چھپر کھٹ کا ناگ۔۔۔مریم مجید ڈار/افسانہ

سہاگ کی سیج پر بیٹھی شمع کا دل ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ آنے والے لمحات کی رنگینی و سنگینی کے تصورات کے بھاری پتھر سے بندھا ایک عجیب سی کیفیت کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔
اس کا شوہر لطیف ابھی کمرے میں نہیں آیا تھا اور شمع کو لطیف کی بہنیں، بھابھیاں اور رشتہ دار لڑکیاں حجلہ عروسی میں پہنچا کر اور مخصوص زنانہ ذومعنی چھیڑ چھاڑ سے زچ کرنے کے بعد رخصت ہو چکی تھیں ۔
“جانے کیا وقت ہوا ہے”؟؟ اس نے تھکن سے چور  اور کئی دنوں کی مسلسل شب بیداریوں سے بوجھل آنکھوں کو مسلتے ہوئے سوچا اور دیوار گیر گھڑی کو تلاشنا چاہا مگر دولہا دلہن کے اس شبستاں کو سجانے والوں نے شاید گھڑی کو غیر ضروری تصور کیا تھا تبھی تو چمکیلے پنوں، کپڑے کے سرخ اور گلابی مصنوعی پھولوں اور کاغذ کی لڑیوں سے سجے اس کمرے میں گھڑی کہیں بھی نہیں تھی۔
شمع نے جہازی پلنگ کے شیشے جڑے پشتے سے دو تکئیے جوڑے اور قدرے آرام دہ انداز میں ٹیک لگا کر بیٹھ رہی۔ ایسے وقت میں سرخ زرتار لباس میں جڑے گھنگھرو بے طرح چھنک اٹھے اور پھر ایک گھنگھرو ہی کیوں؟ دونوں بانہوں میں لدا دہکتے سرخ رنگ کا سہاگ چوڑا، دہری جھمکیوں والے بالے اور پیر میں پہنی چاندی کی مراد آبادی پازیبوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔۔’چھن چھن، کھن کھن ” اور شمع کی چشم تصور کی رنگینیوں نے اسے حیا سے دہرا ہونے پر مجبور کر دیا۔
اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو بمشکل خاموش کرایا ہی تھا کہ نظر پلنگ کے ساتھ رکھے چھوٹے سے میز پر جا رکی۔ وہاں پانی کا پھولدار شیشے کا جگ اور ایک گلاس رکھا تھا۔ ساتھ ہی ایک سلور کا بڑا سا گلاس بھی ڈھانپا ہوا موجود تھا” یہ لطیف کو یاد سے پلا دینا بھرجائی” اس کے کانوں میں اپنی بڑی نند، لطیف کی آپا کی سرگوشی سرسرائی تو مارے شرم کے ہتھیلیوں سے پسینہ پھوٹ نکلا۔
“آپا بھی حد کرتی ہیں، بھلا میں اچھی لگوں گی اپنے منہ سے انہیں یہ کہتے ہوئے”؟؟ اس نے سوچا اور گھٹنوں میں منہ دے لیا۔
مزید کچھ وقت انتظار کی رسی کو لمحات کی کند چھری سے کاٹتے گزرا تو بالاخر دروازہ کھلا اور لطیف ہاتھ میں کلاہ لیئے اور بازو پر شیروانی ڈالے اندر داخل ہوا۔
شمع جو نیم غنودگی میں تھی گبھرا کر سیدھی ہوئی اور بلا جواز دوپٹہ درست کرنے لگی ۔
“سلام عرض ہے جی” لطیف پرشوق نظروں سے اسے دیکھتا آگے بڑھا اور سلام کرتے ہوئے پلنگ پر اس کے قریب جا بیٹھا  ۔۔
شمع نے شرم اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت میں سلام کا جواب دیا جو شاید لطیف کی سماعتوں کو چھوئے بنا ہی کمرے کی فضا میں گم ہو گیا ۔ ۔
وہ  اسکی قربت اور نگاہوں کے والہانہ پن کو محسوس کرتے ہوئے سمٹی جا رہی تھی ۔۔دفعتا لطیف نے شمع کا مہندی سے رچا ہاتھ تھاما اور  اسے خود سے قریب کر لیا۔
شمع کے کانوں میں وہ ساری چھپی چھپی خفیہ ہدایئتیں اور ڈھکی چھپی باتیں گونجنے لگیں جو اسکی بھابھیوں، شادی شدہ بہنوں اور قریبی سہیلیوں نے انڈیلی تھیں۔۔
“دیکھ شمو!! لطیف بڑا ہی بیبا بندہ ہے۔ کوشش کر کے پہلی رات ہی پراندے سے گانٹھ لینا” شمع کی بھابی سکینہ نے مہندی والی رات اس کے کان سے منہ جوڑ کر یہ گر کی بات اسے بتائی تھی  ۔وہ جوابا ہتھیلیاں مسل کر گردن جھکائے بیٹھی رہی مگر یہ نہ پوچھ سکی کہ آخر ایک چھ فٹے جوان دیہاتی کو پراندے سے کیسے گانٹھا جا سکتا ہے ؟ اس کی یہ مشکل اس کی سہیلی زینت نے آسان کر دی اور دوسرے کان میں اسے لطیف کو لبھانے اور للچانے کے جو گر بتائے اسے سن کر شمع پوری جان سے کانپ گئی تھی ” نی اڑئیے! بیسواں لگا ہے ابھی تجھے ، کچنار کی کلی بھی تیرے سامنے پھیکی ہے، اوپر سے دودھ کی دھار سا رنگ! زینت نے حسرت سے اپنے سانولے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا” ہر بات شوہر کی مرضی پہ ہی نہ چھوڑ دینا، آج کل مردوں کو ذرا “فلموں” والا کام چاہئے ہوتا ہے۔” وہ خرانٹ پن سے آنکھیں مٹکاتی اسے مردوں کی “پسند” سے آگاہ کرنے لگی اور رات گئے جب اسے کمر سیدھی کرنے کا موقع ملا تو اس کے کان ان سب رنگین و سنگین مشوروں سے بوجھل تھے اور دل کہیں اندر ہی اندر ڈوبا جاتا تھا “اگر وہ لطیف کی امیدوں پر پوری نہ اتری تو۔۔۔؟؟؟ اور اس تو کے بعد کے بھیانک پن کو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ انہیں رنگ برنگ سوچوں میں ڈوبتے ابھرتے وہ گھڑی آن پہنچی تھی جب وہ پور پور سجی حجلہ عروسی میں سہاگ سیج پر بیٹھی تھی۔ لطیف کے ہاتھوں کی گرمجوشی اور نگاہوں کے خمار سے اسے اتنا اطمینان ضرور ہو چلا تھا کہ اسے “پسند ” کر لیا گیا ہے ۔
جانے عورت مرد کو “پسند” آ جانے کی خاطر کیوں اپنی زندگی کی ترجیحات طے کرتی ہے ۔۔؟ یہ سارا اہتمام بھی اس لئیے تھا کہ شمع لطیف کو “پسند” آ جائے ۔ ایجاب و قبول سے بھی بڑا مرحلہ “پسند” آ جانے کا ہوا کرتا ہے ۔
لطیف اب اس سجی ہوئی حسین مورت کو سینے سے لگائے گہرے سانس لے رہا تھا  ۔
مزید کچھ دیر گزری تو اس نے میز پر پڑا گلاس اٹھایا اور ایک سانس میں خالی کر کے دروازے کے پیچھے لگی کھونٹی پر شیروانی ٹانگ دی۔  شمع کی سانس سینے میں اٹک کر رہ گئی بلب کی ہلکی روشنی میں اس کا لباس، آرائشی لڑیاں اور لطیف کا سنہری کلاہ جگمگا رہے تھے ۔ کانچ کے موتیوں سے منعکس ہونے والی روشنیوں میں ہزار رنگ پھوٹتے تھے۔ ” رنگوں سے سجے اس کمرے میں اگر کچھ بے رنگ تھا تو فقط پلنگ پر بچھی وہ سفید چادر جس پر کڑھائی کئیے سرخ تکئیے رکھے ہوئے تھے۔۔
وہ سفید کیوں تھی؟؟ کیونکہ امتحانی کمرہ میں جوابات تحریر کرنے اور قابلیت ثابت کرنے کے لئیے سفید، کوری کاغذی کاپی دی جاتی ہے۔۔
اور شمع کو اس سفید چادر پر اپنی عصمت، پاکیزگی اور پاکدامنی کا ثبوت  سرخ دھبوں سے دینا تھا۔۔
لیکن کیا سبھی امتحان میں کامیاب بھی ٹھہرتے ہیں؟؟
لطیف نے بتی بجھا دی اور شمع نے خود کو اس کے سپرد کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں ۔ زینت کی ہدایئتیں اور بھابھی کی نصحیتیں اس کے کانوں سے بھاپ بن کر اڑ گئی تھیں ۔ یاد رہا تو بس وہ بے بسی کا احساس جس میں اسے سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔۔رنگوں سے سجی اس مورت کے سبھی کچے رنگ لطیف کی ہتھیلیوں، لبوں اور طاقتور جثے تلے مسل کر گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ پلنگ پر بچھے دیسی کپاس کے گدے اسےاپنی پیٹھ  پر چوبی تختے کی طرح محسوس ہو رہے تھے۔  سنہری اور چمکیلے رنگ اب  گورے شفاف بدن پر جامنی مائل نیلاہٹ کے دھبے بن کر پھیل رہے تھے۔ “آہ” وہ دھیرے سے سسک کر رہ گئی کیونکہ لطیف کا طاقتور بدن اس پر ایک ناگوار بوجھ کی طرح لدا ہوا تھا۔
وہ ساری لطافت، محبت اور نرمی، جس کے خواب وہ اس گھڑی  سے دیکھتی آئی تھی جب   سے بیاہ کے دن باندھے گئے تھے، اسکا شائبہ تک اسے نصیب نہ ہو سکا تھا۔ اس کے حسن کے قصیدے پڑھے گئے نہ لب و رخسار کی تعریف ہوئی لطیف نے حق وصولنے کا آغاز کیا اور شمع کو فرض نبھانا تھا۔
اس نے شمع کے منہ پر اپنا مضبوط ہاتھ جمایا اور مالکانہ احساس کے پورے غرور کے ساتھ اپنی طاقت ایک نازک عورت پر آزمانے لگا۔ شمع کے پورے وجود کو درد کی دو دھاری تلوار نے زخمی کر ڈالا۔ وہ چیخ جو اس کے سارے بدن کی گہرائی سے اٹھی تھی وہ لطیف کی ہتھیلی سے ٹکرا کر ایک ایسی آہ میں ڈھل گئی جسے اس کے شوہر نے مردانگی کے تمغے کے طور پر وصولا اور اسے ایک گوناں گوں اطمینان نصیب ہوا کہ اس کی “کارکردگی” بہترین رہی ہے ۔ دوستوں کے تیر بہدف نسخے اور آزمودہ  طریقے اس کے کام آ رہے تھے۔ آخر ایک مرد کی مردانگی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اس کی بیوی چھپر کھٹ پر درد آلود سسکیاں بھرے اور ماہی بے آب کی مانند تڑپے؟؟
“اب بس کر دو جی”!!  شمع نے ایک آدھ بار دبی دبی کراہوں کے درمیان لطیف کو روکنا چاہا مگر اس نے جذبے کے نابینا پن اور سنسناتے لہو کے شور میں اس کی فریاد سنی تک نہیں تھی۔ وہ ہانپتے، پسینہ بہاتے اور کانوں میں ٹھوکریں مارتے خون کے ابال میں شمع کے وجود پر مردانگی کی داستانیں رقم کرتا رہا جس میں اب اس وحشت کے سامنے مزاحم ہونے کی طاقت بھی نہ رہی تھی۔۔ آخر کار فطرت کو ہی اس پر رحم آیا اور اس کا شوہر بے دم ہو کر اس سے الگ ہوتے ہوئے پلنگ پر لڑھک گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ پرسکون نیند کی پناہ میں جا چکا تھا۔ شمع نے بری طرح دکھتے جسم کو سمیٹتے ہوئے لباس پہنا اور اس سے قدرے فاصلے پر لیٹ گئی ۔ “تو یہ تھی وہ سہاگ رات؟؟ جس کی رنگین داستانیں مجھے بیاہ سے پہلے سنائی گئی تھیں؟ ” یہ سوال اس کے بوجھل ذہن میں سنساہٹ پیدا کر رہا تھا۔ لطیف کے روئیے نے اس کے نازک احساسات کو اس بری طرح کچلا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک بیاہتا سہاگن کے بجائے ایک ایسی عورت محسوس کر رہی تھی جس کی عزت سر راہ لوٹ لی گئی ہو۔۔
دو بے آواز آنسو اس کی آنکھوں کے کونوں سے نکلے اور ایک لکیر بناتے ہوئے بے رنگ آنسو سرخ تکئیے میں جذب ہو گئے۔
تھکن اور ذہنی اذیت سے نڈھال شمع  چپکے چپکے آنسو بہاتی آخر کار سو گئی۔
صبح اس کی آنکھ لطیف کے جھنجھوڑنے سے کھلی جو بستر کے کنارے بیٹھا تھا ۔ اس کے بال گیلے تھے اور چہرہ برف کی سل جیسا سپاٹ نظر آتا تھا۔
“کب تک سوتی رہو گی؟ اب اٹھ بھی جاو” ! وہ عجیب کڑوے انداز میں اس سے مخاطب ہوا۔ شمع نے چادر ہٹائی اور پلنگ سے اتر کر غسل خانے کی جانب بڑھ گئی۔ تھکے ہوئے  بدن کو پانی کا لمس سکون بخش رہا تھا۔ کاش یہ پانی روح پہ لگے داغ بھی بہا لے جایا کرے۔۔
جب تک وہ نہا کر باہر نکلی تو کمرہ اس کی سسرالی عورتوں سے بھر چکا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر اور ساس رازدارنہ انداز میں سر جوڑے کچھ گفت و شنید کر رہے تھے اور چہروں کے تاثرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ موضوع خوشگوار تو ہرگز نہیں ہے۔
“خدایا خیر!!  کہیں جہیز میں تو کوئی کمی بیشی نہیں رہ گئی تھی؟؟” اس نے تشویش سے سوچا اور وہ ساری اذیت ناک تگ و دو اس کے ذہن میں ازسرنو تازہ ہو گئی جو اس کے بھائیوں اور چوہدری فضل کے منشی ،اس کے بوڑھے باپ نے جہیز کے سلسلے میں کی تھی تا کہ شمع کو سسرال میں عزت و مقام مل سکے۔
وہ انہیں سوچوں کے ہجوم میں گھری کھڑی تھی جب اس کی ساس کی نظر اس پر پڑی۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی اور بازو سے پکڑ کر ایک جانب لے گئی۔۔” اے بہو! پلنگ کی چادر تم نے بدلی ہے کیا”؟؟ اس کی سخت انگلیاں شمع کے بازو میں چبھ رہی تھیں اور آنکھوں سے شعلے سے لپک رہے تھے۔اسے اس عجیب سوال کی منطق سمجھ نہ آئی تھی۔
“نہیں اماں!!” وہ بمشکل بولی اور اس نے دیکھا کہ اس کی ساس کا چہرہ لاش کی مانند سفید پڑ گیا۔
“ہائے ربا!! دھوکہ ہو گیا ہمارے ساتھ۔۔۔” بڑھیا کی آنکھیں پھیل گئیں اور وہ  پاگلوں کی طرح بڑبڑانے لگی۔۔”کیسا دھوکہ؟؟؟ اماں کیا کہہ رہی ہو” ؟؟ شمع کی ہراسانی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا اور وہ خود پر پڑنے والی اس افتاد کی نوعیت اور وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
“توبہ توبہ!! کیسی کٹنی ہے تو!! بے حیا کیسی بھولی بنتی ہے ۔۔۔؟؟ پلنگ کی چادر “صاف” ہے !!! ہائے میں برادری کی عورتوں کو کیا منہ دکھاؤں گی۔؟” وہ توبہ تلا کرتے ہوئے شمع کو کوسنے لگی تو شمع پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ کس قدر سنگین صورتحال کا شکار ہو چکی ہے۔ سفید چادر کا مقصد اب اس کی سمجھ میں آیا تھا۔ وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔”نہیں اماں!! نہیں۔۔۔۔” اس کے منہ سے الفاظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں ہو رہے تھے ۔ ایک روزہ بیاہتا زندگی کی ناؤ خطرے میں نظر آنے لگی تھی۔ “اماں میں پاکباز ہوں۔۔۔لطیف سے پوچھ لو۔۔۔” وہ سسک رہی تھی۔
“اس سے کیا پوچھوں؟؟ اندھا ہےکیا وہ؟؟” بڑھیا غرائی۔
شمع کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس ساری صورتحال کا سامنا کیسے کرے اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت ساس کو کیسے دے ؟؟اسی وقت کسی نے دولہن کے میکے والوں کی آمد کی اطلاع دی اور ساس خونی نظروں سے اسے گھورتی ہوئی باہر کو چل دی۔
ولیمہ کی تقریب اس نے انگاروں پر لوٹتے گزاری اور جب میکے والوں نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو ساس اور شوہر نے رکھائی سے منع کر دیا۔
“اے بی بی ! ہمارے خاندان میں ایسی کوئی رسم نہیں ہوتی۔۔بہن بیٹی رخصت کر دی تو اب بسنے بھی دو” شمع کی چچیری ساس نے اس کی بہن اور بھابی کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے چاولوں کی تھالیاں ان کے آگے دھریں۔ گویا کھانا کھاو اور گھر کی راہ لو۔ایسے حوصلہ شکن روئیے کے  بعد انہوں نے خاموشی میں ہی بہتری جانی اور چلتے وقت جب بھابی نے شمع کو گلے لگا کر پوچھ لیا کہ وہ خوش تو ہے ناں؟ تو اس کے پاس سوائے ان آنسووں کے کوئی جواب نہ تھا جن کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں تھا ۔
ساری تقریب میں ساس کی تیوری اور شوہر کے سرد تاثرات نے شمع کی سانس کی طنابیں کھینچ رکھی تھیں۔
خدا خدا کر کے ہنگامہ سرد پڑا اور رشتہ داروں، مہمانوں کی رخصت عمل میں آنے لگی۔ شمع کے پیٹ میں بھوک اور خوف سے بل پڑ رہے تھے  کسی کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی تھی کہ دلہن کو دو نوالے ہی کھلا دیتا۔
شام تک گھر والوں کے علاوہ سبھی مہمان جا چکے تھے۔ وہ اپنے پلنگ پر پڑی ان ساری خوشیوں ، آسودگیوں اور سکون کے بارے میں سوچ رہی تھی جو ماں باپ کے گھر میں نصیب تھے۔
“اس بیاہ سے تو میں بن بیاہی پڑی رہتی، وہ بھلا تھا” ساس کے الزامات یاد آئے تو وہ تکیے میں منہ چھپا کر رو پڑی۔ماں نے رخصتی سے قبل جو نصیحتیں اس کے پلو سے باندھی تھیں ان کو ٹٹول کر دیکھا تو ایسا کچھ بھی موجود نہ تھا جو کردار کشی کرنے والوں کے منہ بند کرنے کی صیلاحیت رکھتا۔ وہاں تو “ماں باپ کی لاج رکھنا، شوہر کے گھرسے مر کر ہی نکلنا، اب تمہارا ٹھکانہ وہی ہے” بندھے رکھے تھے۔
“بھابی! اماں بلا رہی ہیں” چھوٹی نند نے کمرے کے دروازے سے جھانک کر اطلاع دی اور الٹے قدموں لوٹ گئی۔
اس کا دل سکڑ سا گیا اور  ممکنہ باز پرس اور پوچھ پڑتال کے لئیے خود کو تیار کرتی وہ ساس کے کمرے میں پہنچی جہاں بڑھیا اور لطیف بیٹھے تھے اور پلنگ کی سفید چادر ان کے درمیان گولہ سا بنی رکھی تھی۔
شمع کو دیکھ کر ساس سیدھی ہوئی اور ایک بار پھر وہی تلخ و تند سوالات اس سے پوچھے گئے کہ اگر وہ باکردار و باکرہ تھی تو سفید چادر پہ اس کی گواہی کیوں نہیں تھی؟
شمع نے روتے سسکتے ہوئے اپنی صفائی دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ماں باپ کی جانوں کی قسم تک کھائی کہ وہ بیاہ سے پہلے تک ان چھوئی تھی ۔ وہ بھکاریوں کی طرح گڑگڑا رہی تھی کہ اس کا یقین کیا جائے اور ساس اور شوہر ماش کی دال کی طرح اینٹھے جاتے تھے۔
آخر معاملہ اس پر طے پایا کہ شمع قران سر پر رکھے اور پاک کتاب کی قسم کھا کر خدا کو گواہ بنا کر کہے کہ وہ باکردار ہے۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں؟ شمع کو بمشکل شروع ہوئی ازدواجی زندگی بچانے کا جو موقع میسر آ رہا تھا، وہ اسے کیسے گنوا سکتی تھی؟ فٹافٹ وضو کر کے آئی اور قران مقدس کو ہاتھ میں لے کر بڑھیا اور شوہر کی من مرضی کی قسم کھائی اور اطمینان کا سانس لیا۔
اس کے بھولپن کی یہ انتہا ہی تھی کہ وہ قران کی قسم پر ہی معاملہ ختم سمجھ بیٹھی تھی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس پر زندگی تنگ ہونے لگی تھی۔ لطیف اول تو اسے میکے جانے ہی نہ دیتا تھا اور اگر مارے بندھے جانا بھی ہوتا تو پورا دن سسرال میں بیوی کے ساتھ دن گزارتا اور شام میں واپس گھر لے آتا۔ میکے میں ایک رات گزارنے کی خواہش اب شمع کی حسرت بن گئی تھی۔ساس دن بھر بیل کی طرح کاموں میں جوت رکھتی اور کوئی کام پسند نہ آنے پر جو صلواتوں کا سلسلہ ماں کی تربیت سے شروع ہوتا وہ گھوم پھر کر سفید چادر پر جا پہنچتا۔
“ارے! یہ تو ہم ہی تھے جو اعتبار کر لیا، ہوتا کوئی اور سسرال تو اگلے ہی دن  ناک چوٹی کاٹ کر ماں کے گھر بجھوا دیتے”!! ایسے زہریلے طعنے سن سن کر شمع سوچنے لگتی کہ کاش اس شام اس سے قران اٹھوانے سے اچھا تھا لطیف اسے دو لفظ بول کر فارغ کر دیتا۔
اگر دن سلگتے گزرتا تھا تو رات کون سا پھولوں کی سیج پر آتی تھی؟ شوہر اس کے پاس صرف تبھی آتا تھا جب اپنی طلب اسے مجبور کرتی تھی۔ جبلت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے دوران بھی وہ شمع کو نفسیاتی کچوکے لگانے سے باز نہیں آتا تھا۔”اچھا!! اب تو تمہیں بسا لیا میں نے، اب ہی بتا دو ۔۔۔کون تھا؟؟ چچا زاد؟؟ ؟ماموں زاد؟؟ اچھا وہ پھوپھی کا بیٹا جو بیاہ والے دن پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا؟؟ چلو!! وہ نہ سہی تو کوئی آس پڑوس کا ہمسایہ؟؟” وہ شمع کے بال مٹھی میں جکڑ کر ہلکا سا جھٹکا دے کر پوچھتا اور پھر زہریلی ہنسی ہنستے ہوئے اپنی خواہش پوری کرنے لگتا۔
اس قدر توہین پر شمع کا جی چاہتا وہ تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا لے ۔ وہ خود کو قابل نفرت سمجھنے لگی اور آہستہ آہستہ  اس نفرت نے کراہئت کا روپ دھار لیا۔ وہ گھنٹوں نہاتی، بار بار ہاتھ دھوتی مگر لطیف کے غلیظ جملے اس کے بدن پر اپنے پیپ آلود ہاتھ پھیرتے رہتے۔
دن بھر گھر کے کاموں میں پستی اور رات کو پلنگ پر ذلیل ہوتی۔ شادی اس کے لئیے ایک ایسی سزا ثابت ہو رہی تھی جس کا کوئی اختتام نہیں تھا۔
کاش میری ماں نے واپسی کا کوئی در میرے لئیے کھلا رکھا ہوتا!! وہ سسک سسک کر سوچتی اور نفرت کی آگ میں جھلستی رہتی۔
یہ سارا سلسلہ چھ ماہ تک بلاتعطل چلتا رہا اور پھر ساس کو ایک نیا شغل ہاتھ آ گیا کہ بہو نے ابھی تک خوشخبری کیوں نہیں سنائی تھی۔۔وہ اٹھتے بیٹھتے اس کے دن گننے لگتی۔ “ارے! جمیلہ کے بیٹے کی جنج میرے لطیف کی بارات کے ہفتہ بعد چڑھی تھی اور اس کی بہو کو تیسرا مہینہ لگا ہے،! اور یہاں یہ خالی ڈھنڈار بسورتی مورت۔! !ہائے ہائے!!! کیسا پتھر میں نے بیٹے کی جھولی میں ڈال دیا! وہ تاسف سے ہاتھ ملنے لگتی اور شمع کا جی چاہتا وہ پلنگ کی وہ منحوس چادر گلے میں ڈال کر شہتیر سے لٹک جائے جس پر اس کی عزت نفس، جذبات اور خواہشوں کا خون تو ضرور تھا مگر وہ لعنتی مکروہ دھبے نہیں تھے جنہوں نے اس کا مقام، مرتبہ اور کردار سسرال میں طے کرنا تھا۔ ۔اس پر لگنے والے الزامات میں اب “بانجھ” کا الزام  بھی شامل تھا۔
اسے زندگی ایک ایسے پنجرے کی طرح لگنے لگی تھی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑتاجاتا ہے اور پر پھڑپھڑانے کی گنجائش بھی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔
وہ ایک طوفانی بارش کی رات تھی ۔ دو دن پہلے شروع ہونے والی جھڑی نے اس قدر شدت اختیار کر لی تھی کہ نہر کا پشتہ ٹوٹ گیا تھا  ۔ گاوں کی مسجد سے دن بھر اعلان ہوتے رہے تھے کہ لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں ۔سیلابی ریلہ کبھی بھی گاوں میں داخل ہو سکتا ہے ۔ لطیف دن میں ہی اپنی ماں اور چھوٹی بہنوں کو دوسرے گاوں میں اپنی بڑی بہن کے گھر چھوڑ آیا تھا اور اب گھر پر صرف شمع ہی تھی۔ ساس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ سامان کو  چھت پر بنی کوٹھڑی  میں محفوظ کرے اور سیلابی پانی آنے کی صورت میں دونوں میاں بیوی چھت پر پناہ لے لیں۔۔
لطیف مولوی صاحب کے ساتھ مل کر مسجد کا ضروری سامان سمٹوا رہا تھا اور شمع گھر پر اکیلی تھی ۔ بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے کڑکتی آسمانی بجلی سے شمع کا دل دہل جاتا اور وہ گھبرا کر کمرے میں ٹہلنے لگتی۔ وہ سارا دن اکیلی ہی سامان گھسیٹتی پھری تھی اور اب خوف،تھکن اور بھوک ملکر اسے اعصاب زدہ بنا رہے تھے۔
یکدم بجلی زور سے چمکی اور اسے کھڑکی کی سلاخوں سے کچھ لپٹا ہوا نظر آیا۔۔۔اس نے موم بتی اٹھائی اور قدرے نزدیک جا کر دیکھنے لگی۔ وہ کہنی بھر لمبا سانپ تھا جو بارش اور سیلابی پانی سے بچتا ہوا آہنی سلاخوں سے لپٹا ہوا تھا۔
برسات میں سانپوں کا نکل آنا ایک عام سی بات تھی ۔ اس علاقے کے اکثر سانپ غیر ضرر رساں ہوتے تھے مگر اس کی بھوری کھال پر  بنے زرد دھبوں سے شمع کو اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک زہریلا سانپ ہے۔
خوف سے اس کی چیخ نکل گئی۔ وہ کیا کرے؟ کیسے اس سانپ سے نجات حاصل کرے؟ لطیف جانے کب گھر آتا اور تب تک سانپ اگر کسی اور کونے کھدرے میں جا گھسا تو؟؟ وہ لرزتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ ایک دو بار ہمت کر کے اس نے کپڑے دھونے کے ڈنڈے سے سانپ کو مارنا چاہا مگر عین موقع پر ہمت ہار دی ۔
سانپ ٹھنڈ کی وجہ سے بہت سست تھا اور شمع کے قریب جانے پر وہ محض اپنی پتلی دوشاخہ زبان نکال کر اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتا اور پھر سے سلاخوں سے لپٹ جاتا۔
شمع نے ہمت متجمع کرتے ہوئے اس کا قریب سے جائزہ لیا تو دیکھا کہ سانپ کی دم زخمی تھی اور اس سے خون بھی بہہ رہا تھا۔
وہ بے خیالی میں زخمی سانپ کو دیکھے گئی ۔اس میں اسے ساس اور شوہر کے خشونت زدہ چہرے اور زہریلے رویئے نظر آنے لگے۔ “آوارہ! بدکردار۔۔”لطیف کا ذہرآلود لہجہ سماعت میں گونجا۔”میری ہی عقل پر پتھر پڑ گئے تھے جو اس کمبخت ماری کو بہو بنا لیا۔” ساس کی پھنکار کانوں سے ٹکرائی۔
سانپ اب ہولے ہولے حرکت کر رہا تھا۔ یکدم بجلی زور سے کڑکی اور شمع کو ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔ “کیا یہ سانپ ان دونوں سے زیادہ زہریلا ہو گا؟؟ سال ہونے کو آیا لطیف اور اس کی ماں کا زہر برداشت کرتے کرتے!!کیسی ڈھیٹ ہوں؟ کیسی سخت جان کہ مرتی ہی نہیں؟؟ وہ سوچ رہی تھی۔ “اس کا زہر کیا لطیف کے بے بنیاد الزامات سے زیادہ بے رحم ہو گا؟؟ ” وہ جو چھپر کھٹ کا ناگ ہے اور ہر روز میرے جسم اور روح کو ڈستا ہے وہ کیا اس سے زیادہ خطرناک نہیں”؟؟؟وہ دھیرے سے بڑبڑائی ۔”میں جو اس سے نجات پانے کا سوچ رہی ہوں جس نے مجھے کوئی گزند نہیں پہنچایا تو لطیف اور بڑھیا کی دی گئی اذیتیں میں کس طرح سہتی رہی؟؟” ایک بے بنیاد رواج کی بھینٹ میری تربیت اور کردار چڑھایا گیا اور میں قسمیں کھاتی، قران اٹھاتی اپنی سچائی  ثابت کرتی رہی، وہ سچائی جسے کبھی کسی نے سچ نہ مانا!! آخر کیوں؟؟ کیا صرف اس لئیے کہ ماں نے رخصت کرتے وقت میکے کو پرایا کر دیا تھا؟ ہر طرح کے ظلم سہہ کر، ہر دکھ برداشت کر کے گھر بچائے رکھنے کی تاکید کی تھی۔۔؟؟ وہ گھر، جو کبھی بنا ہی نہیں تھا؟ وہ شوہر جو ہمیشہ سے مجھے بیاہی طوائف سمجھ کر پیش آتا رہا۔۔؟؟ ”
وہ دیر تک کھڑی سوچتی رہی اور پھر ایک فیصلہ کر کے اس کے دل و دماغ ہلکے پھلکے ہو گئے۔ اتنے مہینوں کی مسلسل ذہنی اذیت سے ماوف ہوا دماغ اب سوچنے سمجھنے کے قابل ہو رہا تھا۔ اس نے ایک  نظر سانپ پر ڈالی اور باورچی خانے کی جانب بڑھ گئی۔
رات کا پہلا پہر گزرنے کو تھا جب لطیف نے کنڈی بجائی تھی۔ شمع نے دروازہ کھولا تو وہ اسے روٹی لانے کا حکم دے کر کمرے میں چلا گیا۔
شمع نے تازہ روٹی ڈالی اور سالن گرم کیا اور جب وہ کھانا لے کر کمرے میں آئی تو لطیف جو نیم دراز تھا وہ اٹھ بیٹھا۔ شمع نے اس کے سامنے ٹرے دھری تو وہ جلدی جلدی کھانے لگا۔ غالبا اسے خاصی بھوک لگ رہی تھی، جلد ہی اس نے کھانا ختم کر لیا اور دسترخوان سے ہاتھ پونچھ کر پھر سے لیٹنے کی تیاری کرنے لگا۔
“چائے؟؟” شمع نے دھیمی آواز میں اس سے دریافت کیا۔ “نہیں!! بہت تھک گیا ہوں، اب سووں گا، پیر داب دے” اس نے ٹانگیں پسار لیں اور شمع سر ہلاتے ہوئے پائینتی کی جانب آ بیٹھی۔ بھرے پیٹ، آرام دہ بستر، تھکاوٹ اور شمع کے نرم ہاتھوں کے لمس کی بدولت جلد ہی لطیف گہری نیند میں خراٹے لینے لگا۔
شمع نے اسکی نیند گہری ہونے کا انتظار کیا اور پھر دھیرے سے پلنگ سے اتری اور نیچے رکھی روٹیوں کی ڈلیا باہر نکال لی۔
موم بتی کی لرزتی لو میں اس نے ہاتھ پر موٹا کھیس لپیٹا اور ڈلیا  کھول کر سانپ کو پکڑ لیا۔
وہ گرمی ملنے کے باعث متحرک ہو گیا تھا اور طیش میں آ کر اپنا سر بار بار ہوا میں جھٹک رہا تھا۔
شمع نے اسے احتیاط سے اٹھایا اور بے خبر سوئے لطیف کی پائینتئ کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس کا ایک پاوں چادر سے باہر نکلا ہوا تھا۔ شمع نے سانپ کو دھیرے دھیرے اس کے پاوں کی جانب بڑھایا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی موم بتی سے  سانپ کی لٹکتی دم کو آنچ دینے لگی۔ وہ دفعتا تکلیف کی شدت سے تڑپا اور اس نے لطیف کے پیر کے انگوٹھے پر ڈس لیا، ایک بار، دو بار ۔وہ نیند میں ہلکا سا ہلا اور پھر سے ساکت ہو گیا۔ ۔شمع کو جب یقین ہو گیا کہ زہر کی مطلوبہ مقدار لطیف کے جسم میں جا چکی ہے تو اس نے اپنے محسن سانپ کو کھلی کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔۔
سکون کی لہریں اس کے سارے جسم میں پھیل رہی تھیں اور دل و دماغ بالکل ہلکے اور تروتازہ تھے۔
اس نے قریب آ کر دیکھا تو جہاں سانپ نے ڈسا تھا وہ جگہ سوج کر نیلاہٹ مائل ہو رہی تھی ۔ وہ کھڑکی بند کر کے لطیف کے پہلو میں آ کر لیٹ گئی۔
ماں نے بیاہتا بیٹی کو روٹھ کر آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔مگر بیوہ ہو کر تو اس پر میکے کے در وا ہو سکتے تھے۔اس نے ایک بھرپور انگڑائی لی اور دھیرے دھیرے گہری، پرسکون نیند کی آغوش میں اترنے لگی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شد

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply