انقلابِ ثور کانفرنس

نوٹ:( انقلاب ِ ثور کی 39ویں سالگرہ پر ” انقلابی آدرش فورم۔کراچی“ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں مقررین کا خطاب)
افغان انقلابِ ثور کو خون میں نہلا نے والی قوتیں ہی دنیا میں مذہب کے نام پر جاری بربریت کی ذمہ دار ہیں ۔ اس عفریت کے خلاف مربوط وہمہ گیر پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ہی سماج کو آگے کی جانب لے جایا جا سکتا ہے ۔
افغانستان میں اپریل 1978میں آنے والی انقلابی تبدیلی کو خون میں نہلانے والی قوتیں آج دنیا بھر میں مذہب کے نام پر ہونے والی بربریت اور کشت وخون کی ذمہ دار ہیں۔ اس ماحول سے باہر نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ان قوتوں کو انسانیت سوز جرائم کا مجرم قرار دیکر مذہبی جنونیت کے عفریت سے نبرد آزما ہونے کا ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے ۔
ان خیالات کا اظہار افغان انقلاب ِ ثور کی 39ویں سالگرہ کے موقع پر ” انقلابی آدرش فورم ،کراچی “ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار بعنوان ” مذہبی جنونیت کے فروغ میں سامراجی کردار اور بین الاقوامی سیاست پر اس کے اثرات “ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا ۔سیمینار میں سیاسی کارکنوں ، دانشوروں،مختلف صنعتوں سے وابستہ مزدوروں ، محنت کش عورتوں اور طلباءکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ افغان انقلاب نے صدیوں سے غلامی اور پستی کی خاک میں اَٹے افغانستان کے قبائلی نظام پر ایک کاری ضرب لگائی ۔اس انقلاب کے نتیجے میں افغانستان میں پہلی بار زمینیں بے زمین کسانوں میں مفت تقسیم ہوئیں ، تعلیم،رہائش ،صحت ہر شہری کا بنیادی اور مفت حق قرار دیا گیا ، سودی کاروبار کا خاتمہ کیا گیا ،صدیوں سے جاری عورتوں کی خرید وفرخت ممنوع قرار پائی ۔سب سے بڑھ کرعمل یہ تھا کہ اس انقلاب کے نتیجے میں اقتدار محنت کشوں کے حقیقی نمائندوں کی دسترس میں آیااور سامراجی تسلط کی زنجیروں کو توڑ دیا گیا ۔ ا انقلاب کی بازگشت ساری دنیا خصوصاََ خطے کے مسلم ممالک کے عوام میں ہوا کا تازہ جھونکا محسوس ہوئی ۔ اس انقلاب نے ایرانی عوام کی جدوجہد کو تقویت پہنچائی جس کے نتیجے میں فروری 1979میں وہاں بادشاہت کا خاتمہ ممکن ہوا ۔
مقررین نے مزید کہا کہ محنت کشوں ،دہقانوں کے اس انقلاب کے خوف سے خلیجی ممالک کے شیوخ ،بادشاہ اور پاکستان کے آمر حکمران پر خوف طاری ہوا اور انھوں نے سامراجی ممالک سے گٹھ جوڑ کر کے مذہب کے مقدس نام کو ایک ایسی جنگ کے لیے استعمال کیا جس کے تباہ کن اثرات آج بھی پاکستان ، افغانستان،سعودی عرب ،یمن، شام، الجزائر، لیبیا ،عراق ،بوسینیا ،چیچنیا وغیرہ میں نہ صرف شدت سے محسوس ہو رہے ہیں بلکہ یورپی ممالک اور امریکا کے عوام بھی سراسمیگی اور خوف کے ماحول میں رہ رہے ہیں ۔ افغانستان کی انقلابی، عوام دوست ،سامراج مخالف ، جمہوری ،سیکولر حکومت کو ختم کرنے کے لیے مجاہدین ، القاعدہ اور طالبان جیسی تنظیموں کو مختلف ناموں سے مسلح کیا گیا اور خود پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ مسلح لشکر تشکیل دیے گئے ۔40سال قبل ہم سامراجی ایماءپر پڑوس کی جس جنگ میں شامل ہو ئے اور اپنے بچوں کو اس کا ایندھن بنایا وہی کچھ ہم اب یمن میں کرنے جا رہے ہیں جس کے تباہ کن اثرات شاہد اگلی نصف صدی تک ہم بھگتیںگے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ آج صورتحال یہ ہے کہ ان کا پیداکردہ عفریت اپنی ہی خالقوں پر پل پڑا ہے لیکن حکومت اور ریاستی اداروں کی کوتاہ اندیشی کا عالم یہ ہے کہ وہ آج بھی دہشت گردوں میں اچھے اور برے کی تفریق کرتے ہیں ۔ کئی ایک نام نہاد دانشور اور مذہبی جماعتیں ان کے معذرت خواہ بنے ہوئے ہیں ۔ سماج میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہوئی اس وحشت سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنے اعلانیہ و غیر اعلانیہ گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے اس عفریت کے خلاف مربوط وہمہ گیر پالیسی پر عمل پیرا ہو جس کے تحت ریاست اور اس کے ادارے فی الفور مذہبی انتہا پسندی اور اس کے اظہار کی تمام شکلوں سے براءت کا اعلان کرے اور ان کی ملکی وغیر ملکی مالی ،سیاسی امداد کے تمام ذرائع کا خاتمہ کرے ،مذہبی وفرقہ وارانہ منافرت پر مبنی سوچ کے لیے زیرو ٹولرنس کا عملی مظاہرہ کرے ۔ایسی طویل المدتی حکمت ِ عملی مرتب کی جائے جس کے تحت تعلیمی اور نشرو اشاعت کے اداروں کو سماجی ترقی کی جانب جانے والی سوچ سے ہم آہنگ کیا جائے۔ تعلیمی نظام کو یکساں کیا جائے اور اس کی بنیاد پر سائنسی علوم ،عقل ودلیل کو بنیاد بنایا جائے ۔ مدارس کو مکمل طور پر سرکاری تحویل میں لیکر اسے نئے نظام ِ تعلیم کا حصہ بنایا جائے اور ریاست مذہب کی بنیاد پر تفاوت برتنے والی تمام آئینی وقانونی شقوںکو خارج کرے ۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ مشال خان شہید کے قاتلوں کو کڑی سزائیں دی جائیں ۔
سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں بزرگ مزدور رہنما عثمان بلوچ ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور ، جئے سندھ محاذ کے چیئر مین عبدالخالق جونیجو ، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکریٹری زہرا خان ، انقلابی آدرش فورم کراچی کے رہنما مشتاق علی شان،دانشور اور کالم نگار زبیر رحمن ،NTUFسندھ کے صدر گل رحمن اور دیگر شامل تھے ۔ سیمینار میں نوجوان انقلابی شاعر سجاد ظہیرسولنگی نے انقلابی نظمیں بھی پیش کیں ۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply