تو نانا کی پُھنکارتی ہوئی آواز آئی کہ۔۔۔
“کیا ہوا اگر دو جماعتیں پاس کرلی ہیں پوتی نے۔ اس کی یہ مجال کہ اس نے اتنا بڑا قدم اُٹھا لیا۔ ۔۔۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ میرے دادا کا ایک نام ہے۔ جرگے کراتا ہے۔ اس نے ایک کمی کمین کو رومال کا تحفہ بھیجا؟ اور اس کمی کمین کی ہمت کہ وہ رشتہ لیکر میرے پاس آگیا۔۔۔۔؟”

میں گھبرا گیا۔ مجھے ماحول میں کہیں خون کی بُو محسوس ہوئی۔ مگر اتنی عمر نہیں تھی  کہ زیادہ سوچ پاتا۔ لہٰذا پھر شادی کے ہنگاموں میں کھو کر سب کُچھ بُھول بھال گیا۔
لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتیں،دنداسہ لگےدانتوں سے کھلکھلاتی اور تیز سُرخی لگائے لال ہونٹوں سے خوشی کے گیت گاتی ہوئی اُونٹوں کے کجاوں میں بیٹھنے لگیں۔ میں نے ماں کو دیکھا،جو سپاٹ چہرہ لئے اس سارےماحول میں اجنبی اجنبی سی لگ رہی تھی۔ اچانک میرے بڑے ماموں کی بیٹی جو عمر میں مجھ سے بڑی تھی۔ جس کو بچپن سے دیکھ کر ہمیشہ یہی آرزو کرتا رہا کہ کاش میں اُس سے عُمر میں بڑا ہوتا۔تو اس سے محبت کا اظہار تو کرسکتا۔ وہ مہندی لگے ہاتھوں سے ڈھولک بجا رہی تھی۔ اُس کی خوشی دیدنی تھی  اور اُسے خوش دیکھ کر مجھے بھی گُوناگُوں ایک انجانی سی خوشی محسوس ہورہی تھی۔ میرے لئے اتنا کافی تھا کہ وہ خوش تھی  مگر نانا اسے خشمگیں نظروں سے گُھور رہے تھے۔ کہانی اب کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی۔

بارات    خوشی کے گیت گاتی ہوئی دوسرے گاؤں کی طرف چل پڑی۔مرد سارے پیادہ پا تھے اور ہر پانچ منٹ کے بعد اکھٹے ہوکر اتنڑ ڈالتے،بندوق کی نالیاں آسمان کی طرف کرکے فائرنگ کھول دیتے  اور آس پاس کی پہاڑیاں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اُٹھتیں۔
خیر دُلہن کو کجاوے پر بٹھا کر دوبارہ واپس اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔ ماحول میں ایک عجیب سی مستی چھائی ہوئی تھی۔ عورتیں َخوشی کے گیت گاکر گویا یہ ثابت کررہی تھی کہ وہ دنیا کی خوش نصیب ترین مخلوق ہیں اور اس سے زیادہ خوشی کا دن اُن کی زندگی میں اور نہیں آنا۔مرد اپنی خوشیاں بندوقوں کو سونپ کر گویا فریضۂ غیرت ادا کئے جارہے تھے۔

بارات جب گھر کے سامنے رکی  تو نانا نے انگریز کے زمانے کا ڈبل بیرل شارٹ گن اٹھا کر فائرنگ شروع کردی۔ ماموں لوگ بھی اپنے والد کی تقلید کرتے ہوئےفائرنگ کرنے لگے کہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں ایک تیز نسوانی درد بھری چیخ  شامل ہوئی۔اُس چیخ کے تعاقب میں سب کی نظریں گئیں۔تو دیکھا کہ میری ماموں زاد کجاوے سے ڈھولکی سمیت نیچے گر گئی تھی۔خطا اوسان سمیت میں چیختا ہوا اُس کے قریب گیا  تو ماتھے پر لگے چھرے اور بھل بھل بہتا خُون مجھے سارا معاملہ سمجھانے کیلئے کافی تھا۔میں اُس کا بےجان ہوتا ہوا جسم گود میں لئے چیخ چیخ کر بین کررہا تھا۔مگر سامنے کھڑے غیرت مند نانا اور ماموں سپاٹ چہرے لئے یوں کھڑے تھے۔ جیسے کُچھ ہوا ہی نہ ہو۔

سب افسوس کررہے تھے کہ بیچاری اندھی گولی کا شکار ہوگئی ہے  مگر میرے دل کو پتہ تھا کہ یہ قتل ہی تھا۔کیونکہ نانا کے فائرنگ کرنے سے پہلے میں نے ممانی کی دلدوز چیخیں سنی تھیں  کہ اُسے معلوم تھا کہ گولیاں اندھی نہیں تھیں۔بلکہ اُن کو اندھا بنا دیا گیا تھا اور اُن ہی اندھی گولیوں نے اس خوشی کے موقع پر اُس کی گود اُجاڑنی ہے۔

مردوں کی اس دُنیا میں ایک ہی گھر میں کسی کے لئے خوشی کے شادیانے بجے،تو کسی کے ارمانوں کا خُون ہوا۔ایک لڑکی سُرخ جوڑا پہن کر جھولی بھر بھر خوشیاں سمیٹنے آئی اور دوسری ایک زندگی سے بھرپُور لڑکی کو ذات پات کی تقسیم نے سفید کفن پہنا کر خالی ہاتھ خالی دل وداع کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کرک کی سرزمین پر برسوں بعد مجھے کجاوے نظر آئے تو سوچا آپ لوگوں کو بھی یہ تلخ حقیقت بتادوں  کہ کجاوا ہمارے ہاں وصل کے ساتھ ساتھ ہجر کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply