میشا شفیع کا مذاق کیوں اڑایا گیا؟ ڈاکٹر عرفان شہزاد

میشا شفیع کا مذاق کیوں اڑایا گیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میشا شفیع کا علی ظفر پر الزام سچ ہے یا جھوٹ اس سے قطع نظر، ہمارے مردوں نے اس پر جو رسپانس دیا ہے اس سے ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ خبر کی تحقیق ہونے تک غیر جانب دار رہنا بہتر رویہ ہو سکتا تھا مگر نہیں، انھوں نے اس کا مذاق اڑایا، وجہ ؟ ان مرد حضرات نے میشا کے ماڈرن کپڑوں کی وجہ سے تبصرہ فرمایا کہ علی ظفر نے ایسا کچھ کیا بھی ہے تو ایسی خواتین کے ساتھ ایسا کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، بعض دوسروں کے نزدیک اس کی شکل و صورت اس قابل نہیں کہ اسے ہراساں کیا جائے۔ علی ظفر نے اگر ایسا کیا ہے تو اس کا ٹیسٹ خراب ہے۔ ایک لمحہ سوچیے اگر واقعی اس کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو اس کے دل پر کیا گزری ہوگی؟ یا ایسی کسی خاتون پر جو اسی تجربے سے گزری ہے مگر سماج کا رد عمل دیکھ کر خاموش ہو گئی ہے۔

یہ مرد حضرات یہ جاننے کے باوجود کہ اس سٹیٹس کی خواتین کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے، محض اس وجہ سے اس کی حمایت کرنے یا کم از کم غیر جانب دار ہی رہنے پر تیار نہ ہوئے کہ شکل سے وہ مظلوم نہیں لگتی، جس کے لیے ان کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی اور وہ تحقیق کے بغیر ہی اس کی حمایت میں کود پڑتے، جیسا کہ وہ اس طرح کے معاملات میں مظلوم عورتوں کی حمایت کر لیتے ہیں۔

کیا جوشکل سے مظلوم نہیں لگتے ان کے ساتھ ظلم نہیں ہوتے؟ ہر قسم اور ہر درجے کی خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کتنی عام اور کم کن طریقوں سے ہوتی ہے یہ سب یہ مرد نہیں جانتے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ خوش حال اور ماڈرن خواتین اپنی ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت کہاں کریں؟ یہ اپنی شکایت کو فریاد نہ بنائیں تو کیا اس پر ہماری ہمدردی اور توجہ کی مستحق نہیں ہو سکتیں؟ ہماری مردانہ ہمددری ایک روتی بلکتی عورت کیوں چاہتی ہے، ایک با حوصلہ عورت ہماری ہمدردی کی مستحق کیوں نہیں ہو سکتی؟
یا پھر وہ اس لیے میشا کی مذمت یا تمسخر اڑانے پر اتر آئے کہ اس کا حسن اس لیول کا نہیں کہ ان کی ‘ہمدردی’ کو ‘بھڑکا’ سکتا۔ کسی کم شکل کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بھی اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی خوش شکل کو۔ ہمارے ہاں تو بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے جنسی درندے کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بھی تب بنا اور اسے سزا اس لیے ہوسکی کہ اس دفعہ مرنے والی بچی بھوری آنکھوں والی ایک خوب صورت بچی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کسی اور بچی کے لیے اتنی آواز بلند نہ ہو سکی۔
غیرت مند اور عزت دار عورت کی تعریف ہمارے سماج کے جس روایتی مردانہ ذہن سے نکلتی ہے اس میں میشا جیسی خواتین کی داد رسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
میشا جیسی خواتین کی عزت ہمارے جدید بظاہر پڑھے لکھے مرد کی نظر میں بھی اتنی ہی ہے جتنی گاؤں کے غریب گھرانوں کی بچیوں کی عزت گاؤں کے وڈیروں کی نظر میں ہوتی ہے۔ یہ غریب بچیاں اگر شکایت کریں توہ بھی ان کا اسی طرح مذاق اڑاتے ہیں جسیے میشا جسی خواتین کا مذاق ہمارے پڑھے لکھے شہری مرد اڑاتے ہیں۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply