متفکرات۔۔۔۔کے ایم خالد

 

کھانا کھل گیا ہے
کچھ عرصہ سے پرنٹ ،الیکٹرونک اور سوشل میڈیا جیالے، متوالے اورسر فروش قسم کے پارٹی ورکرزکو ’’ایکسپوز‘‘کرنے پر تلا ہوا ہے۔ظاہر ہے جہاں پر کھانا ہو گا ،وہاں پر افراتفری تو مچے گی۔آپ پورے پاکستان کے کسی بھی علاقے کی ولیمہ کی کوریج کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔دراصل ’’کھانا کھل گیا ہے‘‘ ایک ایسا جملہ ہے جس کے صوتی اثرات میں ایک حملہ کی کفیت محسوس کی جا سکتی ہے۔میزوں کے ارد گرد بیٹھے ہوئے باراتی بیروں کے بھاپ اڑاتے، کھانا لگانے کے مناظر کو اپنی آنکھ کے جھروکوں میں محفوظ کرتے ہوئے ششت باندھے پلیٹوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھے بس ایک جملہ سننے کے لئے چاروں طرف عقاب کی طرح نظریں دوڑائے رکھتے ہیں کیونکہ اس تاریخی فقرے کی ادائیگی ایک ہی شخص کے سپرد کی جاتی ہے اور آخری وقت تک اس کو خفیہ رکھا جاتا ہے کہ اس فقرے کی ادائیگی کس کے سپرد ہے۔حالانکہ ولیمہ ایک پری پلان ہوتا ہے اور اس میں کھانے کا ختم ہو جانا ناممکنات میں ہوتا ہے ۔اس کے باوجود ’’کھانا کھل گیا ہے‘‘ سنتے ہی چمچے،کڑچھے اور پلیٹیں کھڑکنے کی آوازیں یوں محسوس ہوتی ہیں ۔جیسے کسی مغلیہ دور کے میدان جنگ میں دشمن پھڑکائے جا رہے ہوں۔
پارٹی ورکرز جیالے ،متوالے اور سرفروش ہوتے ہیں۔یہ اپنی پارٹی کے اشتہارات اور بیجز کو تعویز کی طرح اپنے سینوں سے لگائے رکھتے ہیں۔ان کا لیڈر جھک جائے ،بک جائے یا اسے نظریہ ضرورت کی سیاست کرنی پڑ جائے ووکر اس کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے انجان بن جاتے ہیں۔ ہوٹلوں،نائی کی دوکان اور چائے کے کھوکھوں پر اس کی سیاست کو زندہ رکھتے ہیں۔ ٹی وی پر ہونے والے ٹاک شوان جگہوں پر ہونے والے بالکل لائیو شو کا عشر عشیر بھی نہیں جہاں کافی دفعہ بات سر کھلنے یا چہرے کے ٹانکوں تک جا پہنچتی ہے ۔نیا پاکستان بنانا ہو یاپاکستان بچانا ہو سب تحریکوں کے لئے یہی جیالے ،متوالے اور سر فروش ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے جلسہ گاہ کی رونق ہے،جن کے نعرے نہ صرف آپ کو بلکہ مجمع کو ایک نئی آب و تاب دیتے ہیں۔جن کے سینے کسی بھی بلٹ پروف کیبن سے ذیادہ مضبوط ہیں۔جو ناشتے کے لارے سے دوپہر کے کھانے اور اس کے بعد جلسہ ختم ہونے کے لارے پر بھی سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ جاتے ہیں۔کیا ایک وقت کی روٹی سے ان کے پیٹ میں لگی ہوئی آگ بجھ سکتی ہے۔بھوک کی وہ آگ جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔اس کی تپش بھی ان کو ہر آن محسوس ہوتی رہتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اس ’’تکلف‘‘ کو بھی ’’بر طرف‘‘ کر دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی کسی کا پیٹ نہیں بھرسکتا ۔وہی ہے جو سب کو اس کے حصے کا رزق پہنچاتا ہے آپ تو چند سو ورکراورکھانے کو اکٹھا کرکے میڈیا کے حوالے کر دیتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جہنوں نے تحریک پاکستان سے پاکستان بنانے تک اور پاکستان بچانے تک ان تھک کام کیا، آمروں کے کوڑے کھائے اورظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کے لئے اپنے لہوکے چراغ جلاتے رہے۔روح تک زخمی لئے پھرتے رہے مگر زبان کبھی سوالی نہ ہوئی۔نہ کوئی شکوہ نہ کوئی شکایت ۔نہ کبھی پوچھا کہ آئین پاکستان میں تو ’’عوام‘‘ بہت خاص ہیں۔
ساحر لدھیانوی کی نظم کے چند اشعاراس امید کے ساتھ ’’شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘
نور سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی
ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دورکے چہروں کو ضیا بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے
لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل ؟
لوگ کہتے ہیں تو پھرٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میں جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہو نگے۔
***
آلو ہم شرمندہ ہیں
ہمیں خبر ہے کہ تجھ پر بہت برا وقت ہے منڈیوں میں تجھے اوقات یاد دلائی جا رہی ہے غریب کی ہر ہانڈی میں تو ہی تو نظر آ رہا ہے لیکن تیرے خام مال سے ’’مال ‘‘ بنانے والوں کے وارے نیارے ہیں تیری دیسی چپس سے کے ایف سی کی فرنچ فرائز اور لیز سے لے کر’’ اوئے ہوئے‘‘ تک سبھی کے ’اوئے ہوئے ‘‘ ہیں حکومت تیری مستحکم پوزیشن کے لئے شائد کچھ کر پاتی اگر اس کی اپنی پوزیشن مستحکم ہوتی وہ تو اپنی ’’آلو۔۔ لیکس ‘‘ میں پھنسی ہوئی ہے ۔ہمیں خبر ہے جب تجھے اگانے والوں کے گھروں میں جب بھوک ناچے گی پھر برسوں کوئی آلو نہیں اگائے گا حکومت اسکا نوٹس تب لے گی جب عوام آلو آلو کرئے گی پھر انتہائی مہنگے نرخوں پر درآمد ہوگا آلو یہ بھی پوچھنے میں حق بجانب ہے میں بر آمد کیوں نہیں ہوتا ۔۔۔؟

دسمبر ڈرائی فروٹ اورحافظ کا حلوہ
وہ بہت ہی بھیگا دسمبر تھا دھند اس قدر شدید تھی کہ گلی کی دوسری نکڑ پر کوئی چیز کھاتے دوست نظر نہیں آتے تھے۔گھر والے اس شدید سردی میں جوانوں کو لحافوں میں قید تو کر دیتے مگر جوانی کہاں ایسی سردی کو خاطر میں لاتی تھی۔ موبائل فون تو ایک طرف لینڈ لائن بہت کم دستیاب تھے ایسے میں فون کی ٹرن ٹرن نے ماحول کو گرما دیا فون اٹھانے سارے ہی بھاگے آتے تھے میں چونکہ قریب تھا میں نے لپک کر اٹھا کر ہیلو کر دیا ہیلو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب جو جہاں بھی ’’سٹاپ‘‘ ہو جائے سب میں چونکہ یہی بات طے ہوئی تھی کہ ہیلو کے بعد نہ چھینا جھپٹی ہوگی اور نہ ہی دھینگا مشتی ورنہ ابا کو مارشل لا ایڈمینسٹریٹر کا درجہ حاصل تھا اور وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کو کچلنے کی صلاحیت اور اختیار رکھتے تھے فون کی دوسری طرف قادر تھا ’’اوئے حافظ کاحلوہ ہے،ڈرائی فروٹ بھی ہے آجا‘‘ ابا کی موجودگی میں میرے منہ سے اچھا کی آواز ہی نکلی ’’کس کا فون تھا‘‘ ابا نے اپنے ارد گرد رضائی کی بکل ٹھیک کرتے ہوئے کہا ’’ابا جی قادر تھا کیمسٹری اور فزکس کے کچھ نمیریکل کی اسے سمجھ نہیں آ رہی ہے مجھے بلایا ہے‘‘ قادر کا شمار چونکہ ’’اچھے بچوں‘‘ میں ہوتا تھا اس لئے اجازت مل گئی میں سردی سے ٹھٹھرتا قادر کی بیٹھک میں پہنچا تو ابھی ’’پارٹی‘‘ شروع نہیں ہوئی بلکہ اسے حتمی مراحل میں داخل تھی چولہے پر گڑ سے بنائی جانے والی گچک تقریباً جلنے کے قریب تھی کیونکہ اس کا شیف منہ میں مونگ پھلی کے دانے ڈالے شائد چھوٹے کرنے میں مصروف تھا ’’یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘ میں نے گچک والے شیف کی جانب اشارہ کیا’’اوئے تجھے کہا تھا ڈرائی فروٹ گچک میں ڈالنا ہے تو خود کھا رہا ہے‘‘’’قادر نے اسے ڈانٹا ’’نہیں بس ایک دو دانے ہی منہ میں ڈالے ہیں‘‘’’حافظ کا حلوہ کہاں ہے؟‘‘بس آتا ہی ہو گا‘‘دوست آنے شروع ہو گئے جو حسب تو فیق ڈرائی فروٹ کی پڑیاں اٹھائے ہوئے تھے قادر کا دوست حافظ اعظم ایک بڑے سے تھا ل پر کپڑا ڈالے اندر داخل ہوا لو بھئی حافظ کا حلوہ بھی آ گیا یہ آٰخر میں کھائیں گے پہلے ڈرائی فروٹ کھاتے ہیں ڈرائی فروٹ میں مونگ پھلی،گچک، میرے لائے ہوئے املوک،ریوڑیا ں تھیں سب کی نگاہیں بار بار تھال کی طرف اٹھ جاتی تھیں ’’لوجی اب حافظ کے حلوے کی باری‘‘ قادر نے تھال سے کپڑا اٹھاتے ہوئے کہا ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ تصورات میں جو حافظ کا سوہن حلوے کی تصویر بنی تھی وہ ٹوٹ پھوٹ گئی سامنے تھال میں پتلا سا ’’لیٹی نما‘‘ حلوہ بہنے کی پوزیشن میں تھا ’’اوئے تو حافظ کا حلوہ کہہ رہا تھا‘‘ میں قادر سے شکایت کی ’’تو بھائی میں کیا غلط کہا حافظ اعظم کا حلوہ ہی تو ہے بس اعظم ہی بتانا بھول گیا‘‘۔
kmkhalidphd@yahoo.com

Advertisements
julia rana solicitors

 

Save

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply