پارسی (جس کا مطلب ہے “فارسی”) برصغیر کا ایک نسلی مذہبی گروہ ہے جس کا مذہب زرتشتی ہے۔ یہ زیادہ تر ممبئی میں رہتے ہیں اور کچھ قصبات اور دیہات میں بھی رہائش پذیر ہیں لیکن یہ بھی زیادہ تر ممبئی کے جنوب میں واقع ہیں، تاہم کراچی (پاکستان) اور چنئی میں بھی چند خاندان آباد ہیں۔ پونا کے ساتھ ساتھ بنگلور میں بھی پارسیوں کی اچھی خاصی آبادی موجود ہے۔
چند پارسی خاندان کولکتہ اور حیدرآباد میں بھی مقیم ہیں۔ پارسی سب سے چھوٹی نسلی مذہبی برادریوں میں سے ایک ہیں، جن کی تعداد 2011 کی بھارتی مردم شماری کے مطابق تقریباً 57، 264 ہے (2001 میں یہ تعداد 69، 601 تھی اور 1940 میں 114، 000 تھی)۔
پارسی برادری کی طرف سے 1995 میں کرائی گئی مردم شماری سے پتا چلتا ہے کہ پورے پاکستان میں 2، 831 پارسی رہتے ہیں: 2، 647 کراچی میں، 94 لاہور میں، 45 کوئٹہ میں، 30 اسلام آباد اور راولپنڈی میں، 8 ملتان میں، اور 7 پشاور اور دیگر شہروں میں۔ اے اینڈ ٹی ڈائریکٹری، جس میں تمام پاکستانی پارسیوں کی تفصیلات درج ہیں، کے 2015 ایڈیشن کے مطابق ملک میں کمیونٹی کی آبادی کم ہو کر 1، 416 ہو گئی ہے: کراچی میں 1، 359، لاہور میں 32، راولپنڈی میں 16، کوئٹہ میں 7 اور ملتان میں دو۔
پاکستان کے پارسیوں کی تازہ ترین گنتی سے پتا چلتا ہے کہ کمیونٹی کم ہو کر 1، 092 رہ گئی ہے، جو صرف کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ مسلسل کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ کمیونٹی کی تقریباً پوری نوجوان نسل واپسی کا کوئی ارادہ کیے بغیر بیرون ملک چلی گئی ہے۔ ایک اور وجہ پارسیوں کا خالص شادی کا قانون ہے۔
اگر کوئی پارسی عورت کسی غیر زرتشتی سے شادی کرتی ہے تو اسے کمیونٹی چھوڑنے اور دیگر پابندیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی پارسی نہیں بن سکتا، کیوں کہ یہ ایک نسلی شناخت بھی ہے۔ ایک شخص زرتشتی مذہب کو قبول کر سکتا ہے، لیکن وہ کبھی بھی حقیقی پارسی نہیں ہو گا۔ پارسیوں کی تعداد میں یہ کمی ایک عالمی رجحان ہے جو بتاتا ہے کہ ایک دن اس کمیونٹی کا وجود ختم ہو جائے گا۔
آج کے پارسیوں کے آباؤ اجداد نے ساتویں صدی عیسوی میں فارس پر مسلمانوں کی فتح کے بعد جدید دور کے ایران سے اس خطے کی طرف ہجرت کی تھی۔ پارسیوں نے آٹھویں اور دسویں صدی کے درمیان تباہ شدہ ساسانی سلطنت سے گجرات کی طرف ہجرت کرنا جاری رکھا، جہاں انھیں مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات کے دوران پناہ دی گئی۔
فارس پر مسلمانوں کی فتح کے وقت، خطے کا غالب مذہب زرتشتی تھا، ایک ایرانی مذہب جو ساسانی سلطنت کے سرکاری مذہب کے طورپر بھی رائج تھا۔ بہت سے قابل ذکر ایرانی شخصیات نے تقریباً 200 سال تک راشدین فوج اور بعد میں مسلم خلافت کے خلاف سرگرم بغاوت کی، جب کہ دیگر نے اس دوران ایران سے ہندوستان فرار ہو کر اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھنے کا انتخاب کیا۔
دوسری صدی قبل مسیح کی طرف لوٹ کر دیکھا جائے تو زرتشی مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے جو مسلسل رائج رہا ہے۔ یہ اچھائی اور برائی کی ثنوی کونیات، اور ایک عقیدہ مِعادیات (عقیدہ جرم و سزا) پر مبنی ہے جو برائی پر اچھائی کی حتمی فتح کی پیش گوئی کرتی ہے۔ آتش پرست ایک آفاقی، ماورائی، مطلق خیر، اور غیر تخلیق شدہ اعلیٰ خالق دیوتا، اہورا مزدا، یا “حکیم رب” کو مانتے ہیں۔ مندروں، قربان گاہوں یا تصویروں میں خدا کی نمایندگی ممنوع ہے۔ آتش پرست یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اہورا مزدا عالم کل تو ہے لیکن قادر مطلق نہیں۔
زرتشتی الہٰیات آشا کے تین اہم ترین اصولوں کی پیروی پر مبنی ہے جو اچھے خیالات، اچھے الفاظ اور اچھے اعمال کے گرد گھومتے ہیں۔ اس میں خوشی پھیلانے پر بھی بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، زیادہ تر خیرات اور مرد و عورت دونوں کی روحانی مساوات اور فرائض کے احترام کے ذریعے۔ زرتشتی مذہب فطرت اور اس کے عناصر کے تحفظ اور تعظیم پر بھی بہت زیادہ زور دیتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے اسے “دنیا میں ماحولیات کا پہلا حامی” قرار دیا۔ اوستا زرتشتی کے مذہبی متن کا اساسی مجموعہ ہے۔
یہ مذہب کہتا ہے کہ خوشی کو یقینی بنانے اور افراتفری کو دور رکھنے کے لیے اچھے خیالات اور اچھے الفاظ سے تشکیل پانے والے اچھے اعمال کے ذریعے زندگی میں فعال اور اخلاقی شرکت ضروری ہے۔ یہ فعال شرکت زرتشتی کے ارادے کی آزادی کے تصور کا مرکزی عنصر ہے، زرتشتی مذہب اگرچہ سنیاسی اور رہبانیت کی انتہائی شکلوں کو مسترد کرتا ہے لیکن تاریخی طور پر ان تصورات کے معتدل اظہار کی اجازت بھی دی گئی ہے
زرتشتی مذہب میں پانی (آبان) اور آگ (آذر) مذہبی رسوم کے دوران پاکیزگی کے اہم عناصر ہیں، اور متعلقہ تقریباتِ پاکیزگی کو رسومیاتی زندگی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ زرتشتی کے نظریہ تخلیق کے مطابق پانی اور آگ بالترتیب تخلیق کیے جانے والے دوسرے اور آخری بنیادی عناصر ہیں، اور مقدس صحیفے کے مطابق آگ کی اصل پانی میں ہے۔ پانی اور آگ زندگی کو برقرار رکھنے والے عناصر سمجھے جاتے ہیں، اور آتش کدے کے احاطے میں ان دونوں کی علامتیں رکھی جاتی ہیں۔
آتش پرست عام طور پر کسی نہ کسی شکل میں آگ کی موجودگی میں دعا کرتے ہیں اور عبادت کے بنیادی عمل کی اختتامی رسم “پانیوں کی تقویت” کا ایک تصور تشکیل دیتی ہے۔ آگ کو ایک وسیلہ سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے روحانی بصیرت اور حکمت حاصل ہوتی ہے، اور پانی کو اس حکمت کا منبع سمجھا جاتا ہے۔
ایک لاش کو گلنے سڑنے کے لیے ایک سرائے سمجھا جاتا ہے، یعنی دُرج کا۔ چناں چہ مقدس کتاب مُردوں کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا حکم دیتا ہے اس طرح کہ ایک لاش اچھی تخلیق کو آلودہ نہ کرے۔ یہ احکام مذہبی رسوم کے تیزی سے دھندلے ہوتے روایتی عمل کی نظریاتی بنیاد ہیں، جنھیں عام طور پر نام نہاد ٹاورز آف سائیلنس سے شناخت کیا جاتا ہے جس کے لیے مقدس صحیفے یا روایت میں کوئی معیاری تکنیکی اصطلاح موجود نہیں ہے۔
فی الحال برصغیر پاک و ہند میں یہ مذہبی رسم زرتشتی برادریاں ہی انجام دیتی ہیں، ایسے مقامات پر جہاں یہ غیر قانونی نہیں ہے اور ڈائیکلوفینیک زہر کی وجہ سے مردار خور پرندوں کی حقیقی معدومیت کا خطرہ بھی لاحق نہ ہو۔ دیگر آتش پرست برادریاں یا تو اپنے مردے کو جلا دیتی ہیں، یا انھیں قبروں میں دفن کرتی ہیں جن پر چونے کے مسالے کا کیس ہوتا ہے، حالاں کہ زرتشتی اپنے مُردوں کو ممکنہ حد تک ماحولیاتی طور پر بے ضرر طریقے سے ٹھکانے لگانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
اپنی کم تعداد کے باوجود، پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی پارسی برادری نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں انمٹ تعاون کیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ماما پارسی سیکنڈری اسکول، بی وی ایس پارسی اسکول، این ای ڈی یونیورسٹی، لیڈی ڈفرن اسپتال اور اسپینسر اور اینکلسریا آئی اسپتال ذہن میں آتے ہیں۔
بائی ویربائیجی سوپاری والا (BVS) پارسی ہائی اسکول کے بانی کی نواسی اور سابق پرنسپل دینا مستری نے 55 سال وہاں پڑھایا اور 2002 میں حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
کراچی کے علاقے تین تلوار کا تاریخی نشان دینا کے شوہر اور آرکیٹکٹ مینو مستری نے ڈیزائن کیا تھا۔ کراچی کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی مہتا نامی ایک پارسی تھے، جنھیں آج بھی جدید کراچی کے معمار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اردشیر کاؤسجی ایک مشہور کالم نگار اور سماجی کارکن تھے۔ انھوں نے کالم لکھے جس میں انھوں نے کراچی کے کرپٹ سیاست دانوں اور مافیاز پر کھل کر تنقید کی۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں